"KDC" (space) message & send to 7575

شفاف انتخابات اور الیکشن کمیشن کے اختیارات

پاکستان کے انتخابی نظام نے سوائے بد عنوانی‘ قرضے معاف کرانے اور بیرونی ممالک میں اثاثے بنانے کے قوم کو کچھ نہیں دیا۔ اس آئین شکنی کا خمیازہ آج قوم بھگت رہی ہے۔ شکستِ آرزو‘ فکروانتشار اور مایوسی کے پانچ سالوں کے بعد ہمارے قدم ایک بار پھر خستہ حال مسکینوں کی طرح گرد آلود ہوں گے۔ ہمارے ہاں آئندہ انتخابات کیلئے جدید ٹیکنالوجی کی بات کی جا رہی ہے‘ جسے برطانیہ اور جرمنی جیسے ترقی یافتہ ممالک نے غیرآئینی قرار دیا ہوا ہے۔ حکومتی ترجمان الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی افادیت کے حوالے سے پُرعزم ہیں اور دعوے کرتے ہیں مگر ان مشینوں کے منفی پہلوئوں سے عوام کو آگاہ کرنے سے گریز کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر رسائی تو پریزائیڈنگ آفیسرز کو ہی ہو گی‘ وہ اس مشین کا مطلوبہ بٹن دبائیں گے‘ ووٹرز اپنی مرضی کے نشان پر ٹچ کرے گا‘ اس طرح ووٹرز کو اُس کی مرضی کے نشان کا پرنٹ ملے گا‘ جس کو وہ بیلٹ باکس میں ڈال دے گا۔ اس حوالے سے جو خدشات جنم لے رہے ہیں انہیں دور کرنا بھی منسٹری آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور ماتحت اداروں کیلئے مشکل نہیں ہے۔ واضح رہے کہ اس نوع کے تحفظات کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنا متعلقہ محکمے کا فرض ہے؛ تاہم الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے شفافیت کا عمل بروئے کار لایا جا سکتا ہے اگر تمام اختیارات الیکشن کمیشن کو تفویض کر دیے جائیں اور حکومت الیکشن کمیشن کے معاملات میں مداخلت بھی نہ کرے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ وفاقی وزرا الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر بریفنگ کے وقت نادرا کے تجربہ کار ماہرین کو بھی شامل کیا کریں اور اس ضمن میں الیکشن کمیشن کو بھی مکمل رسائی رہے۔ بہرحال الیکشن کمیشن نے اعلیٰ اختیارات کی ایک کمیٹی اپنے سیکرٹری ظفر اقبال کی سربراہی میں مقررکردی ہے۔ یہ لوگ الیکشن کی باریکیوں سے بخوبی واقف ہیں اور الیکشن کمیشن کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ڈائریکٹر جنرل بھی ان کی معاونت کریں گے‘ جن کا تجربہ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے ماہرین سے زیادہ ہے۔
آئندہ انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو شفافیت اور رازداری کے عمل کو ملحوظ رکھتے ہوئے انتخابی اصلاحات کی کوشش جاری رکھنی چاہیے‘ جس کی سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے میں الیکشن کمیشن کو ہدایت بھی دی ہے۔ الیکشن کمیشن کو زمینی حقائق کے مطابق اصلاحات لانے کے لیے اپنی مثبت تجویز حکومت کو پیش کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل2A کے مطابق نمائندے منتخب کرنے کے لیے ان کو متعین کرنا چاہیے۔ آرٹیکل 62 اور 63 کی روح کے مطابق عمل کرنے اور ارکان پارلیمنٹ کے سالانہ بنیادوں پر اثاثوں کی جانچ پڑتال کرنے کے لیے باضابطہ نظام کے تحت اثاثوں کی انکوائری کے لیے قومی احتساب بیورو سے معاونت حاصل کرنی چاہیے۔ الیکشن کمیشن کو اہم ترین ترقیاتی منصوبوں اور رقوم‘ جو وزیر اعظم کے صوابدیدی فنڈز کے زمرے میں آتے ہیں‘ پر بھی قدغن لگانا ہوگی۔ اس بارے میں سپریم کورٹ بھی واضح ہدایت دے چکی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن کو قانون سازی کرانی چاہیے۔ اسی حوالے سے سپریم کورٹ کے جج آصف سعید کھوسہ نے سید یوسف رضا گیلانی کے توہین عدالت کیس میں فیصلہ لکھا تھا‘ جس میں انہوں نے آرٹیکل 62 اور 63 کے بارے قرآن و حدیث کی روشنی میں الیکشن کمیشن کو عملاً ہدایت دی تھی کہ آئندہ انتخابات میں قوم کے نمائندوں کے چنائو میں آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کو ملحوظ رکھا جائے۔ میں نے معزز جج کے فیصلوں کی کاپی اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم کو بھجوائی تھی کہ عدالتی فیصلہ تمام ریٹرننگ افسران کو بھجوا دیا جائے تاکہ اسی فیصلے کی روشنی میں ریٹرننگ آفیسرز امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے دوران اس فیصلہ سے رہنمائی حاصل کریں‘ لیکن الیکشن کمشنر اس پر دھیان نہ دے سکے حالانکہ قوم جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم سے یہ توقع کررہی تھی کہ و ہ سرگرم کردار ادا کرتے ہوئے انتخابی عمل میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تحت اصلاحات لائیں گے اور ان تمام شقوں پر عمل کریں گے جو آئین میں پہلے سے موجود ہیں۔
بدقسمتی سے 1973ء کا آئین مرتب کرتے وقت شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو ان اختیارات سے محروم رکھا جو شفاف انتخابات کیلئے بنیادی ضرورت ہوتے ہیں۔ پاکستان کے آئینی ماہرین‘ جنہوں نے عوامی نمائندگی ایکٹ 76ء آئین کے آرٹیکل 2.A ‘ 3 ‘ 7 اور 63 کی روشنی میں مرتب کیا انہوں نے انڈین الیکشن کمیشن کے اختیارات اور طریقہ کار پر نظر نہیں کی۔ انڈین الیکشن کمیشن کے پاس پارلیمنٹ کے بدعنوان ارکان اسمبلی کے خلاف براہِ راست کارروائی کے اختیارات موجود ہیں۔ ہمارے ہاں کے آئینی ماہرین نے ان شقوں کو نظر انداز کردیا اور الیکشن کمیشن کے اختیارات وزارت پارلیمانی امور کے تابع کردیے۔ انڈین الیکشن کمیشن عوامی نمائندگی ایکٹ 51 کی سب سیکشن 1 اور سیکشن 8 کے تحت کسی رکن کو نااہل قراردے سکتا ہے۔ جب انڈین الیکشن کمیشن کسی رکن پارلیمنٹ کے خلاف انکوائری کا حکم جاری کرے تو انڈین کورٹس بھی عموماً مداخلت نہیں کرتیں۔ انڈین پارلیمنٹ کے رکن کے خلاف ریفرنس سپیکر کو نہیں ارسال کیا جاتا بلکہ براہِ راست الیکشن کمیشن آف انڈیا خود کارروائی کرکے اس کو نااہل کرنے کی ایڈوائس صدرِمملکت کو بھجواتا ہے اور الیکشن کمیشن آف انڈیا جس رکن کو نااہل قرار دے وہ چھ سال کیلئے عوامی عہدے سے نااہل ہو جاتا ہے۔ انڈیا کی عدالتیں الیکشن کے معاملات میں برائے نام مداخلت کرتی ہیں۔ انڈیا کے الیکشن کمیشن کو آئین نے جو اختیارات دیے‘ اس کے طریقہ کار میں رہتے ہوئے الیکشن کمیشن کو مکمل آزادی ہے۔ انڈین الیکشن کمیشن وہاں 'سیکولر نظریہ‘ کا محافظ ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے سیاسی رہنما اور جماعتوں کے خلاف براہِ راست کارروائی کرنے کا الیکشن کمیشن قانونی اور آئینی طورپر مجاز ہے۔ انڈین الیکشن کو کسی جماعت کو کالعدم قرار دینے کے لیے حکومت ہند کی طرف نہیں دیکھنا ہوتا اور نہ ہی سپریم کورٹ آف انڈیا سے مشروط کوئی آئینی شق ہے۔ انڈین الیکشن کمیشن کے برعکس الیکشن کمیشن آف پاکستان پارلیمنٹ اور حکومت کے تابع ہے۔ الیکشن کمیشن میں بعض سیاسی جماعتوں کے فارن فنڈنگ کیس اور بعض ارکان اسمبلی کے خلاف تادیبی نوعیت کے کیس برسوں سے زیرِ التوا ہیں۔ اسی طرح الیکشن ٹربیونلز نے جن ارکان اسمبلی کے الیکشن کالعدم قرار دیئے ہوئے ہیں‘ عدالتوں نے حکم امتناع جاری کرتے ہوئے الیکشن ٹریبونلز کے فیصلوں کو مؤخر کیا ہوا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کو آئندہ شفاف انتخابات کے لیے انڈین الیکشن قوانین اور انڈین الیکشن کمیشن کو میسر آئینی اختیارات جیسی اصلاحات کرنی چاہئیں اور اس ضمن میں قوم کے پارلیمانی نمائندوں کو اعتماد میں لیا جانا چاہئے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان سیاسی جماعتوں کو پولیٹیکل پارٹیز آرڈر کے تحت قانونی طور پر پابند کر سکتا ہے کہ وہ الیکشن میں ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دیں جن کو یونین کونسل‘ تحصیل کونسل اور ضلع کونسل کی مکمل حمایت حاصل ہو یعنی نچلی سطح پر عوام کی رائے حاصل کرنے والوں کو ہی ٹکٹ دیا جائے۔ امریکا‘ برطانیہ‘ کینیڈا‘ انڈونیشیا اور دیگر ممالک میں یہ طریقہ رائج ہے‘ وہاں پارلیمانی بورڈ نوواردوں کو ٹکٹ دینے کا مجاز نہیں۔ ایسے امیدوار کو ٹکٹ دیا جاتا ہے جس نے نچلی سطح پر پانچ سال تک عوام کی خدمت کی ہو۔ راتوں رات پارٹی کی وفاداریاں بدلنے والوں کو ٹکٹ ایوارڈ نہیں کیا جا سکتا۔ یہی نظریہ جناب عمران خان کا تھا‘ وہ الیکٹ ایبل امیدواروں کے سخت خلاف تھے‘ جناب عمران خان آزاد امیدواروں کو کامیابی کے بعد پارٹی میں شمولیت کے بھی خلاف تھے۔ ہمیں انہی عمران خان کی تلاش ہے‘ جو حق آواز بلند کرنے والوں کے متلاشی تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں