"KDC" (space) message & send to 7575

شوکت ترین کے سینیٹر بننے کی راہ میں حائل دشواریاں

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے بلدیاتی انتخابات آئین کے آرٹیکل 140(A) اور الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 219 کے تحت کرانے کے بارے میں اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے وزارت داخلہ‘ حکومت پاکستان‘ پنجاب و سندھ کے چیف سیکرٹری صاحبان سمیت بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں سے بھی بات چیت کا آغاز کرتے ہوئے عندیہ دیا ہے کہ بلدیاتی انتخابات مارچ 2022ء تک کروا دیے جائیں گے۔ ایسا ہو جائے تو اچھی بات ہے لیکن میری نظر میں صوبائی حکومتیں اور وفاقی حکومت ان کی راہ میں تکنیکی رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہیں۔ ان تمام دشواریوں کے باوجود الیکشن کمیشن نے بلدیاتی اداروں کیلئے انتخابی شیڈول تیار کرنا شروع کر دیے ہیں اور حلقہ بندیوں اور انتخابی فہرستوں کی ترتیب و تدوین کیلئے کمیٹیاں مقرر کر دی ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کیلئے صدر مملکت بھی پُرعزم ہیں۔ انہوں نے قومی لوکل گورنمنٹ کانفرنس میں بلدیاتی اداروں کو جمہوریت کی پہلی سیڑھی قراردیتے ہوئے بلدیاتی اداروں کو فعال کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ میں انتخابی اُمور میں صدر مملکت کی گہری دلچسپی کو بہت قریب سے جانتا ہوں۔ انہوں نے ماضی میں انتخابی اصلاحات کمیٹی کا ممبر ہونے کی حیثیت سے بہت سی تجاویز انتخابی کمیٹی کو پیش کی تھیں‘ مگر تب ان کی کئی سفارشات کو انتخابی اصلاحات کمیٹی کے چیئرمین اسحاق ڈار اور زاہد حامد نے نظرانداز کردیا تھا۔
دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ وفاقی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے معیشت کا برا حال ہے۔ عوام مہنگائی سے پریشان ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے بیانیہ کے برعکس وزیر خزانہ ایسے بیانات دے رہے ہیں جن کی وجہ سے مارچ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات پر گہرا اثر پڑے گا۔ عوام اپنے غم وغصے کا اظہار پولنگ سٹیشنوں پر ہی کریں گے جبکہ حکمران جماعت اپنے دعوے کے برعکس نتائج کا سامنے کرے گی۔ حکومتی عہدے دار عوام کی بھلائی اور ان کو ریلیف دینے کے بجائے پاکستان مسلم لیگ میں سے ن ‘ش اور م وغیرہ نکالنے کا راگ الاپ رہے ہیں‘ جس سے عوام میں مزید نفرت جنم لے رہی ہے۔
وزرا نے الیکشن کمیشن سے محاذ آرائی کا جو راستہ اختیار کیا ہے میرے خیال میں اس سے یہ آئینی ادارہ مزید مضبوط اور غیر جانبدار ہو کر سامنے آئے گا اور اس کے آئندہ فیصلوں سے حکمرانوں کی آنکھیں کھل جائیں گی۔ ادھر ریاست مدینہ کے دعوے داروں نے سودی نظام معیشت خاتمہ کیس میں وفاقی شرعی عدالت کے اختیارِ سماعت کو چیلنج کر دیا۔ ملک میں سودی نظام کے خاتمے کا قانون نہیں بنایا جا سکا۔ اصولی طور پر وفاقی حکومت کو سودی نظام کے خاتمے کے لیے شرعی عدالت کی معاونت کرنی چاہیے تھی۔ حکومت نے ہر ادارے کے ساتھ محاذ آرائی کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے جبکہ نیک نیتی کا تقاضا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 2 اور 2.A کے تحت جتنا جلدی ممکن ہو ملک سے سودی نظام کا خاتمہ کیا جائے۔ اگر اس نظام کا خاتمہ ہو جاتا ہے تو اس کے اثرات نچلی سطح تک آئیں گے اور ملک سے مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ ہو جائے گا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ساٹھ روز میں رکن پارلیمنٹ کا حلف لازمی قرار دینے کے لیے آرڈیننس کے خلاف پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اعظم تارڑ کی درخواست ناقابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دی اور فیصلے میں لکھا کہ عدالت نہیں بلکہ پارلیمنٹ کو اپنے اختیارات استعمال کرنے چاہئیں‘ وہ چاہے تو آرڈیننس مسترد کر سکتی ہے۔ اصولی طور پر اسحاق ڈار کو سینیٹ کے الیکشن میں کامیابی کے بعد حلف اٹھا لینا چاہیے تھا۔ ان کے خلاف جو مقدمات زیرِ سماعت تھے وہ قابلِ ضمانت تھے لیکن انہوں نے ملک سے فرار ہونے کا راستہ اختیار کیا۔ بعد ازاں علالت کا ڈھونگ بھی رچایا گیا۔ اسحق ڈار کو اگر پاکستان نہیں آنا تھا تو انہیں سینیٹ کی نشست سے دستبردار ہو جانا چاہیے تھا۔ اب آئینی طور پر صدارتی آرڈیننس کا تجزیہ کرتے ہیں۔ صدر مملکت نے وزیر اعظم کی ایڈوائس پر دو ستمبر 2021ء کو صدارتی آرڈیننس جاری کرتے ہوئے الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 72 میں ترمیم کر دی۔ میری ناقص رائے کے مطابق اس سیکشن کا تعلق عام انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں سے ہے کہ وہ الیکشن سے چار روز پہلے کاغذات نامزدگی واپس لیتے ہوئے ریٹائرمنٹ کے لیے ریٹرننگ آفیسرکو حلف نامہ داخل کرا سکتے ہیں جبکہ موجودہ کیس میں اسحاق ڈار پنجاب اسمبلی کے ذریعے سینیٹر منتخب ہوئے تھے‘ لہٰذا الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 72 ان پر لاگو نہیں ہوتی نہ ہی آرڈیننس کے ذریعے اس دفعہ میں ترمیم کی گنجائش ہے۔ میری رائے میں الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعات 115‘ 29 اور 130 میں ترمیم کرنی چاہیے تھی جو سینیٹ الیکشن کے معاملات سے متعلق ہیں‘ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 72 کا تعلق قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی سے متعلق ہے۔
دوسری جانب اسحاق ڈار نے چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھ کر موقف اختیار کیا ہے کہ صدارتی آرڈیننس کے مطابق چالیس دن کے اندر حلف اٹھانا اُن پر اس لیے لاگو نہیں ہوتا کہ ان کی سینیٹ کی ممبرشپ کو 8 مئی 2018ء کو سپریم کورٹ نے معطل کر رکھا ہے اور ان کا کیس سپریم کورٹ میں زیرِ التوا ہے‘ جونہی عدالت نے ان کی ممبرشپ بحال کی وہ حلف اٹھانے کے لیے پاکستان آ جائیں گے۔ اس اہم آئینی تناظر کو وفاقی حکومت کو مدِنظر رکھنا چاہیے۔ چنانچہ موجودہ حالات میں تو شوکت ترین کو خیبر پختونخوا اسمبلی سے ہی سینیٹر منتخب کرایا جا سکتا ہے جس کیلئے شوکت ترین صاحب کو انتخابی فہرست ایکٹ اور نادرا کے مشکل مرحلوں سے گزرنا ہو گا۔
اگر اسحاق ڈار کی نشست خالی ہو جاتی ہے تو اس صورت میں وزیرِ خزانہ شوکت ترین آسانی سے پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کی اکثریت کے بل بوتے پر سینیٹر منتخب ہو سکتے ہیں‘ بشرطیکہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کی طرح حکومت کو کوئی پشیمانی نہ اُٹھانی پڑے کیونکہ جہانگیر ترین کے 30 کے لگ بھگ ارکان صوبائی اسمبلی اور اتحادی جماعت کے ارکان اسمبلی ممکنہ طور پر ہاتھ دکھا سکتے ہیں۔ یہاں پر مارچ 2021 کا فارمولہ‘ جو چودھری پرویز الٰہی نے اختیار کیا تھا‘ کامیاب ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا ہے۔ شوکت ترین کو اگر محفوظ راستہ دیتے ہوئے صوبہ خیبر پختونخوا کی اسمبلی سے کامیاب کرانا مقصود ہو تو پھر ان کو الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 27 کے مرحلے سے گزرنا پڑے گا اور شناختی کارڈ تبدیل کرتے ہوئے انتخابی فہرست میں اندراج کرانا ہو گا تاہم موجودہ انتخابی فہرست میں جہاں ان کا ووٹ درج ہے‘ اسی حلقے سے ووٹ ٹرانسفر کرانے لیے الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 31 ان کی راہ میں حائل ہو گی اور جب ان کے شناختی کارڈ میں تبدیلی اور ووٹ کے اندراج کا مرحلہ آئے گا تو میڈیا میں دلچسپ بحث شروع ہو جائے گی جو اُن کی شہرت کو متنازع بنا دے گی‘ لہٰذا شوکت ترین‘ جو اپنے ماضی اور حال کا شاندار پس منظر رکھتے ہیں‘ پر از سر نو نئی بحث کا آغاز ہو جائے گا۔ ان کے مخالف گروپ عدالت میں رٹ بھی دائر کر سکتے ہیں جیسا کہ اقبال جھگڑا‘ راحیلہ مگسی‘ کنول شوذب اور ملیکہ بخاری کے کیسز عدالتوں میں زیرِ سماعت رہے‘ جبکہ کنول شوذب اور ملیکہ بخاری کے کیسز کے فیصلے اسلام آباد ہائی کورٹ میں محفوظ ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں