"KDC" (space) message & send to 7575

آئین سے متصادم الیکشن دفعات

آج کچھ متفرق موضوعات پر بات کرتے ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان کے معروضی زمینی حقائق پر مبنی اپنے تجزیے میں یہ بات بالکل درست کہی ہے کہ عالمی امن و استحکام کا دار و مدار خطے کے دیرینہ تنازعات کے حل پہ ہے۔ ہمسایہ ملک افغانستان سے شروع کرتے ہیں جہاں طالبان نے اچھے خاصے بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا ہے اور یہ قبضہ مسلسل وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ صدر اشرف غنی اور صدرِ امریکہ جو بائیڈن کے مابین ملاقات سے قبل وزیر اعظم عمران خان کے ایک امریکی اخبار کو دئیے گئے انٹرویو کے وہ مندرجات متعلقہ امریکی حلقوں میں توجہ کا سبب بنے ہوئے ہیں‘ جن میں انہوں نے واضح کیا ہے کہ امریکہ کو پاکستان میں اڈے نہیں ملیں گے۔ طالبان امریکہ معاملات میں پاکستان کے اہم کردار کے باوجود افغانستان سے امریکی انخلا کے عمل میں اسے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ کیا اس کی وجہ ہمارے حکمرانوں کا خارجہ امور کی نزاکتوں اور باریکیوں سے آگاہ نہ ہونا ہے یا اس کا سبب یہ ہے کہ ان کی زیادہ تر توانائی اپوزیشن کو دبانے میں استعمال ہو رہی ہے یا یہ ہے کہ جہانگیر ترین گروپ نے انہیں سیاسی طور پر کمزور کر دیا ہے؟ اس بارے میں وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ آثار بتاتے ہیں کہ آئندہ چند مہینوں میں حکمران جماعت کے اندر مزید گروپ سامنے آئیں گے اور لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کا شیڈول آنے پر سربراہ حکومت کی پارٹی امور پر گرفت مزید کمزور ہو سکتی ہے۔ یہ درست ہے کہ الیکشن 2023ء تک وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو خطرہ نہیں ہے‘ لیکن جہانگیر ترین کی نااہلیت کا معاملہ اور کچھ دوسرے ایشوز ان کے لیے دشواریاں پیدا کر سکتے ہیں۔ ثمینہ قیصرانی کیس میں عدالت نااہلیت کے بارے میں اہم فیصلہ دے چکی ہے جس میں نیک نیتی اور بد دیانتی کے فرق پر تفصیلی بات کی گئی۔ جہانگیر ترین کے گروپ کو تحریکِ انصاف اور دیگر دوسری سیاسی جماعتیں ٹکٹ نہیں دیں گی‘ البتہ آصف زرداری انہیں قبول کر سکتے اور اپنی پارٹی کا ٹکٹ دے کر انہیں آگے بڑھا سکتے ہیں۔ پاکستان کا پارلیمانی نظام حالیہ بجٹ سیشن میں ارکان اسمبلی کی عدم دلچسپی کی وجہ سے فلاپ ہوتا محسوس ہونے لگا ہے۔ قومی بجٹ کے اجلاس میں قومی اسمبلی کے ارکان کی تعداد واجبی تھی۔ چونکہ کسی رکن نے کورم کی نشان دہی نہیں کی لہٰذا اجلاس چلتے رہے۔ ان حالات میں پاکستان کے اہل دانش‘ جن کی پارلیمانی سسٹم پر گہری نظر ہے‘ چین کے سیاسی پارٹی نظام کی طرف دیکھتے ہیں جس کی رو سے چین کا سیاسی نظام عالمی سیاسی ترقی کیلئے ایک رول ماڈل ہے اور اپنے ملک کی ترقی و قومی احیا اور معاشرتی فروغ میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
حکومت پاکستان انٹرنیٹ ووٹنگ اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو قانونی حیثیت دینے پر بضد نظر آتی ہے۔ میرے خیال میں اس معاملے میں اپنا حریف تصور کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اراکین سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرکے وہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 10 کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ میں نے اپنے ایک کالم میں تجویز پیش کی تھی کہ وزیر اعظم الیکشن کمیشن آف پاکستان کے آئینی تحفظات کے ازالہ کے لیے سینیٹر سید علی ظفر اور وفاقی وزیر قانون و انصاف ڈاکٹر فروغ نسیم اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سیکرٹری پر مشتمل کمیٹی تشکیل دیں تاکہ جو دفعات آئین سے متصادم ہیں ان کو حذف کر دیا جائے یا پھر آئین سازی کر کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے موقف کی تائید کی جائے۔ اگر اکثریت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کی آئینی ترامیم منظور نہیں ہو پاتیں تو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یہ کام ہو سکتا ہے‘ لیکن پھر الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اپنے موقف کے تحت عدالت میں حکومت کی منظور کردہ الیکشن ترامیم کو چیلنج کرنا پڑے گا۔ اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے موقف کے مطابق فیصلہ جاری ہوا تو پھر حکومت کا موقف متاثر ہو گا۔ پھر ممکن ہے اس کے فوری بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس‘ جو سات سال سے زیرِ التوا ہے‘ کی قسمت کا فیصلہ بھی ہو جائے۔ میری اطلاع کے مطابق فارن فنڈنگ کیس میں امریکی شہری‘ جو ان دنوں امریکہ میں منی لانڈرنگ کیس کی بنا پر جیل میں ہیں‘ کی جانب سے اہم دستاویزات مع ٹھوس ثبوتوں کے الیکشن کمیشن کے پاس پہنچ چکی ہیں۔ ایسی کچھ خبریں سوشل میڈیا پہ بھی گردش کر رہی ہیں، لہٰذا میری رائے میں کسی بھی نوعیت کے آئینی بحران کی زد میں آنے سے پہلے جناب وزیر اعظم عمران خان کو اپنے ارد گرد موجود غیر منتخب معاونین سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہیے اور منتخب ارکانِ اسمبلی کی رائے کو اہمیت دینی چاہیے۔ ان کے کچھ دستِ راست ان معاونین کے بارے میں شدید تحفظات رکھتے ہیں۔
اب کچھ بات انٹرنیٹ ووٹنگ کی۔ وزیر اعظم عمران خان کو غالباً ان کے دوہری شہریت کے حامل بعض اہم دوستوں نے یہ باور کرایا ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹ ڈالنے کا نظام متعارف کرانے سے پاکستان تحریک انصاف دوسری مرتبہ اقتدار حاصل کر سکتی ہے۔ میری نظر میں یہ محض خام خیالی کا نظریہ ہے۔ اسی طرح کا نظریہ 2009ء میں صدر آصف علی زرداری کو بھی پیش کیا گیا تھا کہ ان کی کامیابی کا راز بیرونِ مقیم پاکستانی ووٹرز ہی ہو سکتے ہیں، تو انہوں نے الیکشن کمیشن کے سپرد ایک خاص مشن کیا تھا۔ میں نے بطور سیکرٹری الیکشن کمیشن بین الاقوامی سطح پر اس معاملے کے مشاہدے کے بعد یہ رپورٹ ان کو پیش کی تھی کہ پاکستان میں یہ تجربہ اس لیے ناکام رہے گا کیونکہ خلیج کے کچھ ممالک نے وہاں مقیم پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کی سہولت فراہم نہیں کریں گے اور اگر یہ سہولت مل بھی جائے تو پھر بھی اس میں شفافیت اور رازداری کا فقدان موجود رہے گا۔ رپورٹ کے مطابق ایک مسئلہ یہ تھا کہ پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتیں ممکنہ طور پر اس سسٹم کو مسترد کر سکتی ہیں۔ ان دنوں انٹرنیٹ ووٹنگ سسٹم متعارف نہیں ہوا تھا لہٰذا الیکشن کمیشن پوسٹل بیلٹ کے ذریعے ووٹ کاسٹ کرنے کا طریقہ اختیار کرنے کا سوچ رہا تھا‘ لیکن پھر کچھ ممالک کی شدید مخالفت کی وجہ سے اور وزارتِ خارجہ، وزارتِ داخلہ، وزارتِ لیبر، وزارتِ قانون و انصاف اور وزارت اوورسیز کی سفارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ پروجیکٹ داخل دفتر کر دیا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے تب صدر آصف علی زرداری کو غیر سرکاری طور پر تجویز دی تھی کہ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے بجائے ان کے لیے آئین کے آرٹیکل 224 میں ترمیم کر کے خواتین اور مینارٹی نشستوں کی طرز پر کچھ نشستیں مخصوص کر دی جائیں۔ صدر آصف علی زرداری نے میری تجویز کو وزارتِ قانون و انصاف بھجوانے کے لیے اپنے سیکرٹری جنرل سلیمان فاروقی کو ہدایت دی لیکن بعد ازاں یہ تجویز بھی داخلِ دفتر کر دی گئی۔ اب الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ 2017ء کی 13 ترامیم کو آئین سے متصادم قرار دیا ہے تو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ علاوہ ازیں میرے خیال میں انتخابی فہرستوں کی تیاری کے عمل کے بارے میں تمام دفعات حذف کر کے تمام اختیارات نادرا کی تحویل میں دینے سے الیکشن کمیشن ایک کمزور ادارہ کی حیثیت اختیار کر جائے گا، کیونکہ انتخابی فہرستیں شفاف انتخابات کی ضامن ہوتی ہیں اور انہی کی بنیاد پر الیکشن پولنگ سکیم، پولنگ ٹیسٹوں کا قیام، رزلٹ کی تیاری وغیرہ کا انتظام کرتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں