"KDC" (space) message & send to 7575

مردم شماری اور بین الاقوامی اصول

حکومت انتخابی محاذ پر کئی جگہوں پر الجھی ہوئی ہے جبکہ آئندہ الیکشن کے لیے جس طرح کی حکمت عملی تیارکی جارہی ہے ‘اس سے یوں لگ رہا ہے کہ وزیرِ اعظم کااپنی پارٹی کے بنیادی ڈھانچے پر سے اعتماد اُٹھتا جارہا ہے اور وہ وہی طریقے اختیار کررہے ہیں جیسا کہ 1976ء کے اوائل میں وزیراعظم بھٹو نے آئندہ انتخابات میں کامیابی کے لیے اختیار کئے تھے‘ جیسے اپنی وفادار بیوروکریسی ‘سول انٹیلی جنس اور صوبہ سندھ کے وزیرِ اعلیٰ پر انحصار ۔اُس وقت کے پنجاب کے وزیِر اعلیٰ نواب صادق قریشی نے اندرون خانہ وزیرِ اعظم بھٹو کے خلاف سازشوں کا جال بچھا رکھا تھا اور اس کا نتیجہ قوم نے سات مارچ سے 5جولائی 1977ء تک کے سانحات میں دیکھ لیا ۔اسی طرح وزیرِ اعظم عمران خان رواں سال مارچ سے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال پر زور دیتے آرہے ہیں اور سمندر پار پاکستانیوں کو بھی انتخابی عمل کا حصہ بنانے کے خواہش مند ہیں‘مگر ان اقدامات کوحکومت کی عجلت اور بعض وزرا کی الیکشن کمیشن سے بلاوجہ محاذ آرائی نے سبو تا ژ کر دیا ہے اور حالات خطر ناک موڑ کی طرف جاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں ۔ پی ٹی آئی کے اتحادی ان حالات میں مستقبل کے سیاسی منظر نامے سے مایوس نظر آرہے ہیں ۔اس صورت حا ل کو دیکھتے ہوئے وزیرِ اعظم نے مردم شماری کرانے کے لیے شیڈول جاری کروا دیا ہے۔ حکومت دسمبر 2022ء تک قانونی طریقے سے مردم شماری کروانے کا ارادہ رکھتی ہے اور اہم وزرا کے بیانات کے مطابق مردم شماری میں جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا ۔زمینی حقائق کے مطابق حکومت نے حقائق کی بنیاد پر قانونی طریقے سے مردم شماری کا فیصلہ کیا ہے جس میں گزشتہ چھ ماہ سے رہائش کی بنیاد پر سب افراد کی گنتی کی جائے گی ۔اس ضمن میں پاک فوج سے بھی معاونت طلب کی جائے گی اور ماضی کی مثالوں کو مد نظر رکھیں تو لگتا ہے کہ اڑھائی لاکھ کے قریب جوانوں کو مردم شماری کے عمل میں مدد کے لیے بلانا پڑے گاتاکہ مکمل تحفظ اور اعتماد کے ماحول میں فارم بھرنے کا عمل تکمیل کو پہنچ سکے۔وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کے بقول حکومت نے 23 سے 25ارب روپے لاگت کا تخمینہ لگایا ہے‘ اس طرح ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کمپیوٹرائزڈ مردم شماری کی جائے گی۔ اسدعمر صاحب کا کہناتھا کہ مردم شماری میں ہر اس شخص کو وہاں شمار کیاجائے گا جہاں وہ گزشتہ چھ ماہ سے رہائش رکھتا ہوگااور آئندہ چھ ماہ اُسی مقام پر مقیم رہے گا۔ حکومتی تخمینے کے مطابق مردم شماری کے لیے ڈیجیٹل آلات کے ایک لاکھ ماہرین جبکہ تعلیم ‘صحت اور لوکل گورنمنٹ کے محکموں سے چھ لاکھ افراد حصہ لیں گے ۔ملک کے معروف ماہرین عمرانیات کی مشاورت سے23سے 26سوالات پر مبنی سوال نامہ تیار کرایا جائے گا جبکہ شماریات بلاکس کی تعداد بھی ایک لاکھ 68ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ 80 ہزا رکر دی گئی ہے ۔ وزارت منصوبہ بندی نے مشترکہ مفادات کونسل (ICC) کو مردم شماری کی سمری بھجوائی جس کی منظوری کے بعد وفاقی کابینہ نے آئندہ مردم شماری قانونی طریقے سے کروانے کا اشارہ دے دیا ہے۔مردم شماری کی منظوری کے بعد حکومت چیف شماریاتی کمشنر مقررکرے گی۔ اگر حکومت آئندہ عام انتخابات نئی مردم شماری کے مطابق کروانا چاہتی ہے تو اس منصوبے کو دسمبر 2022ء تک مکمل کرنا ہو گا کیونکہ الیکشن کمیشن کو آئندہ عام انتخابات کے انعقاد کے لیے چھ ماہ کا وقت درکا رہوگا جو کہ جولائی یا اگست 2023ء میں منعقد ہونا ہیں ۔الیکشن کمیشن کی جانب سے اس حوالے سے وفاقی حکومت کو خط بھی لکھا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مردم شماری کے بعد حلقہ بندیاں کرنی ہیں‘ حلقہ بندیوں کے لیے کم از کم چھ ماہ درکار ہوں گے اس لیے شفاف اور بہترین حلقہ بندیوں کے لیے حکومت دسمبر 2022ء تک مردم شماری مکمل کرے۔اگر کسی وجہ سے مردم شماری کی منصوبہ بندی میں تاخیرہوگئی تو پھر انتخابات 2017ء کی مردم شماری کی بنیاد پر کروانا پڑیں گے ۔
حکومت نے مردم شماری کے حوالے سے جو منصوبہ بندی کی ہے‘ بادی النظر میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ غیر ملکی اور غیر سرکاری تنظیموں نے یہ فارمولا بنا کر پیش کیا ہے‘ تاہم مردم شماری کے وقت چھ ماہ کی سکونت کا سرٹیفکیٹ کس ادارے نے جاری کرنا ہے‘ یہ ایسا ابہام ہے جو کسی صورت میں بھی قابلِ عمل نہیں‘ اور اسی مقام پر مزید چھ ماہ رہنے کی یقین دہانی حاصل کرنا بھی مضحکہ خیز تصور کیا جائے گا۔ اس طرح ملک میں بے یقینی کی فضا پیدا ہو گی اور ہر گھرانے کے افراد کو اپنی رہائش میں چھ ماہ سے سکونت کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے کسی نہ کسی کی ضمانت درکار ہو گی۔ کیا یہ سرٹیفکیٹ عوام کے لیے مشکلات پیدا نہیں کرے گا؟ حکومت کس قانون کے تحت چھ ماہ سے رہائش رکھنے اور آئندہ چھ ماہ بھی وہیں رہنے کا سرٹیفکیٹ مہیا کرے گی‘ ایسے مضحکہ خیز سوال نامے سے ملک میں نئی مردم شماری کے کیسے نتائج مرتب ہو سکتے ہیں؟
حکومت نے زمینی حقائق کا سہارا لیتے ہوئے کرفیو کے نفاذ کو مسترد کر دیا ہے۔ پتا نہیں کرفیو کی تجویز کہاں سے آئی؟ اس سے پہلے تو ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ملک میں 1951ء سے 2017ء تک جتنی بھی مردم شماریاں ہوئی ہیں‘ کبھی بھی کرفیو لگانے کی کوئی تجویز پیش کی گئی اور نہ ہی کبھی کہیں سے اس کا مطالبہ سامنے آیا۔ مردم شماری کے لیے فوج کی خدمات مستعار لینے کی بات ہو رہی ہے لیکن میرے خیال میں حکومت اس وقت مردم شماری کے لیے فوج کے اڑھائی لاکھ جوانوں کی خدمات مستعار لینے کی بات کر رہی ہے جب ملک کی اندرونی صورت حال غیر یقینی نظر آ رہی ہے اور سیاسی جماعتیں مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف احتجاج کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں‘ لہٰذا یسا کرنا مناسب نہ ہو گا۔
میرے خیال میں اس صورت حال کو مدِنظر رکھتے ہوئے مردم شماری کو سہل طریقے سے اور عام فہم انداز میں کروانے کی حکمت عملی بنائی جانی چاہیے۔ پھر ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ ایک لاکھ کمپیوٹر ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کے جو دعوے کیے جا رہے ہیں ان کے غیر جانبدار ہونے کی ضمانت کس ادارے سے حاصل کی جائے گی؟ اپوزیشن مخالفت برائے مخالفت کرتے ہوئے ان ماہرین کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے گی‘ جس طرح 2017ء کی مردم شماری میں شمار کنندگان نے فارم پنسل سے بھروائے تھے تو اس پر اعتراضات اٹھائے گئے تھے‘ اس کے باوجود شمار کنندگان نے پورے پاکستان کی مردم شماری کے فارم پنسل کے ذریعے بھروائے مگر دفتروں میں بال پوائنٹ پین استعمال کیا گیا تھا۔ مردم شماری میں شمار کنندگان کے بلاک کی تعداد بڑھائی جا رہی ہے‘ اس سے انتخابی فہرستوں میں ردوبدل کرنا پڑے گا اور اس ضمن میں الیکشن کمیشن کو بھی اعتماد میں لینا پڑے گا۔ سب سے اہم یہ ہے کہ نئی مردم شماری اس حد تک شفاف ہو کہ سبھی صوبائی اکائیاں اس پر اعتماد کر سکیں۔ یہی اس منصوبے کی کامیابی ہو گی ورنہ اس کا حال بھی 2017 ء والی مردم شماری سے مختلف نہ ہو گا جو قریب دو دہائیوں بعد منعقد ہوئی مگر اس کے ہونے کا کوئی فائدہ نظر نہیں آیا۔ اس مردم شماری نے صوبوں میں اختلاف رائے کو بڑھاوا دیا۔ غور کر نے کی ضرورت ہے کہ ایسے اعتراضات کیوں پیدا ہوئے‘ اور نئی مردم شماری میں ان کے ازالے کے لیے کیا کیا جا رہا ہے۔ صرف ٹیبلٹس کا استعمال کافی نہ ہو گا بلکہ ڈیٹا حاصل کرنے اور اس ڈیٹا کی کیلکولیشن کے عمل میں شفافیت بھی ناگزیر ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں