"KDC" (space) message & send to 7575

مقامی حکومتوں کی بحالی میں کیا امر مانع ہے؟

سپریم کورٹ آف پاکستان نے لوکل گورنمنٹ کے اداروں کو بحال کر دیا ہے مگر بادی النظر میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس فیصلے کے باوجود پنجاب حکومت کی بااثر انتظامی اور سیاسی قوتیں صوبے میں بحال شدہ مقامی حکومتوں کو فنڈز کا حصہ دار نہیں بننے دیں گی اور ان کو دفاتر کی سہولتیں بھی نہیں دیں گی۔ اس طرح وہ 31 دسمبر تک کوئی کام بھی نہیں کر سکیں گی۔ صوبائی حکومت سابق نظام کی بحالی نہیں چاہتی جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجا ب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء اور 2020 کی دفعہ تین کو کالعدم قرار دیا ہے جبکہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کو برقرار رکھا ہے۔ ایسی صورت میں سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی، میڈیا پرسنز اور تھنک ٹینکس کو چاہیے کہ وقت اور سیاسی نزاکتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ انتخابات کی تیاری پر زور دیں‘ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کی روشنی میں لوکل گورنمنٹ کے انتخابات مارچ 2022ء تک کرانے کیلئے الیکشن کمیشن کی معاونت کریں اور اس فیصلے میں جو ابہام کا عنصر موجود ہے اس کو آئندہ منتخب اداروں کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے۔
میرے خیال میں اگر عدالتی فیصلے کے کسی پیرے یا فیصلہ پر اعتراضات ہیں تو ان کو نظرانداز کرکے لوکل گورنمنٹ کے الیکشن کروانے پر بھرپور توجہ دینی چاہیے۔ غالباً صوبہ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور صوبہ سندھ میں لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کرانے کے لیے حلقہ بندیوں کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ پنجاب میں انتخابات اگر مارچ 2022ء تک ہو جاتے ہیں تو ان کے اثرات اگلے آنے والے قومی انتخابات پر پڑنے کے قوی امکانات ہیں اور جس پارٹی نے پنجاب میں لوکل گورنمنٹ کے اداروں پر قبضہ کر لیا آئندہ عام انتخابات میں اسی جماعت کی کامیابی کے امکانات ہوں گے۔ ان حالات میں بہتر یہ ہے کہ ایک موثر نظام کے تحت لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کیلئے کوششوں پر زیادہ توجہ دی جائے۔ انتخابات کے بعد ایسی مشقوں‘ جو آئین کے آرٹیکل 140اے سے مطابقت نہیں رکھتیں‘ کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیا جا سکتا ہے کیونکہ اقتدار میں رہتے ہوئے اور لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کے تحت سیاسی جماعتیں کسی بھی قانون کو بہ آسانی بدل سکتی ہیں۔ بدقسمتی سے سیاسی ماحول میں موجودہ تناؤ کے پس منظر میں مقامی حکومتوں کے نئے نظام پر اتفاق رائے پیدا ہونا مشکل نظر آتا ہے‘ لہٰذا لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے الیکشن پلان کو تقویت دی جائے۔ شومئی قسمت کہ اگست 2009ء میں لوکل گورنمنٹ کے الیکشن شیڈول کو صدر زرداری نے کراچی، حیدر آباد اور میرپور خاص میں متحدہ قومی موومنٹ کے سیاسی طوفان کو روکنے کے لیے کالعدم قرار دے دیا تھا کیونکہ آئینی طور پر لوکل گورنمنٹ کے کسٹوڈین صدر مملکت ہی تھے۔ اس کے ساتھ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومتوں نے آئین کے آرٹیکل 140اے کا سہارا لیتے ہوئے اپنے اپنے قوانین بنانے کے لیے صوبائی اسمبلیوں سے ایکٹ منظور کرانے کا عندیہ دیا۔ انہی دنوں یو این ڈی پی، یو ایس ایڈ اور یورپی یونین ممالک کے سفرا نے چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان سے احتجاج کیا تھا اور میں نے بطور وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن‘ ادارے کی نمائندگی کرتے ہوئے ان کے تحفظات پر مبنی جامع رپورٹ صدر آصف علی زرداری کو بھجوائی تھی جسے انہوں نے اپنی جماعت کی حکمرانی کے وسیع تر مفادات کے تحت نظرانداز کر دیا تھا‘ اور سندھ حکومت کو بھی ہدایت کی تھی کہ شہری اور دیہی علاقوں کی حلقہ بندی نہ کرائی جائے اور کراچی، حیدرآباد اور میرپور خاص کے دیہی حلقوں کو اربن میں شامل نہ کیا جائے۔ اسی حکمت عملی کے نتائج مردم شماری میں دیکھنے میں آئے۔
سیاسی جماعتوں کے مرکزی رہنما اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان لوکل گورنمنٹ کے نظام کو اپنے لیے مالیاتی اور انتظامی طور پر خطرہ سمجھتے ہیں کیونکہ سیاسی جماعتوں کا اپنا داخلی جمہوری نظام بہت کمزور ہے اور میئر کے انتخابات براہ راست ہونے سے سیاسی جماعتوں کا کمزور ڈھانچہ زمین بوس ہو جائے گا۔ اسی لیے وفاقی حکومت صوبوں کو اختیارات منتقل نہیں کرنا چاہتی۔ سیاسی جماعتوں کو ادراک ہونا چاہیے کہ سپریم کورٹ کا حالیہ تفصیلی فیصلہ آرٹیکل سات اور 140اے کو ملا کر پڑھ کر یہ اخذ کرتا ہے کہ مقامی حکومتیں Third tier of federation کا مقام رکھتی ہیں اور یہی منطق 2001ء کی مقامی حکومتوں کے قوانین میں جنرل تنویر حسین نقوی نے شامل کرائی تھی‘ جسے 2008ء میں آنے والی حکومتوں نے صدر پرویز مشرف سے استعفیٰ لینے کے بعد کالعدم قرار دے دیا تھا، حالانکہ ریاست ان تین مدارج پر ہی مشتمل ہے اور یہی قانونی راستہ انڈونیشیا، انڈیا اور دیگر ترقی پذیر ممالک نے اختیار کیا ہوا ہے۔ انڈیا میں مقامی حکمرانوں کو مکمل آئینی تحفظ دیتے ہوئے آئین میں دو درجن سے زائد آرٹیکلز شامل کیے گئے ہیں جبکہ ہمارے ہاں آئین کے آرٹیکل 32 اور 140اے میں نشاندہی تو کی گئی ہے لیکن مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ جو آئینی تحفظ سترہویں آئینی ترمیم میں دیا گیا تھا اسے اٹھارہویں آئینی ترامیم کے ذریعے کالعدم قرار دے دیا گیا اور اسی بنیاد پر مقامی حکومتوں کا نظام اپنا تسلسل جاری نہ رکھ سکا اور حالیہ عدالتی فیصلہ کے باوجود ہر صوبائی حکومت اس ابہام کا سہارا لیتے ہوئے مقامی حکومت کے اداروں کو مضبوط بنانے کی راہ میں حائل ہے جو وزیراعظم کے وژن سے انحراف بھی ہے۔ میری تجویز ہے کہ موجود خامیوں کو آئین کے اندر رہتے ہوئے دور کرنے کی کوشش کرنا ایک بہتر حکمت عملی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے نواب اکبر بگٹی کے پوتے شاہ زین بگٹی کو بلوچستان میں مفاہمت اور ہم آہنگی سے متعلق اپنا خصوصی معاون مقرر کیا ہے۔ شاہ زین بگٹی اگرچہ قومی اسمبلی کے ممبر ہیں‘ مگر میری نظر میں ان کی سیاسی شخصیت بلوچستان کے قدآور سیاستدانوں کی موجودگی میں زیادہ اثر نہیں رکھتی‘ البتہ بلوچستان کے موروثی سیاستدانوں کا قبائلی رشتے و احترام میں شاہ زین بگٹی سے تعلق موجود ہے لیکن میرا تجزیہ یہ ہے کہ ان کے سیاسی اثرات سے وزیراعظم عمران خان کو فائدہ نہیں پہنچے گا اور ان کی تقرری سردار یار محمد رند کی طرح سرد مہری کا شکار ہو جائے گی اور وزیراعظم آفس کے شطرنج کے ماہرین جو معاون خصوصی کی مراعات حاصل کر رہے ہیں وہ بھی شاہ زین بگٹی کو آگے نہیں بڑھنے دیں گے اور جس طرح ایک اور صاحب کئی مہینے وزیر اعظم آفس میں اپنا دفتر بھی قائم نہیں کر سکے تھے، شاہ زین بگٹی کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہو سکتا ہے‘ بہرحال اچھے کی توقع رکھنی چاہیے۔
یہ حقیقت جغرافیائی طور پر ثابت شدہ ہے کہ پاکستان تین خطوں کو آپس میں ملاتا ہے۔ یہ خطے ہیں: مشرقِ وسطیٰ بشمول خلیجی خطہ، سنٹرل ایشیا اور جنوبی ایشیا۔ اگر اس علاقے کی سیاست میں قدرتی وسائل خصوصاً توانائی، تجارت اور سرمایہ کاری کو عملی طور پر مرکزیت حاصل ہو جائے تو پاکستان کی اہمیت میں اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ ان خطوں کو ملانے والے راستے پاکستان سے گزرتے ہیں۔ پاکستان سینٹرل ایشیا اور ایران سے گیس کی پائپ لائن کی راہ پر ہے اور کراچی اور گوادر کی بندرگاہیں افغانستان اور سینٹرل ایشیا کے لیے اہمیت رکھتی ہیں۔ اسی طرح سینٹرل ایشیا کے ممالک کے لیے روس اور ایران کی نسبت پاکستان کی بندرگاہیں زیادہ موزوں ہیں۔ مگر بعض طاقتیں بلوچستان لبریشن آرمی اور دیگر علیحدگی پسند عسکری گروپوں کی خفیہ انداز میں حوصلہ افزائی کر رہی ہیں۔ ان حالات میں بلوچوں سے مذاکرات اہم ہیں، اس لیے شاہ زین بگٹی کو مکمل اختیارات تفویض کیے جانے چاہئیں‘ تبھی اس سوچ کو کوئی متشکل کیا جا سکے گا جس کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے جناب وزیر اعظم نے شاہ زین بگٹی کو بلوچستان میں مفاہمت اور ہم آہنگی سے متعلق اپنا خصوصی معاون مقرر کیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں