"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابی اصلاحات کے محرکات

وزیراعظم عمران خان الیکٹرانک ووٹنگ کا نظام جلد از جلد تیار کرنے کے حوالے سے پُرعزم ہیں۔ وفاقی وزرا نے الیکشن ایکٹ 2017ء کے ترمیمی بل کی منظوری سے پیشتر ہی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی خریداری اور تیاری کے اختیارات سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ادارے کو دے دیے تھے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ووٹنگ مشین میں استعمال ہونے والا کاغذ پانچ سال تک خراب نہیں ہوگا اور مشینadhesive ڈالنے سے بھی خراب نہیں ہوگی اور وزیراعظم پُراعتماد ہیں کہ اگلا الیکشن الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے ہی شفافیت پر مبنی ہوں گے۔ حیرانی اس امر کی ہے کہ حکومت نے اس سارے عمل میں الیکشن کمیشن کو نظرانداز کر دیا جبکہ بھارت میں الیکشن کمیشن کی نگرانی ہی میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین بنگلور میں تیار کی گئی تھی جسے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا بین الاقوامی حب سمجھا جاتا ہے اور امریکہ کی حساس نوعیت کی ٹیکنالوجی بھی بنگلور میں ہی تیار کی جاتی ہے۔ بہرحال یہ دعویٰ خوش آئند ہے کہ پاکستان میں تیار کردہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین انڈیا سے بہتر ثابت ہو گی۔ الیکشن کمیشن کو بلاوجہ سیاسی اصلاحات کیساتھ منسلک کر دیا ہے۔ انتخابی اصلاحات پر نظر رکھنا تو اس ادارے کا قانونی اور آئینی استحقاق ہے۔
جناب وزیر اعظم نے صدر مملکت سے مشاورت کے بعد انتخابی اصلاحات پر الیکشن کمیشن کے تحفظات کا ازالہ کرنے کیلئے اٹارنی جنرل سے معاونت حاصل کرلی ہے اور سینیٹ میں بھی الیکشن ایکٹ 2017ء کا ترمیمی بل فی الحال مؤخر کردیا گیا ہے کہ حکومت اور الیکشن کمیشن کے مابین انتخابی نظام میں ایسی دفعات‘ جو آئین پاکستان سے متصادم ہیں‘ میں تبدیلی کے لیے اتفاقِ رائے پیدا کیا جا سکے اور وزیراعظم نے وسیع تر قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے عندیہ دیا ہے کہ الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کو موجودہ حالت میں سینیٹ سے منظور کرایا جائے اور نہ ہی اسے قانون بنانے کیلئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے۔ مجوزہ انتخابی اصلاحات پر سٹیک ہولڈرز کی جانب سے تنقید سامنے آنے کے بعد حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ وہ انتخابی عمل کے حوالے سے ترامیم کو قانونی شکل دینے کیلئے یک طرفہ اقدامات نہیں کرے گی۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان نے اگلے روز چیف الیکشن کمشنر کے ساتھ ملاقات میں یقین دہانی کروائی کہ انتخابی اصلاحات اور انتخابی قوانین میں ترامیم کے لیے حکومت الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر چلے گی ۔ اٹارنی جنرل نے بھی یہ کہا کہ جلد بازی میں ٹیکنالوجی کا نفاذ فائدے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے آگاہ کر دیا تھا کہ انتخابی اصلاحات کے بل میں آئین کی چند خلاف ورزیاں پائی جاتی ہیں۔
وزیراعظم صاحب انتخابی اصلاحات میں دو معاملات میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔ ان کی پہلی خواہش بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو آئندہ الیکشن میں ووٹ کا حق دینا ہے ۔ اس مقصد کے لیے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 94 (1) میں ترمیم کی ضرورت ہو گی ۔وزیر اعظم کی دوسری خواہش یہ ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 103 میں ترمیم کر کے الیکشن کمیشن کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات کرانے کا پابند کیا جائے جبکہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 24‘ 25‘26‘ 28‘ 33‘ 34‘ 36‘ 37‘ 39‘ 42 اور 44‘جن کا تعلق انتخابی فہرستوں سے ہے ‘ میں الیکشن کمیشن کے اختیارات محدود کرکے نادرا کو اختیارات تفویض کر دیے جائیں‘ جو بادی النظر میں آئین کے آرٹیکل 218‘ 219 اور 222سے متصادم ہے۔یاد رہے کہ انتخابی فہرستوں کے حوالے سے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 48کی بڑی اہمیت ہے ‘ اگرچہ اسحاق ڈار کمیٹی نے اس کو پہلے ہی ابہام زدہ کردیا ہے‘ تاہم اس کا حقیقی سرچشمہ جو آئینی ترمیم 1974ء سے منسلک ہے ‘ اپنی جگہ برقرار ہے اور الیکشن کمیشن اس کا کسٹوڈین رہے گا۔حیرت ہے کہ انتخابی فہرستوں کے حوالے سے اہم شقیں حذف کرنا کیوں ضروری سمجھا گیا اور وزیراعظم آفس میں ایسے کون سے ماہرین موجود ہیں جو بلاسوچے سمجھے انتخابی اصلاحات کو متنازع بنا رہے ہیں؟ اسحاق ڈار کی انتخابی اصلاحات کمیٹی کی سب کمیٹی میں وزیرانصاف و قانون زاہد حامد موجود تھے جنہوں نے کاغذاتِ نامزدگی فارم میں حساس ترین شق کو تبدیل کر کے ملک کو بحران کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا‘خوش قسمتی سے عسکری قیادت کی مداخلت نے حالات کو کنٹرول کر نے میں مدد کی اور اس تبدیلی کے محرک کو مستعفی ہونا پڑا اور ایک رکن کو لندن میں پناہ لینی پڑی۔
میں الیکشن کمیشن میں طویل ملازمت کے دوران تقریباً پندرہ کے لگ بھگ انتخابات کے دوران بالواسطہ یا بلاواسطہ اہم پوزیشنز پر رہا ہوں اور مجھے انتخابی نظام اور اس کی خامیوں کو بہت قریب سے دیکھنے کے مواقع ملتے رہے ہیں۔ میں نے بین الاقوامی انتخابات کا مشاہدہ بھی کیا ہے۔ اس تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ وزیراعظم نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور انٹرنیٹ ووٹنگ کے بارے میں جو حتمی رائے قائم کی ہے‘ اس پر سیاسی جماعتوں کوذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر بین الاقوامی تناظر میں غور کرنا چاہیے۔ بادی النظر میں الیکٹرانک ووٹنگ کی مخالفت کا محرک حزب اختلاف کی روایتی سیاسی حکمت عملی ایک کلیدی عنصر کے طور پر کارفرما ہے۔ اس نوعیت کی مخالفت عملی طور پر حکومت اور حزبِ اختلاف کے مابین کسی مناسب موقع پر مفاہمت کی صورت بھی اختیار کر جاتی ہے اور ایک دوسرے کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے معاملات طے پا جاتے ہیں جیساکہ 1970ء سے انتخابی معاملات طے ہوتے رہے ہیں۔ اس مخصوص تجویز کا دوسرا بڑا محرک کسی بھی تبدیلی کی روایتی مزاحمت کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کیونکہ ہر سیاسی جماعت اپنے طور پر الیکشن لڑنے اور الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے الیکشن ٹیکنالوجی کی ماہر ہوتی ہے۔ ایسے میں حکومت کی جانب سے متعارف کروائی گئی الیکشن اصلاحات‘ جن کے بارے حزبِ اختلاف کو یہ خدشہ ہوکہ اگلے الیکشن میں اس نظام کا فوری اور براہ راست فائدہ حکومت ہی کو پہنچے گا‘ تو وہ اس کی مخالفت ہی کرے گی کیونکہ نئے نظام کی تکنیکی پیچیدگیوں اور انتظامی کنٹرول کے امور اور معاملات پر حکمران جماعت کو انتظامی برتری حاصل ہوتی ہے جس کے نتیجے میں وہ فیصلہ کن فوائد حاصل کرنیکی پوزیشن میں ہو سکتی ہے۔ یہ وجوہ اتنا وزن رکھتی ہیں کہ انہیں حزبِ اختلاف کی مخالفت کا مرکزی محرک سمجھا جا سکتا ہے۔ جہاں تک میڈیا میں سیاسی بیانات اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں اور نظام کی موافقت یا مخالفت پر جاری بحث کا تعلق ہے تو اس کو حکومت اور اپوزیشن کے حامی گروپوں کی نظریاتی تقسیم کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے فریقین مجوزہ نظام کے تکنیکی طور پر قابلِ عمل ہونے یا نہ ہونے اور نئے نظام کی ممکنہ سماجی قبولیت پر بامقصد ڈائیلاگ سے خاصے دور‘ فقط بحث برائے بحث اور مخالفت برائے مخالفت میں گھرے نظر آ رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کا سابق سیکرٹری ہونے کی حیثیت سے مجھے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے وژن اور وزڈم کا بخوبی علم ہے۔ میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں میں موجود ایسے طبقات کو جانتا ہوں جو اپنی قیادت سے نالاں ہیں اور جو اپنے اپنے ادوارِ حکومت میں جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنے کے خواہشمند تھے‘ لیکن اس وقت حکومت اور اپوزیشن کی روایتی تقسیم کے دباؤ کے تحت سیاسی مصلحت کے باعث خاموش نظر آ رہے ہیں۔ وزیراعظم کے مشیران نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں اور انٹرنیٹ ووٹنگ کو متنازع بنا دیا‘ اگر یہی معاملہ الیکشن کمیشن کو سپرد کرتے ہوئے وزیراعظم پرنسپل سیکرٹری کے ذریعے کمیشن کی توجہ الیکشن ایکٹ2017ء کی دفعہ 94 (1) اور 103 کی طرف مبذول کراتے اور کمیشن کو مشورہ دیا جاتا کہ وہ اپنی قانونی ذمہ داریوں کو بروئے کار لائے تو حکومت کو متنازع بل پیش کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں