"KDC" (space) message & send to 7575

بلدیاتی انتخابات اور صوبائی الیکشن اتھارٹیز

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں التوا کیلئے صوبوں کا مؤقف مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کیلئے تیاریاں مکمل ہیں اور الیکشن کمیشن مستقبل قریب میں شیڈول جاری کردے گا۔الیکشن کمیشن نے واضح کیا ہے کہ بلدیاتی اداروں کی مدت پوری ہونے پر 120 دن کے اندر بلدیاتی الیکشن کروانا آئینی ذمے داری ہے جس سے روگردانی نہیں کی جا سکتی۔ صوبے اپنی کمزوریوں کو الیکشن کمیشن کے زمرے میں شامل کرنا چاہتے ہیں حالانکہ تاخیر یا کسی مصلحت کے تحت بلدیاتی انتخابات کی ذمہ داریوں سے صوبائی حکومتیں گریز کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے۔ اگر غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو موجودہ حکومت بلدیاتی انتخابات بروقت کروانے میں ناکام رہی اور صوبہ پنجاب کی حکومت نے جو لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء اور بعدازاں آرڈیننس 2020ء جاری کیاوہ بھی آئین کے آرٹیکل 140Aسے مطابقت نہیں رکھتا۔آئین کے آرٹیکل 140A/ 219D اور الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن(4) 219 کے تحت بلدیاتی اداروں کی مدت کے اختتام پر 120دن کے بعد بلدیاتی الیکشن کروانا آئینی ذمہ داری ہے تاہم صوبہ خیبر پختونخوا نے مضحکہ خیز مؤقف اپناتے ہوئے افغانستان کی صورت حال کے پیش نظر خیبر پختونخوا لوکل گورنمنٹ کے انتخابات ملتوی کرنے کی تجویز پیش کی ہے حالانکہ آئین کے آرٹیکل 140A(2) اور 32 کے ساتھ ساتھ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ (4)219کے تحت بھی بلدیاتی حکومت کی مدت 27اگست 2019ء کو ختم ہونے کے بعد 120دن کا عرصہ پہلے ہی گزر چکا ہے اور انتخاب کا انعقاد آئینی تقاضا ہے۔ دوسری جانب سندھ میں بلدیاتی الیکشن نہ کروانے پر صوبائی حکومت کیخلاف الیکشن کمیشن نے قانونی کارروائی کا آغاز کردیا ہے اور سات ستمبر سے الیکشن کمیشن کیس کی ریگولر سماعت کرے گا جس کیلئے چیف سیکرٹری سندھ اورسیکرٹری بلدیات کو نوٹس جاری کر دیے گئے ہیں جبکہ اٹارنی جنرل سے معاونت بھی طلب کرلی گئی ہے۔میری اطلاع کے مطابق وزیرِ اعلیٰ سندھ نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ سے خود فون پر رابطہ کرکے بلدیاتی الیکشن کے بارے میں تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے مردم شماری اور انتخابی فہرستوں میں بعض اضلاع میں ووٹرلسٹوں میں آبادی سے زیادہ ناموں کے اندراج کے بارے میں اُن کو آگاہ کیا اور بتایا کہ سندھ حکومت کی جانب سے مرد م شمار ی کے بارے میں اپیل عدالت میں زیرِ سماعت ہے جبکہ الیکشن کمیشن نے اس بات کا اعادہ کیا کہ صوبے میں بلدیاتی الیکشن کا انعقاد وہ اپنی قانونی ذمہ داری سمجھتا ہے۔
ان حالات میں جب صوبے بلدیاتی انتخابات کروانے سے گریز کررہے ہیں اور وفاقی حکومت بلدیاتی اداروں کے انتخابات کروانے کیلئے فنڈز جاری کرنے میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہے ‘ الیکشن کمیشن دوراہے پر کھڑا ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات کروانے کیلئے الیکشن کمیشن نے 21 کروڑ کے فنڈز کے اجرا کیلئے وزارت خزانہ کو ریفرنس بھجوایا ہوا ہے اور اطلاعات کے مطابق سیکرٹری فنانس نے چیف الیکشن کمشنر کے بار باررابطہ کرنے پر بھی مثبت جواب نہیں دیا اور چیف الیکشن کمشنر نے وزارت خزانہ کے حکام کو وارننگ دی کہ اگر بروقت فنڈ ز جاری نہ کیے گئے تو کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات 12 ستمبر کو نہیں کروائے جاسکیں گے اور الیکشن کمیشن اپنے شیڈول کو تبدیل کرنے پر مجبور ہوگا اور اگر انتخابات ملتوی ہوئے تو ذمہ دار وفاقی حکومت پر عائد ہوگی۔ وزارت خزانہ نے الیکشن کمیشن کو مطلوبہ فنڈز جاری کرنے سے معذوری کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن اپنے دستیاب فنڈز کنٹونمنٹ انتخابات کیلئے استعمال کرے۔اسی طرح کی صورتحال الیکشن کمیشن کو 2001ء میں لوکل گورنمنٹ الیکشن کرواتے ہوئے بھی پیش آئی تھی جب سیکرٹری خزانہ نے اسے پہلے مرحلے میں پندرہ اضلاع میں انتخابات کروانے کیلئے پچیس لاکھ روپے جاری کرنے سے انکار کرتے ہوئے یہی مؤقف اختیار کیا تھا کہ الیکشن کمیشن اپنے دستیاب فنڈز سے اپنی ضروریات کو پورا کرے تو اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) عبدالقدیر چودھری نے 31دسمبر 2001ء کو پہلے مرحلہ کے انتخابات کروانے سے معذوری کا اظہار کردیا تھا تو میں نے چیف الیکشن کمشنر کی ایما پر صدر مشرف کے چیف آف سٹاف کو آگاہ کیا تو انہوں نے چند گھنٹوں میں سیکرٹری خزانہ کو تبدیل کرنیکے احکامات جاری کر دیے۔ اُس وقت کی فنانشل ایڈوائز ر نیلم علی نے فوری طور پر فنڈ جاری کر دیے تھے۔
لوکل گورنمنٹ کے انتخابات مؤخر ‘ملتوی کر کے آئین سے انحراف کا سلسلہ 2009ء سے جاری ہے جب الیکشن کمیشن نے لوکل گورنمنٹ کے انتخابات اور مردم شماری کے لیے خانہ شماری اور انتخابی فہرست تیار کروانے کے لیے مردم شماری کے محکمہ سے مفاہمت کی دستاویزات تیار کی تھیں اور خانہ شماری کا 90 فیصد سے زائد کام مکمل ہو چکا تھا تو صدر آصف علی زرداری لوکل گورنمنٹ سسٹم کے انتخابات کروانے کے مجاز تھے‘ تاہم وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کی مشاورت سے الیکشن کمیشن اور مردم شماری کی کارروائی کو ملتوی کروادیا گیا اور مؤقف اختیار کیا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 140Aکے تحت صوبے قانون سازی کرانے کے بعد لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کرائیں۔اس آئینی شق کا سہارا لیتے ہوئے لوکل گورنمنٹ کے انتخابات سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت غالباً 2015 ء میں کروائے گئے اور اختیارات منتقل کرانے میں بھی تاخیر کی گئی ‘غالباً 2017 ء میں اس پر عمل کیا گیا۔
وفاقی اور صوبائی حکومتیںبلدیاتی انتخابات کرانے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتیں اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغانستان کے حالات کو مدِ نظر رکھنے کی تجویز پیش کی جارہی ہے لیکن میرے خیال میں سندھ کی حکمران جماعت کو کراچی اورحیدر آباد میں اپنی ناکامی نظر آرہی اور بلوچستان میں جام کمال کی حکومت انتہائی کمزور وکٹ پر کھڑی ہے اور اپوزیشن اور اتحادی آمنے سامنے ہیں۔ وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کیخلاف ایف آئی آر درج کروائی جا چکی ہے جبکہ کہا جا رہا ہے کہ پنجاب میں وزیرِ اعلیٰ بیوروکریٹس کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں اور انکے اتحادی ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کررہے ہیں اوران کے ترجمان طرح طرح کی تاویلیں پیش کر کے ان کو اندھیرے میں رکھے ہوئے ہیں۔دوسری جانب وزیرِ اعظم الیکشن کمیشن کو اعتماد میں لئے بغیر آگے بڑھ رہے ہیں ‘ان حالات میں الیکشن کمیشن کو صدرمملکت کو ریفرنس بھیجنا چاہیے کہ لوکل گورنمنٹ الیکشن 1998ء کی طرز پر صوبوں کے حوالے کرکے ان کو صوبائی الیکشن اتھارٹی قائم کرنے کی اجازت دیتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 32اور 140Aمیں ترامیم کرالیں۔
الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کی وجوہات جاننے کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو بلدیاتی انتخابات کروانے کی ذمے داری صوبوں کے حوالے کرنے اور دیگر سفارشات کی تیاری کے لیے کام کرے گی۔ الیکشن کمیشن کے سپیشل سیکرٹری کی سربراہی میں تشکیل دی گئی اس کمیٹی میں ڈی جی لا کے علاوہ الیکشن کمیشن کے سینئر افسران بھی شامل ہیں۔ کمیٹی الیکشن کمیشن کو اپنی سفارشات پیش کرے گی کہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے الیکشن کمیشن کی آئینی و قانونی ذمہ داریاں کیا ہیں اور بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کا وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں پر انحصار کس حد تک ہے۔ کمیٹی وجوہات کا تعین کرے گی جن کے باعث بلدیاتی انتخابات میں تاخیر ہو رہی ہے اور ایسی تجاویز پیش کرے گی جو وفاقی حکومت کو ضروری قانون سازی کے لیے بھیجی جائیں جن سے الیکشن کمیشن کا بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے صوبائی حکومتوں پر انحصار کم ہوسکے۔کمیٹی اس امر کا جائزہ بھی لے گی کہ اگر یہ انحصار کم نہیں ہوسکتا تو بلدیاتی انتخابات کی ذمہ داری صوبوں کو دے دی جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں