"KDC" (space) message & send to 7575

تبدیلیوں کے نمایاں آثار

تغیر پذیر حالات ہم سے پُرامن پاکستان کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے مکمل خاتمے پر توجہ دینے کا تقاضا کرتے ہیں۔ اسلامی فلاحی اور قائد اعظم کے نظریاتی پاکستان کی منزل نہ پانے کی وجہ یہ ہے کہ 1951ء سے 2018ء تک کے عرصہ کے دوران جو انتخابات ہوئے وہ عوام کی سوچ اور جمہوری اصولوں کے عین مطابق نہیں تھے۔ اسی باعث ہم ملک میں سیاسی استحکام لانے میں ناکام رہے ہیں۔
پاکستان کا موجودہ انتخابی نظام فروری 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں برادری ازم میں تبدیل ہو چکا ہے چنانچہ افغانستان کی سنگین صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پاکستان کو جمہوری اصلاحات کی ضرورت ہے کیونکہ ملک میں جو جمہوریت ہے اسے حقیقی جمہوریت نہیں کہا جا سکتا۔ پاکستان میں عملی طور پر انتخابی عمل میں سیاسی پارٹیوں کے نظام کے بجائے ذات پات اور برادری کی بنیاد پر انتخابات ہوتے ہیں جس کی وجہ سے تاریخ ابنِ خلدون کے مقدمہ کے مطابق عصبیت نے جڑیں پکڑ رکھی ہیں اور ہم پُرامن پاکستان کی منزل سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ پاکستان میں ایسے سیاسی کلچر کی وجہ سے انتخابات کے دوران ٹرن آئوٹ 45 فیصد تک محدود ہوکررہ گیا ہے اور ملک کے 65 فیصد ووٹرزاس غیر منصفانہ انتخابی نظام کے خلاف ہیں۔ عوام کو ادراک ہے کہ پاکستان کے روایتی سیاستدان اپنے مفادات میں پارٹی تبدیل کرتے ہیں اور اس کے مطابق عوام کے شعور سے کھیلتے ہیں‘ جس طرح ایک کامیاب اینکر جگہ تبدیل کرے تو رخ بھی تبدیل کر لیتا ہے اور عوام کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ اس نے ایسا کیا ہے۔
روایتی سیاست کے شاہکار ملک میں حکمران کوئی بڑی تبدیلی لانے اور سیاسی انتخابی نظام کو نئے خطوط پر استوار کرنے کی اہلیت و صلاحیت‘ دونوں سے محروم نظر آتے ہیں۔ جو مفاد پرستی کے حصار میں ہوں وہ ملک میں تبدیلی کیسے لائیں گے؟ پاکستانی سیاست فرسودہ نظام انتخاب کے گرد گھومتی ہے اور اس کے نتیجہ میں جو حکومتیں وجود میں آتی ہیں ان کا نام جمہوری حکومتیں رکھ دیا جاتا ہے۔ میری نظر میں یہ سیاست سے بھی دھوکہ ہے اور جمہوریت سے بھی۔ کسی سیاسی تبدیلی کے لیے ہمیشہ بیلٹ کا صحیح استعمال کیا جانا چاہیے اور صادق و امین کے پیمانے پر اترنے والی قیادت کو ووٹ دیا جانا چاہیے۔ اس طرح سیاسی اور انتخابی سسٹم خود بخود ٹھیک ہو جائے گا اور اس مقصد کے لیے اس بنیادی نکتے کو مد نظر رکھنا ہو گا کہ ووٹ ایک شہادت ہے اور اس شہادت کا غلط استعمال کرنے والا اُس شخص کے گناہ میں برابر کا شریک ہو گا جو لوگوں کے ووٹ لینے کے بعد کسی اعلیٰ پوزیشن کو حاصل کرتا اور پھر اس پوزیشن کا غلط استعمال کرتا ہے۔ ایک شخص جو کرپٹ‘ بدعنوان‘ منی لانڈرنگ کرنے والا اور جرائم میں ملوث ہے وہ ایک عام شہری کے ووٹوں سے ایوانِ اقتدار کے گروہ میں شامل ہو کر جرائم کا مرتکب ہوتا ہے تو ووٹرز بھی اس کے گناہ میں شریک ہوں گے‘ لہٰذا عوام کو اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر ووٹ کی عزت اور حرمت کا شعور بروئے کار لانا چاہیے۔ اس وقت ہمارے سیاسی جمہوری نظام کو اوورہالنگ کی ضرورت ہے اور ملک کی خود مختاری کو ضعف سے بچانے کے لیے مخصوص خاندانوں کی سیاسی اجارہ داری کے چنگل سے نکلنا ضروری ہے اور اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے اندر انتخابات کروائے جائیں۔
افغانستان کی صورتحال سنگین تر ہوتی جارہی ہے اور افغانستان اپنی بقا کی آخری جنگ لڑ رہا ہے۔ امریکا نے بھی خدشہ ظاہر کردیا ہے کہ آئندہ نوے روز کے اندر طالبان کابل پر قبضہ کرلیں گے۔ بدقسمتی سے امریکا کی قیادت افغانستان میں دو کھرب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود بہترین فوج تیار کرنے میں ناکام رہی اور افغانستان کی سیاسی و فوجی قیادت کھربوں ڈالر کی کرپشن میں ملوث رہی اور آج عوام ان کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ادھر وطن عزیز میں یہ سیاسی حالات پیدا ہو رہے ہیں کہ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ اپنی شرافت کی وجہ سے بیوروکریٹس کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور کرپشن نچلی سطح تک پھیل چکی ہے۔ امن و امان کا مسئلہ درپیش ہے اور وزیرِ اعلیٰ فقط نوٹس لینے پر اکتفا کررہے ہیں۔ ان حالات میں پنجاب کی حکومت تحلیل کرنے کیلئے تحریک ِ عدمِ اعتماد لانے کی درپردہ کوششیں جاری ہیں۔ میری اطلاع کے مطابق چودھری پرویز الٰہی اب جدید ترین جہاز میں سفر کرنے کی تیاری کر رہے ہیں اور اس وقت جہانگیر ترین کے حامی 25 کے لگ بھگ ارکان اسمبلی پنجاب حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے میں معاونت کریں گے اور پرویز الٰہی اس گریٹ گیم میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ میرا یہ بھی اندازہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنے مفادات میں نواز شریف کے حصار سے باہر نہیں نکلے گی جبکہ شہباز شریف میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
جب امریکی افغانستان سے مکمل طور پر نکلنے والے ہیں اور افغانستان شدید خانہ جنگی کی لپیٹ میں آرہا ہے پاکستانی پارلیمنٹ کے ایوانوں میں محاذ آرائی زور پکڑرہی ہے اور بلاول بھٹو زرداری امریکہ کا دورہ کر آئے ہیں۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ وزیرِ اعظم اپنے وزرا پر نگاہیں رکھیں کیونکہ ان کے بعض وزرا نے وہی کھیل کھیلنا ہے جس طرح محترمہ فاطمہ جناح کے صدارتی الیکشن میں اپوزیشن کی نمایاں شخصیات درپردہ حکمران جماعت کے ساتھ ملی ہوئی تھیں جن میں مخدوم حسن محمود اور ممتاز محمد خان دولتانہ پیش پیش تھے اور مولانا بھاشانی نے بھی محترمہ فاطمہ جناح کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اسی طرح میری نظر میں وزیرِ اعظم کے بعض وزرا کی سرگرمیاں بھی مشکوک ہیں۔ سننے میں آ رہا ہے کہ حکومت کو کمزور کرنے کے لیے مارچ 1977ء کی طرز پر کھیل کھیلا جا رہا ہے کیونکہ افغانستان کے حالات کو کنٹرول کرنے لیے مضبوط اور فعال قومی قیادت کی ضرورت ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے ریکارڈ تعداد میں گاڑیاں اور موٹر سائیکلوں کی خریدوفروخت کا ذکر کرکے نچلی سطح کے غریب عوام کو حیران کردیا ہے۔ یہی ووٹرز ان کو 2023ء کے انتخابات میں سبق سکھا سکتے ہیں۔ ڈیم فنڈز میں جو 2018ء میں 13ارب روپے سے زائد جمع تھے‘ حکومت نے یہ رقم سرمایہ کاری میں لگادی ہے‘ اس طرح ڈیم فنڈز میں صرف سات لاکھ روپے کی رقم باقی بچی ہے۔ وفاقی وزیرِ برائے آبی وسائل مونس الٰہی نے قوم کے سامنے یہ حقائق بیان کر دیے ہیں جبکہ وزیرِ اعظم موٹر سائیکلوں کا حساب دے رہے ہیں۔ وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی شبلی فراز نے حقیقت پسندی پر مبنی اپنے ریمارکس میں خوش آئند مؤقف اختیار کرتے ہوئے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو مسترد کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن کو دینے کی بات کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا کام ووٹنگ مشین تیار کرنا ہے اور پارلیمانی جماعتیں اس کا جائزہ لے کر الیکشن کمیشن کو آگاہ کریں‘ لیکن اس کے برعکس ایک معاون برملا کہہ رہے ہیں کہ حکومت ہر حالت میں الیکشن الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے کروائے جبکہ ان حالات میں پارلیمانی جماعتوں کو اپنا مضبوط مؤقف اپنا کر واضح پالیسی مرتب کرنا ہوگی۔
افغانستان کی خانہ جنگی کے شعلوں سے ہمارا پارلیمانی سیاسی نظام خطرے کی زد میں ہے اور میرا تجزیہ اور حاصلِ کلام یہی ہے کہ جلد ملک میں ایک نگران سیٹ اپ آجائے گا کیونکہ وزیرِ اعظم اندرونی طورپر اپنی حکومت پر گرفت کمزور کرتے جارہے ہیں اور بین الاقوامی تناظر میں پاکستان کو مضبوط مستحکم اور اتفاق رائے سے فعال سسٹم کی ضرورت ہے کیونکہ خبریں گردش کررہی ہیں کہ عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو وزیرِ اعظم عمران خان پنجاب اسمبلی کو تحلیل کردیں گے اور جونہی انہوں نے یہ اقدام کیا‘ وفاق میں ان کی حکومت خود بخود گر جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں