"KDC" (space) message & send to 7575

پنڈورا پیپرز: تحقیقاتی سیل کیا کرے گا؟

پنڈورا پیپرز سے پاکستان کے عوام حیرت زدہ ہیں۔ اس عالمی انکشاف میں 700 پاکستانیوں کی آف شور کمپنیاں بے نقاب ہو چکی ہیں اور تقریباً ایک کھرب روپے پاکستان سے منی لانڈرنگ کے ذریعے غیر ملکی بینکوں میں منتقل ہونے کی باتیں ہورہی ہیں۔ تقریباً 12 ملین دستاویزات کا یہ لیک چھپی ہوئی دولت‘ ٹیکس سے بچنے اور بعض صورتوں میں دنیا کے کچھ امیر اور طاقتور افراد کی جانب سے منی لانڈرنگ کو ظاہر کرتا ہے۔ 117 ممالک میں 600 سے زائد صحافیوں نے 14 ذرائع سے حاصل ہونے والی فائلوں کی جانچ کرکے یہ انکشاف کئے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کے کچھ طاقتور ترین لوگ‘ جن میں پاکستان سمیت 90 ممالک کے 330 سے زیادہ سیاستدان بھی شامل ہیں‘ اپنی دولت چھپانے کے لیے خفیہ آف شور کمپنیوں کا استعمال کرتے ہیں۔
پنڈورا پیپرز میں سامنے آنے والے پاکستانی ناموں میں سے بعض سیاست دانوں‘ وزرا اور دیگر لوگوں کی جانب سے وضاحتیں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ پاکستان کی طاقتور اشرافیہ وزیر اعظم عمران خان کے ارد گرد موجود ہے۔ اگرچہ وزیرِ اعظم نے ماضی میں کیے گئے دعووںکی بنیاد پر ٹیکس چوری‘ منی لانڈرنگ اور کرپشن کے ذریعے بیرون ممالک اثاثے بنانے والوں کی تحقیقات کے لیے وزیر اعظم معائنہ کمیشن کے تحت سیل تو قائم کر دیا ہے‘ جس کی تصدیق وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے بھی کی ہے‘ اور فیڈرل بیورو آف ریونیو (ایف بی آر)‘ وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) اور قومی احتساب بیورو (نیب) کے نمائندے جس کا حصہ ہوں گے‘ مگر جس سیل کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے اس کی کوئی آئینی حیثیت نہیں۔ یہ سیل سفارشات پیش کرنے کے سوا کچھ نہیںکر سکتا کیونکہ وزیرِ اعظم معائنہ کمیشن کے پاس قانون کے تحت ایسی تحقیقات یا نگرانی کا کوئی قانونی مینڈیٹ نہیں۔ ایسی کوئی بھی کارروائی اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج ہو سکتی ہے۔ ایف بی آر کو معاملہ بھیجنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اس ادارے نے پانامہ پیپرز میں معمولی نوعیت کا نوٹس بھیجا تھا۔ اس کی وجہ ممکن ہے اُس وقت کے وزیرِ خزانہ اسحق ڈار ہوں۔ وزیرِ اعظم عمران نے براڈ شیٹ کے بارے میں بھی مکمل اور جاندار انکوائری کرانے کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق جسٹس عظمت سعید شیخ کی سربراہی میں سنگل رکنی کمیشن بنایا تھا‘ مگر انہوں نے انکوائری کرنے کے بعد جو سفارشات وزیرِ اعظم کو پیش کی تھیں ان کے بارے میں آج تک حکومت کی طرف سے خاموشی ہے اور لگتا یہ ہے کہ قومی ملزموں پر ہاتھ ڈالنے کی کسی میں ہمت نہیں۔ پٹرول‘ ادویات‘ چینی اور دیگر سکینڈلز کے بارے میں جو اعلیٰ سطح کے کمیشن بنائے گئے تھے‘ ان کی سفارشات بھی سرد خانے میں پڑی ہیں؛ چنانچہ اب قوم کے سامنے سرخرو ہونے کے لیے اور آئندہ انتخابات میں کامیابی کے لیے وزیر اعظم کو سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔ پانامہ کی طرز پر پنڈورا پیپرز پر حاضر سروس ججز سے عدالتی فورم پر غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائی جائیں اور جوڈیشل کمیشن میں اس معاملے پر قانون کے مطابق آگے بڑھا جائے۔
ملک و قوم کو سکتے کے عالم سے نکالنے کے لیے آئینی اداروں پر ملکی مفاد میں ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ جن پاکستانیوں کی آف شور کمپنیاں بے نقاب ہوئی ہیں‘ اُن کے بارے عملی طور پر اور نتیجہ خیز انداز سے کچھ کرنا ہو گا کیونکہ حکومتی دعوے بے وقعت ہوتے جا رہے ہیں اور اپوزیشن نے بھی پنڈورا پیپرز پر انتہائی کمزور اور بے نام ادارے سے تحقیقات کروانے کو مسترد کردیا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ آف شور کمپنیاں 2016ء سے پہلے قائم ہوئی تھیں یا بعد میں اور کیا پانامہ پیپرز میں بھی ان کا اندراج تھا یا نہیں‘ نیز یہ کہ ان کے لیے پیسہ پاکستان سے کن چینلز کے ذریعے گیا۔ اگرچہ کہہ تو سبھی یہ رہے ہیں کہ انہوں نے سٹیٹ بینک کی اجازت سے اور قانونی طریقوں کے مطابق کام کیا اور پاکستان میں ٹیکس کے اداروں کو ان سے آگاہ کیا گیا تھا مگر صرف زبان پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا‘ اس لیے ایک جامع‘ غیر جانبدار اور بااختیار کمیشن کا مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس کے ذریعے یہ تحقیقاتی عمل مکمل کیا جائے۔
ایک تحقیقی رپورٹ کے الفاظ میں عوامی شخصیات کے لیے ایسی کمپنیوں کا مالک ہونا انتہائی متنازع عمل ہے کیونکہ جس طرح کی طاقت اور اختیارات ان کے پاس ہوتے ہیں ان کا غلط استعمال غیر قانونی ذرائع سے دولت کمانے کے لیے کیا جا سکتا ہے۔ قومی اداروں کو اس دعوے کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ آف شور بزنس سے برطانیہ میں جائیدادیں خریدنے والوں میں پاکستانی پانچویں نمبر پر ہیں۔ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن پر بھی اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ پنڈورا پیپرز میں جن وزرا اور ارکانِ پارلیمنٹ کے نام آئے ہیں‘ ان کے کاغذات نامزدگی کے فارموںکا جائزہ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعات 4‘ 5‘ 6‘ 8‘ 9‘ 55‘ 167 اور 168 کے تحت لیا جا سکتا ہے اور الیکشن کمیشن اس پر کارروائی کا قانونی طور پر مجاز ہے۔ اسی طرح یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ جن سیاسی لوگوں کے نام ان پنڈورا پیپرز میں آئے ہیں‘ انہوں نے اپنے سالانہ گوشوارے جمع کراتے ہوئے اپنے یہ اثاثے ظاہر کئے تھے یا پوشیدہ رکھے۔ اگر ظاہر کئے تھے تو یقینا منی ٹریل یا اس قسم کے ثبوت اور سٹیٹ بینک کے اجازت نامے بھی دکھائے ہوں گے‘ اور اگر ایسا نہیں کیا تو ان کے خلاف الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 174 کے تحت الیکشن کمیشن کارروائی کرنے کا مکمل اختیار رکھتا ہے۔ اسی طرح الیکشن کمیشن‘ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 137 کے تحت بھی کرپٹ پریکٹس کے حوالے سے ایسے ارکان پارلیمنٹ‘ جنہوں نے حقائق چھپائے تھے‘ کی رکنیت کو کالعدم قرار دے سکتا ہے۔ اب بے بس‘ مہنگائی سے ستائی ہوئی قوم اور لاچار عوام کی آواز کو مضبوط اور فعال ادارے ہی سن سکتے اور ان کا ہاتھ تھام سکتے ہیں۔ پنڈورا پیپرز سے جو انکشافات ہوئے ہیں‘ انہیں صرف ایک یا چند افراد تک محدود نہیں ہونا چاہیے‘ ان تمام افراد کا احتساب ہونا چاہے‘ جنہوں نے کوئی غیر قانونی کام کیا ہے۔ ریکارڈ سے ثابت ہو رہا ہے کہ تقریباً 29 ارکان ایسے ہیں جنہوں نے الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 137 کے تحت بیرون ملک دولت ظاہر کی ہے‘ تاہم کسی نے بھی اثاثوں اور واجبات کے اعلان کے مطابق کسی آف شور کمپنی کو ظاہر نہیں کیا۔
اب چونکہ وزیر اعظم عمران خان اپنے وزیر خزانہ شوکت ترین کو کسی صوبے کے کوٹے سے سینیٹر منتخب کروانے کے لیے پُرعزم ہیں تو موجودہ حالات میں ترین صاحب کو کاغذات نامزدگی جمع کراتے ہوئے پنڈورا پیپرز کے ذریعے منظر عام پر آنے والی آف شور کمپنیوں کا مکمل دفاع کرنا ہو گا۔ جب تک وہ اس سکینڈل سے سرخرو نہیں ہو جاتے‘ ان کے کاغذات نامزدگی کی منظوری معلق رہے گی اور معاملہ اعلیٰ عدالتوں تک جا سکتا ہے اور اس کے اثرات سے متعلقہ صوبائی اسمبلی کے ارکان کے ضمیر بھی جاگ جائیں گے‘ جن پر آئین کا آرٹیکل 63(1) لاگو نہیں ہوتا۔ یہ وزیر اعظم عمران خان‘ الیکشن کمیشن اور اعلیٰ عدلیہ کا ایک لحاظ سے امتحان ہے کہ وہ کیسے عوام کا استحصال کرنے والی اشرافیہ کو قانون کی گرفت میں لا کر انصاف کا بول بالا کرتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں