"KDC" (space) message & send to 7575

الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور اپوزیشن کے اندیشے

وزیرِ اعظم عمران خان الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو 2023ء کے انتخابات میں استعمال کرانے کیلئے پُرعزم ہیں اور وزارت سائنس و ٹیکنالوجی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت سے وزیر اعظم کو اس پر بریفنگز بھی دی جا رہی ہیں‘ لیکن اس اہم معاملے میں حکومت نے الیکشن کمیشن کو مکمل طور پر نظرانداز کرنے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے اور اس کے ساتھ اپوزیشن کے ارکان سے بھی لاتعلقی اختیار کیے ہوئے ہے۔ اب الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو قومی اسمبلی میں لایا جا رہا ہے تاکہ ارکان پارلیمنٹ کو انکی افادیت سے آگاہ کیا جائے۔ دورِ جدید میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال سے پاکستان فرسٹ ورلڈ ڈیموکریسی کے ممالک کی صفوں میں کھڑا ہو سکتا ہے‘ لیکن جس طریقے سے وزرا اس مہم میں پیش پیش ہیں‘ اس سے اپوزیشن کو خدشہ لاحق ہو گیا ہے کہ ان مشینوں کی جس انداز میں لانچنگ کی جا رہی ہے اس سے آئندہ انتخابات میں ''انجینئرنگ‘‘ کا اندیشہ پیدا ہو سکتا ہے۔ بظاہر اس کا امکان نہیں‘ لیکن حکومتی طریقہ کار اور الیکشن کمیشن کو مشاورت میں شامل نہ کرنے سے الیکشن کمیشن کی ساکھ بھی مجروح ہو رہی ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا اہم اجلاس جلد متوقع ہے‘ جس میں آئندہ قومی انتخابات کیلئے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کی بات کی جائے گی۔ اگلے روز وزیراعظم نے خود اس مشین میں ووٹ ڈال کر اس کی کارکردگی کا جائزہ لیا۔ اس سے الیکٹرانک ووٹنگ کی جانب ان کے جھکائو کا پتہ چلتا ہے لیکن اس کے برعکس الیکشن کمیشن نے اپنے تحفظات پر مبنی ردعمل دیتے ہوئے حکومت پاکستان سے تحریری طور پر اس کی رازداری اور دیگر اُمور کے بارے ضمانت مانگی ہے کہ متعلقہ وزارتیں بشمول نادرا تحریری طورپر الیکشن کمیشن کے خدشات کا ازالہ کریں کیونکہ 2023ء کے انتخابات نگران حکومت نے کرانے ہیں اور اگر آر ٹی ایس کی طرز پر یہ سسٹم فلاپ ہوگیا تو متعلقہ وزارتیں ہی اس کی ذمہ دار ہوں گی اور الیکشن کمیشن تنقید کی زد میں نہیں آئے گا۔ آر ٹی ایس کے فلاپ ہونے پر نادرا نے اس کی ناکامی کا ملبہ الیکشن کمیشن پر ڈال دیا تھا جبکہ نادرا نے آر ٹی ایس کے سسٹم کو لاگو کرنے پر الیکشن کمیشن سے اٹھارہ کروڑ روپے لیے تھے۔ اب چونکہ حکومتی اداروں کی تیارکردہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں سے اپوزیشن مطمئن نہیں تو نگران حکومت بھی ان مشینوں کے استعمال نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کے مؤقف کے ساتھ کھڑی ہو جائے گی‘ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ ان مشینوں اور اوورسیز پاکستانیوں کیلئے انٹرنیٹ ووٹنگ سسٹم کے اجرا کیلئے اپوزیشن اور الیکشن کمیشن سے مشاورت کرکے کوئی فارمولا بروئے کار لائے تاکہ نگران حکومت کے دور میں انتخابی عمل بہتر طریقے کے ساتھ انجام پا سکے اور الیکشن شفافیت کا مظہر ہو تاکہ تمام سیاسی جماعتیں الیکشن کے نتائج سے مطمئن ہو جائیں۔
بے نظیر بھٹو جیسی روشن خیال سیاسی شخصیت نے اکتوبر 2002ء کے انتخابات میں کمپیوٹر کے استعمال کو ممنوع قرار دینے کیلئے الیکشن کمیشن کے اُس وقت کے سربراہ جسٹس ارشاد حسن خان کو باقاعدہ خط لکھا تھا جس پر عمل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے رزلٹ کی تیاری‘ ترسیل اور دیگر معاملات میں کمپیوٹر کے استعمال پر پابندی لگا دی تھی لیکن ہمیں یہ بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ 2002ء اور 2021ء کی کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں زمین آسمان کا فرق ہے‘ اس لیے یہ کہنا کہ بینظیر بھٹو نے آج سے بیس سال پہلے جو موقف اختیار کیا تھا آج بھی اس کی اہمیت وہی ہے‘ درست نقطہ نظر نہ ہو گا۔ دنیا ہر شعبے میں ترقی کرکے کہاں کی کہاں پہنچ چکی ہے۔ الیکشن کے انعقاد کے طریقے بھی اس میں شامل ہیں۔ ہمارے ملک سے کئی گنا زیادہ آبادی والے ممالک میں انتخابات مذکورہ طریقے سے ہوتے ہیں۔ امریکی انتخابات میں ٹرمپ نے غیرملکی مداخلت کا الزام لگایا تھا مگر ثابت تو کچھ نہ کر سکے جبکہ گزشتہ انتخاب جس میں صدر بائیڈن منتخب ہوئے‘ کو شفاف انتخاب کا سرٹیفکیٹ انتخاب مکمل ہونے کے کچھ وقت بعد ہی مل گیا تھا۔ ادھر ہماری حالت یہ ہے کہ ایک سال سے یہ فیصلہ ہی نہیں ہو پا رہا کہ انتخابات کیسے کروانے ہیں۔ الیکٹرانک مشین استعمال کرنی ہے یا نہیں‘ اگر کرنی ہے تو اس کے کیا ضوابط اور خصوصیات ہوں گی۔ حکومت اس قومی معاملے میں اپوزیشن کو ساتھ ملا کر چلنا نہیں چاہتی جس سے شبہات میں اضافہ ہو رہا ہے‘ لہٰذا میری رائے میں وزیراعظم کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کیلئے الیکشن کمیشن کو بااختیار بناتے ہوئے اسی کو یہ ذمہ داری تفویض کردینی چاہیے۔ الیکشن کمیشن پارلیمانی سیاسی جماعتوں کو مدعو کرکے ان کی رائے حاصل کرنے کے بعد واضح پالیسی کی رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کرے‘ یہی طریقہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 103 اور 94 میں واضح کیا گیا ہے۔ اسی طرح الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی نمائش پارلیمنٹ ہائوس میں کرنے کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کو مشورہ دیا جائے کہ تجرباتی پولنگ سٹیشنوں کا انتظام کرتے ہوئے لاہور‘ کراچی‘ کوئٹہ‘ پشاور اور اسلام آباد میں الیکٹرانک مشین سے ووٹنگ کا عملی مظاہرہ کرے تاکہ عوام بھی اس کے طریقہ کار سے واقف ہو سکیں اور اس عمل کی رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کی جائے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو چولستان‘ سندھ کے صحرائی علاقے اور بلوچستان کے ریگستانی علاقوں سے بھی گزارا جائے تاکہ ان علاقوں کے درجہ حرارت کے ان مشینوں پر اثرات کا جائزہ لیا جا سکے‘جیسا کہ بھارت کے الیکشن کمیشن نے ایسی مشینوں کے استعمال کیلئے درجہ حرارت کا جائزہ لیا تھا۔ قوم الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال پر تبھی متفق ہوگی جب تمام خدشات کا ازالہ سائنسی بنیادوں پر کیا جائے گا۔
ہمارے اداروں کو ادراک ہونا چاہیے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں دنیا کے مختلف ممالک میں متعارف کروانے کیلئے پہلے تجرباتی طوپر محدود پیمانے پر اس کا کامیاب تجربہ ہوا‘ جس کے بعد ہی اس کادائرہ کار وسیع کیا گیا تھا۔ انڈیا نے پہلا تجربہ1980ء میں 18پولنگ بوتھ پر کیا تھا اور 2004ء تک یہ طریقہ اپناتے ہوئے پورے ملک میں یہ سسٹم نافذ کردیا تھا ۔اس کے ساتھ ساتھ کچھ ممالک نے زیادہ تر کیسز میں استعمال ہونے والے آلات کو شفافیت اور رازداری برقرار نہ رکھ پانے پر مسترد کیا‘ جس طرح جرمنی‘ بلجیم ‘برازیل اور دیگر ترقی یافتہ ممالک نے اس کو ممنوع کردیا اور اس کے ساتھ ساتھ ایک وجہ ووٹرز کا عدم اعتماد بھی تھا کہ ان کے ووٹ واقعی اسی امیدوار کو ملیں گے جس کو وہ ووٹ کاسٹ کرتے ہیں۔بھارت میں بھی یہی سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ ووٹنگ مشین کو انتخابات میں اپنی پسند کا رزلٹ حاصل کرنے کیلئے ایک آلہ کے طورپر اس سسٹم کو استعمال کیاجاسکتا ہے۔
پاکستان کا سیاسی منظر نہایت ہی حساس اور نازک صورتحال اختیار کر چکا ہے اور انتخابی بحران سے نکلنے کیلئے احتیاط اور سیاسی بصیرت تقاضا کرتی ہے کہ ووٹنگ مشین کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا جائے۔ ووٹرز میں اگر یہ شعور پیدا ہوجائے کہ انہیں مقامی اثر و رسوخ ‘دولت اور موروثیت سے بلند ہو کر سچے‘ باکردار امیدوار وں کو منتخب کرنا چاہیے تو یہ جمہوریت بلکہ قوم پر احسان ہوگا۔
آئندہ قومی انتخابات کو ووٹروں کی روایتی وفاداریوں‘ جذباتی نعروں اور ہر قسم کے خوف سے آزاد کرنے کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اندرونی انتخابات الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 209 کے مطابق کروائے جائیں۔ الیکشن کمیشن نے تحریکِ انصاف کو جو شوکاز نوٹس جاری کیا ہوا ہے‘ اس پر الیکشن کمیشن کو مطمئن نہیں کیا جا سکا اور تحریکِ انصاف کی ایک قدآور شخصیت‘ پارٹی کے مذکورہ انتخابات جو اعظم سواتی کی سربراہی میں 2017ء میں ہوئے تھے‘ کو الیکشن کمیشن میں چیلنج کررہی ہے‘ اس سے تحریکِ انصاف بندگلی میں جاسکتی ہے۔ حاصلِ کلام یہ کہ ای وی ایم انتخابی عمل میں تیز ی تو لا سکتی ہے مگر اس سے شفافیت اور رازداری اسی صورت قائم ہو سکتی ہے جب اس سارے عمل میں ممکنہ شبہات اور اندیشے دور کر لیے جائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں