"KDC" (space) message & send to 7575

بلوچستان میں تبدیلی کے ممکنہ سیاسی اثرات

جس وقت کالعدم تنظیم کے لانگ مارچ کی وجہ سے لاہور ‘ راولپنڈی اوراسلام آبادمیں لاک ڈائون کی سی کیفیت تھی‘وزیرداخلہ پاک انڈیا کرکٹ میچ دیکھنے دبئی چلے گئے تھے‘ مگرہفتہ کے روز لانگ مارچ لاہور سے نکل کر اسلام آباد کی جانب بڑھنے لگا اور حالات غیر معمولی ہونے کا اندیشہ لاحق ہوا تو وزیراعظم نے وزیرداخلہ کو یو اے ای سے واپس بلالیا۔ میرے خیال میں وزیرِ اعظم کو احساس ہی نہیں کہ ان کے چند وزرا ایک مخصوص پروگرام کے تحت ان کے ساتھ گیم کھیل رہے ہیں۔ ابھی تک کے تجربے سے یہی دکھائی دیتا ہے کہ وزیراعظم کو سیاست ‘معیشت‘خارجہ امور اور داخلہ معاملات کے ساتھ انتخابی اُمور پر بھی دسترس حاصل نہیں۔ ان کے ایک مشیر نے نان ایشو پر میڈیا کو وزیراعظم کے خلاف کردیا ہے۔ دوسری طرف وزارت اطلاعات و نشریات میڈیا کی ناراضی کو دور کرنے کے بجائے مزید اشتعال دلانے کا کام کرتی رہتی ہے۔ اسی طرح الیکشن کمیشن کے بارے میں اعظم سواتی صاحب کے غیر سنجیدہ رویے سے ملک کے اس اہم ترین آئینی ادارے کی قانونی اور آئینی طاقت کو چیلنج کرنے کی کوشش کی گئی جبکہ الیکشن کمیشن نے انہیں شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے 26اکتوبر کو ذاتی حیثیت میں الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہونے اور شوکاز نوٹس کا جواب دینے کی ہدایت کی تھی۔ الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر پر سنگین الزامات ‘ ان کے خلاف ناشائستہ بیان بازی اور غیر پارلیمانی رسپانس کی وجہ سے اعظم سواتی کے سیاسی مستقبل کے لیے شدید چیلنجز پیدا ہوتے نظر آرہے ہیں جبکہ اعظم سواتی نے ایک جونیئر وکیل کو الیکشن کمیشن کے روبرو پیش کروادیا اور جونیئر وکیل نے مضحکہ خیز بیان دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے سینئر وکیل سے بریفنگ نہیں لی اور نہ ہی فائل کا مطالعہ کیا ہے ۔اس پر الیکشن کمیشن نے اعظم سواتی کے وکیل کی سرزنش کرتے ہوئے شوکاز نوٹس جاری کردیا۔ اس سے لگتا ہے کہ اس اہم کابینہ رکن کو احساس ہی نہیں کہ الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 204 کے تحت اور الیکشن ایکٹ 2017کی دفعہ 10کے تحت کارروائی کررہا ہے اور اس کا دائرہ آئین کے آرٹیکل 63(1)جی اور آئین کے آرٹیکل 62(1)ایف تک پھیلا ہوا ہے ۔اعظم سواتی اور فواد چودھری الیکشن کمیشن کے ساتھ جو معاملات کررہے ہیں ان کے نتائج ان کو عدالت میں بھگتنا پڑسکتے ہیں۔الیکشن کمیشن سے ان کے خلاف فیصلے آتے ہیںتو لامحالہ ان کو سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا حق حاصل ہو گا ‘تب الیکشن کمیشن سپریم کورٹ میں ان کے غیر سنجیدہ رویے کے بارے میں جواب داخل کرا سکتا ہے۔
دوسری جانب بلوچستان کے (سابق) وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف جو عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی اس پر رائے شماری سے پہلے ہی جام کمال نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔جام کمال کے کچھ ناراض اور حامی ارکان ِصوبائی اسمبلی اوسط درجے کے حامل سیاسی رہنما ہیں ‘اگرچہ ان میں چند اہم شخصیات بھی ہیں جیسا کہ ملک سکندر اوراسد بلوچ وغیرہ ۔ ان کا اپنے اپنے حلقے میں متاثر کن اثر ہے اور میری ان سے شناسائی 1980ء سے چلی آرہی ہے جب میری پوسٹنگ بلوچستان میں بطور الیکشن کمشنر رہی ۔
بلوچستان کے سابق وزیرِ اعلیٰ جام کمال علیانی کے دادا جام قادر آف لسبیلہ مغربی پاکستان کے گورنر نواب آف کالا باغ اور جنرل موسیٰ خان کی کابینہ کا حصہ رہے ۔اسی طرح جام یوسف قادر جنرل پرویز مشرف کے دور ِ حکومت میں بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ رہے اور جام قادر آف لسبیلہ کی تیسری نسل کے نمائندے جام کمال علیانی ہیں جو ایک شریف النفس انسان ہیں اور اپنے خاندان کی روایات کو آگے بڑھاتے رہے ہیں۔بلوچستان عوامی پارٹی تشکیل دینے سے پہلے انہوں نے 2017ء کے اوائل میں جب سردار ثنا اللہ زہری وزیرِ اعلیٰ تھے ‘چودھری شجاعت حسین سے مشاورت کی تھی اورنئی پارٹی بنانے کے بارے میں ان کی رہنمائی حاصل کی تھی ۔چودھری شجاعت حسین نے پارٹی کا نام رکھنے پر مجھ سے بھی مشورہ کیا تھا ۔میں نے پارٹی کی تشکیل کے قانونی طریقے سے ان کو بریف کیا تھا ۔جہاں تک جام کمال کے خلاف حالیہ عدم اعتماد کی تحریک کا تعلق ہے تو میری ذاتی رائے یہ ہے کہ یہ مفادات کی جنگ ہے ‘اس سے بلوچستان کے غریب عوام کا کوئی تعلق نہیں ہے ‘ایسا صرف ترقیاتی فنڈز کے حصول کی غرض سے کیاجاتاہے ۔ان کے ناراض ارکان کا پس منظر مجھے معلوم ہے ۔ موجودہ حکومت کا کوئی حقیقی تھنک ٹینک نہیں ہے لیکن اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی تو اس کے اثرات دیگر صوبوں بالخصوص پنجاب پر بھی پڑسکتے تھے۔
ادھروفاق میں بھی تبدیلی کی گھنٹی بجتی محسوس ہو رہی ہے۔ متبادل قیادت سامنے لانے کے لیے تحریک انصاف میں بھی اسی طرح کی آوازیں اٹھ رہی ہیں جس طرح بلوچستان کے ناراض ارکان نے تحریک شروع کی تھی۔ پنجاب میں عثمان بزدار ترقیاتی کاموں کی تختیاں لگوارہے ہیں جبکہ عملی کام نہیں ہوپارہے۔ میڈیا سیل کے ذریعے ان کی کارکردگی اسی طرح دکھائی جارہی ہے جیسا کہ ماضی کی حکومتیں اپنی کارکردگی دکھاتی رہی ہیں۔ پنجاب میں مالی معاملات میں ہیر پھیر کی داستانیں زبان زد عام ہیں۔ وزیراعظم نے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کے معاملہ پر جس طرح یوٹرن لینے کی روایت برقرار رکھی اس سے ملک کے حساس ترین ادارے الرٹ ہوگئے ہیں ۔آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کا تقرر عام روٹین کا معاملہ رہا ہے۔ صدر ایوب خان سے عمران خان تک ‘اس معاملہ کو گہرائی میں دیکھا جائے تویہ کبھی بھی ایشو نہیں رہا ۔صدر ایوب خان کے دورحکومت میں بریگیڈئیر اکبر‘بریگیڈئیر جیلانی ‘وزیر اعظم بھٹو کے زمانے میں آئی ایس آئی کو اَپ گریڈ کیا گیا اور پہلی مربتہ میجر جنرل غلام جیلانی اور پھر لیفٹیننٹ جنرل حمید گل ‘لیفٹیننٹ جنرل اختر عبدالرحمن ‘لیفٹیننٹ جنرل شمس الرحمن کلو‘لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی‘لیفٹیننٹ جنرل رانا نسیم ‘لیفٹیننٹ جنرل ناصر‘لیفٹیننٹ جنرل ضیا‘لیفٹیننٹ جنرل محمود احمد ‘لیفٹیننٹ جنرل احسان الحق‘ لیفٹیننٹ جنرل پرویز کیانی ‘لیفٹیننٹ جنرل ندیم تاج‘لیفٹیننٹ جنرل ہارون پاشا‘لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام‘ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر‘لیفٹیننٹ جنرل اشفاق مختار‘لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید تک ملک کے پریمیئر انٹیلی جنس ادارے کی وسیع تاریخ موجود ہے لیکن حکومت نے اپنی میڈیا ٹیم کے ذریعے تنازع اور اپنی ناراضی کی خبر افشا کراکے نئے ڈائریکٹر جنرل کی تقرری کو عوامی سطح پر بلاوجہ موضوع بحث بنایا اور سول ملٹری ہم آہنگی کے حوالے سے شبہات کو ہوا دی۔ بہرحال تازہ ترین خبر یہ ہے کہ مذکورہ نوٹیفکیشن جاری ہو گیا ہے۔
وزیراعظم اگرچہ خود ہر شعبہ کو بخوبی جاننے کے دعوے دار ہیں لیکن ان کے بیانات نے پاکستان کے ہر طبقے کو مایوس کیا ہے۔ گزشتہ تین سال میں وزیراعظم نے خارجہ پالیسی‘سفارتی معاملات‘سی پیک اور دیگر ایشوز پر جو بیانات دیے ان سے مقتدرحلقوں کو متفکر ہونا پڑا۔ایسے میں مقتدر حلقوں نے ہی حالات کو کنٹرول میں رکھا ہے۔ وزیر اعظم کے غیر سیاسی عمل کا مظاہرہ افغانستان سے امریکا کی بے دخلی کے بعد دیکھنے میں آیا جس کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے تھے۔اس غیر سیاسی عمل کا بھی مقتدرحلقوں نے ازالہ کروایا ۔اس رویے کی وجہ سے امریکا نے پاکستان کے خلاف سینیٹ میں قرارداد کے ذریعے اپنے مستقبل کے ارادوں کا اظہارکردیا ہے ۔یہ ایسا نازک وقت ہے کہ حکومت کو پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو اعتماد میں لیتے ہوئے متفقہ پالیسی وضع کرنی چاہیے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں