"KDC" (space) message & send to 7575

پارٹی انتخابات اور الیکشن کمیشن کا نوٹس

آج کی دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ بدلتی ہوئی اس صورتحال میں ہم کسی طرح دوسروں سے پیچھے نہیں رہ سکتے۔ میں نے امریکا‘ برطانیہ‘ کینیڈا‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ نیپال‘ تھائی لینڈ‘ فلپائن اور انڈونیشیا سمیت متعدد ممالک کے انتخابی اُمور کا بغور مطالعہ کیا ہے‘ بعض ممالک کے دورے بھی کیے ہیں اور انتخابی عمل کے حوالے سے کام کرنے والی این جی اوز اور دیگر اداروں کی رپورٹس کا مطالعہ بھی کیا ہے۔ ایک اہم نکتے کی وضاحت کرتا چلوں کہ ہمیشہ اقوام کے مزاج کے مطابق قوانین وضع کئے جاتے ہیں‘ قوانین اقوام کے لیے بنتے ہیں‘ کبھی قوانین کے لیے اقوام نہیں بنیں‘ یہی وجہ ہے کہ ہر ملک کا قانون دوسرے ممالک سے مختلف ہوتا ہے۔
1975ء میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی باگ ڈور وزارتِ پارلیمانی اُمور سے لے کر براہِ راست وزیرِ اعظم سیکرٹریٹ کے حوالے کرتے ہوئے اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سجاد احمد جان سے مشاورت کی اور خاموش رہنے کیلئے ان کو الیکشن کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے مدتِ ملازمت میں توسیع دے دی۔ وزیرِاعظم بھٹو کے ایک انتہائی بااثر بیوروکریٹ‘ سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن وقار احمد نے ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔ جنرل ضیاالحق نے عنانِ اقتدار سنبھالنے کے بعد 90 روز کے اندر انتخابات کرانے کا قوم سے وعدہ کرتے ہوئے ستمبر 1977ء میں الیکشن کمیشن کو دوبارہ وزارتِ پارلیمانی امور کی نگرانی میں دیتے ہوئے مارشل لا کا ضابطہ جاری کردیا۔ اس دور میں الیکشن کمیشن مختلف حالات سے گزرتا رہا اور آج الیکشن کمیشن آئینی حوالے سے مکمل آزاد اور ایک خودمختار ادارہ ہے۔ پاکستان کے آئین میں الیکشن کمیشن کو ایک آزاد ادارے کی حیثیت کی ضمانت دی گئی ہے۔ حال ہی میں الیکشن کمیشن نے مقررہ مدت میں انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے پر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو شوکاز نوٹس جاری کیا۔ انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے پر الیکشن کمیشن نے دیگر دو جماعتوں کو بھی شوکاز نوٹس جاری کیے ہیں جن میں وفاقی حکومت کی طرف سے کالعدم کی جانے والی تحریکِ لبیک اور مسلم لیگ(ن) شامل ہیں۔ بطور چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف عمران خان صاحب کو جاری کئے گئے اظہار وجوہ کے نوٹس میں کہا گیا ہے کہ وہ 13جون 2021ء کو انٹرا پارٹی الیکشن کی تفصیلات الیکشن کمیشن کو دینے میں ناکام رہے ہیں۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 209 کے تحت تمام سیاسی جماعتیں مقررہ وقت پر انٹرا پارٹی انتخابات کروانے کی پابند ہیں۔ الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 215 کے تحت الارمنگ پوزیشن واضح کرتے ہوئے کہاکہ انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے پر کیوں نہ تحریکِ انصاف کو انتخابی نشان کیلئے نااہل قرار دے دیا جائے؟ میرے خیال میں وزیرِ اعظم ایسے آئینی‘ قانونی ماہرین کے نرغے میں ہیں جن کو انتخابی قوانین کی روح کا ادراک نہیں‘ اور وہ اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے وزیرِ اعظم کو شوکاز بھیجنے سے پہلے تمام قانونی پہلوئوں کو نظر میں رکھا ہے۔ اب 12 اگست کو کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات کے لیے امیدواروں کو انتخابی نشانات بھی الاٹ ہونے ہیں اور وزیراعظم اپنی پارٹی کے امیدواروں کے انتخابی نشانات الاٹ کرانے کے استحقاق کو بروئے کار لانے کے لیے الیکشن کمیشن کو مطمئن کرنے کے لیے قانونی راہ کی تلاش میں ہوں گے؛ تاہم پی ٹی آئی کے ایک ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ پارٹی کے آئین کے مطابق الیکشن جون 2022ء میں متوقع ہیں۔ اگر ان کے اس مؤقف کا قانونی وزن ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن نے عجلت میں شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے قانونی پہلوئوں پر غور نہیں کیا؟
الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 209 کے تحت سیاسی جماعتوں کے عہدے داروں کے لیے وفاق‘ صوبائی اور مقامی سطح پر پارٹی کے آئین کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن کرانا لازمی ہے مگر ہمارے ہاں اس قانون‘ جو پرویز مشرف نے جون 2002ء میں پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے تحت جاری کیا تھا‘ کی روح کے مطابق انتخابات نہیں ہورہے اورجب یہ قانون تنویر حسین نقوی چیئرمین National Reconstruction Bureau کے ہاتھوں سے گزر رہا تھا تو انٹرا پارٹی الیکشن کرواتے ہوئے الیکشن کمیشن کے کردار کو نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ میری اطلاع کے مطابق جب قوانین کا ڈرافٹ تیار ہورہا تھا تو اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو یہ ڈرافٹ نہ دینے کی تجویز پیش کرتے ہوئے عذر پیش کیا تھا کہ الیکشن کمیشن میں یہ اہلیت نہیں کہ انٹرا پارٹی الیکشن کے معاملات کا مشاہدہ کرے یا نگرانی کرے۔ بدقسمتی سے اُن دنوں جب قانونی مراحل طے ہورہے تھے چیف الیکشن کمشنر اور تنویر حسین نقوی کے مابین خوشگوار تعلقات نہیں تھے اور پرویز مشرف صاحب اس تنازع میں نہیں پڑنا چاہتے تھے‘ لہٰذا تنویر نقوی صاحب نے انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کے عمل میں الیکشن کمیشن کے کردار کو حذف کردیا؛ تاہم انتخابی اصلاحات کمیٹی‘ جو اسحاق ڈار کی سربراہی میں الیکشن قوانین کا جائزہ لے رہی تھی‘ کو اس بارے میں آگاہ کرنے کے لیے میں نے تحریری طور پر اسحاق ڈار کو تجویز پیش کی تھی کہ انٹرا پارٹی انتخابات الیکشن کمیشن کی نگرانی ہی میں کروائے جائیں اور ان کو انٹرا پارٹی الیکشن کرانے تک رسائی دی جائے‘ جیسا کہ بھارتی الیکشن کمیشن کو رسائی حاصل ہے۔ وہاں کے قوانین کے مطابق جماعتوں کے اندرونی انتخابات کرانے کے لیے انڈین الیکشن کمیشن سے معاونت حاصل کی جاتی ہے۔ میں نے مئی 2010ء میں دورۂ بھارت کے دوران کانگریس جماعت کے اندرونی انتخابات کا ہریانہ کے ضلع روہتک میں مشاہدہ کیا تھا۔ بہرکیف حکومت نے انتخابی اصلاحات میں 49 دفعات میں ترامیم کرنے کا بل‘ جواِ ن دنوں سینیٹ میں زیرِ غور ہے‘ میں یہ ایک خوش آئند شق رکھی ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن کرواتے ہوئے الیکشن کمیشن کی معاونت حاصل کی جائے اور اسی کی نگرانی میں یہ انتخابات ہونے چاہئیں۔
جماعتی بنیادوں پر الیکشن ایکٹ 2017ء کے ضابطے کی رُو سے انتخابات نہ کرانے کے باعث شفافیت کا طریقہ کار نہ ہونے سے سیاسی جماعتیں قیادت کے بحران سے دوچار ہیں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں متبادل قیادت کے نظام کا فقدان ہے‘ اس کو حل کرنے کے لیے انتخابی اصلاحات کی شق میں یہ اضافہ کرنا چاہیے کہ سیاسی جماعتوں کے عہدے داروں پر پابندی عائد کی جائے کہ وہ تیسری مرتبہ عہدے دار بننے کے اہل نہیں ہوسکتے۔ جمہوری روایات کی جانب سفر کا یہ پہلا قدم ثابت ہوسکتا ہے اور اس کی پیروی کرتے ہوئے دیگر ایشیائی ممالک میں بھی یہی طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب تحریکِ انصاف کے پنجاب اسمبلی کے ممبر نذیر چوہان کے غیر ذمہ دارانہ رویے سے جہانگیر ترین گروپ کے دیگر ارکان بھی دوراہے پر کھڑے ہوگئے ہیں اور اب تحریکِ انصاف الیکشن کمیشن کے شوکاز نوٹس کے جواب میں پارٹی میں انتخابات کا شیڈول جاری کرتی ہے تو پارٹی کا ایک گروپ چیئرمین عمران خان کے متبادل کھڑا ہو جائے گا اور اطلاعات موصول ہورہی ہیں کہ تحریکِ انصاف کے بانی سیکرٹری جنرل حامد خان اور اکبر ایس بابر کا فعال نظریاتی گروپ بھی ان کی راہ میں حائل ہو سکتا ہے اور جہانگیر ترین کا گروپ بھی انتخابات میں خان صاحب کے لیے مشکلات کھڑی کرے گا‘ اور اسی دوران پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد آنے کے امکانات بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ پنجاب میں تحریکِ انصاف غیرمستحکم ہوئی تو خان صاحب پارٹی انتخابات میں اپنی پسند کے مطابق شخصیات کو کامیاب نہ کرواسکیں گے۔ الیکشن کمیشن کا قانونی شوکاز جاری ہونے سے خان صاحب مشکلات کا شکار ہوسکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں