"KDC" (space) message & send to 7575

انتظامی و حکومتی بحران

معاشی بحرا ن کی موجودہ صورتحال میں وزیر اعظم کا دورہ سعودی عرب اس لحاظ سے فائدہ مند ثابت ہوا ہے کہ برادر مسلم ملک سے تقریباً ساڑھے چار ارب ڈالر کی مدد ملی ہے ‘جس میں قرضہ اور مؤخر ادائیگیوں پر پاکستان کے لیے تیل کی سہولت بھی شامل ہے ۔فی الحال اس سے پاکستان کے تیزی سے کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر کی صورت حال میں استحکام کی امید ہے۔ اس کے کچھ اثرات فوری طور پر ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں اور ڈالر جو 175 روپے تک پہنچ چکا تھا اس کی گراوٹ شروع ہوئی اور تاد م تحریر ایک ڈالر 170 روپے پر آ چکا ہے۔ امکان ہے کہ ڈالر اب اسی سطح پر برقرار رہے گا۔ قومی معیشت کے لیے یہ ایک بڑی پیش رفت ہے‘ تاہم ہمیں یہی سمجھنا چاہیے کہ یہ عارضی ہے کیونکہ سٹیٹ بینک میں سعودی حکومت کے منتقل کئے گئے ڈالرز نے واپس بھی جانا ہے ؛چنانچہ ان ذخائر کی واپسی معیشت کے لیے جھٹکا ثابت ہوسکتی ہے اس لیے سعودی عرب کی اس بڑی پیش کش کے شارٹ ٹرم فائدے تو ہیں مگر لانگ ٹرم فائدہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہمارے معاشی ذمہ داران محتاط فیصلے کریں اور اس وقتی راحت کو عارضی سمجھتے ہوئے معیشت کی بہتری کے لیے درست اقدامات کریں‘لیکن سٹیٹ بینک کے گورنرکی معاشی اور زرعی پالیسی سے پاکستان کے عوام کو فائدہ پہنچتا نظر نہیں آ رہا اور اُن کے سابق تجربات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان اُن کی پالیسیوں کو اپنا تے ہوئے مزید معاشی کسمپرسی کی طرف جائے گا ۔اُن کا تجربہ مصر میں ناکام ہوگیا تھا مگر وہ مصری تجربہ پاکستان میں دہرانے کی راہ پر گامزن ہیں ۔اس دوران مشیر خزانہ شوکت ترین دعویٰ کررہے ہیں کہ پاکستان آئی ایم ایف سے معاہدے کے قریب پہنچ چکا ہے جس کے نتیجہ میں اسے قرضہ کی ایک ارب ڈالر کی قسط ملے گی‘ لیکن مستقبل واقعی بے یقینی کا شکار نظر آتا ہے۔ واشنگٹن سے آنے والی خبریں بھی نوشتہ دیوار کی طرح سامنے آرہی ہیں اور امکان ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے ملنے والی رقم سخت ترین شرائط کے ساتھ ہو گی‘ جس سے عوام کو بڑے پیمانے پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس وقت حکمران دعویٰ کررہے ہیں کہ ملک میں مہنگائی عالمی سطح پر اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہے تاہم ان کا یہ دعویٰ زمینی حقائق کے مطابق نہیں ہے۔
سربراہ حکومت اور ان کے بعض وزرا میں پالیسی کا تضاد محسوس ہوتا ہے ۔ نان ایشو کو ہوا دے کر عوام میں اضطراب کی لہر پیدا کررکھی ہے جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے درست انداز اختیار نہیں کیا جا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان سے بلاوجہ محاذ آرائی کی فضا پیدا ہوچکی ہے۔لوکل گورنمنٹ کے تحت جو انتخابات ہونے جارہے ہیں ان میں رخنہ پیدا کیا جارہا ہے۔پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019میں مزید ترامیم اورقانون سازی کا مرحلہ باقی ہے جبکہ آئندہ انتخابات کے لیے جامع اور مؤثر انتخابی اصلاحات کا بل ایسے انداز میں پیش کیا گیا کہ وہ تنازع کا شکار ہوچکا ہے ۔دوسری جانب حکومت کے بعض ارکان الیکشن کمیشن کے نوٹس کے احکامات کو نظر انداز کرکے الیکشن کمیشن کی رِٹ کو چیلنج کررہے ہیں جس کی وجہ سے حکومت پاکستان کی ساکھ بھی مجروح ہورہی ہے اور اسی آڑ میں فارن فنڈنگ کیس کے التوا سے عوام بھی الیکشن کمیشن پر انگلی اُٹھارہے ہیں ۔
ان دنوں ایک مسئلہ کالعدم تحریک کے احتجاج کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔ اس معاملہ میں سینیٹر فیصل واوڈا نے برملا کہا ہے کہ کالعدم تحریک کے ساتھ معاہدہ کا وزیرِ اعظم کو علم ہی نہیں تھاجبکہ وزیرِ داخلہ کا مؤقف ہے کہ معاہدے پر دستخط سے پہلے وزیرِ اعظم کی منظور ی انہوں نے حاصل کرلی تھی اور وزیرِ اعظم معاہدے کے متن سے بخوبی علم میں رہے۔ اب اگر فیصل واوڈا کا دعویٰ ہے کہ معاہدے کی شقوں سے وزیرِ اعظم کو اندھیرے میں رکھا گیا تھا تو وزیرِ اعظم آفس سے وضاحت آنی چاہیے۔ وزیرِ داخلہ کے بیانات تو سیاسی نوعیت کے ہوتے ہیں اور وہ اپنے وزیرِ اعظم کی پیروی کرتے ہوئے یوٹرن لینے کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں لیکن ان متضاد بیانات سے وزیرِ اعظم آفس کو ریلیف نہیں مل رہا ۔ اس دوران اسلام آبا د اور راولپنڈی کو جزوی طور پر لاک ڈائون کیا گیا ہے جبکہ یہ اطلاعات گردش کررہی ہیں کہ پاکستان میں مقیم سفارتی نمائندے اپنے اپنے ممالک میں پاکستان میں کشیدگی کے پیغامات بھیج رہے ہیں۔اس صورتحال کو رواں سال اپریل کے آخر میں یورپی پارلیمنٹ میں پاکستان کے خلاف منظور کی گئی اس قرار داد کے تناظر میں لینا چاہیے جس میں پاکستان کے لیے جی ایس پی پلس کا درجہ واپس لینے کے علاوہ پابندیوں کی سفارش کی گئی تھی ۔یہ قرارداد کالعدم تحریک کے فرانس کے خلاف پُرتشدد مظاہروں کے ردِعمل میں ہی زیرِ بحث آئی تھی ۔ اب اگر دوبارہ صورتحال ویسی بنتی ہے تو اس کے دوررس اثرات کو بھی مد نظر رکھنا ہو گا۔
اس دوران ملک میں طرزِ حکمرانی کا بحران اگر سب سے زیادہ کہیں نظر آرہا ہے تو وہ پنجاب ہے جہاں قومی اسمبلی کی 142نشستی ںہیں۔ وزیرِ اعلیٰ بزدار کے دورِ حکومت میں جس طرح کی بدانتظامی اور انتظامی آرڈر و طرز حکمرانی کا انحطاط دیکھنے کو ملا ہے اس کی نظیر پنجاب کی تاریخ میں نہیں ملتی‘ لیکن وزیرِ اعظم کو اس کا ادراک ہی نہیں ہورہا۔ ان کے معاشی ماہرین کی وجہ سے پاکستان کی معیشت دیوالیہ پن کی طرف جاری ہے اور انتظامی ماہرین کی وجہ سے ملک کا انتظامی دیوالیہ پٹ چکا ہے۔ معاشی صورت حال اور امن و امان کی افراتفری مستقبل قریب میں بھی ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔
پاکستان کا موجودہ سیاسی نظام 1985سے بحران کا شکار چلا آرہا ہے۔ اس دوران مختلف ادوار میں حکمران جماعتیں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی ‘ پاکستان مسلم لیگ (ن) اورپاکستان تحریکِ انصاف شامل ہیں ‘اپنے منشور پر عمل کرانے میں کامیاب نہیں رہیں ۔موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ ملک میں بلدیاتی نظام‘ جسے آئین کے آرٹیکل 140(A)اور132کے تحت تحفظ حاصل ہے‘ کی خلاف ورزی 2009ء سے کی جاری ہے ۔جہاں تک موجودہ سسٹم کے تحت پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کا تعلق ہے وہاں مفادات کی گروہ بندیاں دیکھنے میں آتی ہیں اور عوام کی حقیقی نمائندگی دیکھنے میں نہیں آرہی۔ ملک کا موجودہ سسٹم برطانوی ایکٹ 1935ء کا چربہ ہے جس کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ مقابلتاً زیادہ ووٹ لینے والا‘ بے شک وہ اکثریت کا ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہا پھر بھی منتخب قرار دیا جاتا ہے ۔اس طرح پانچ سے دس کروڑ روپے خرچ کرکے کوئی بھی مختلف حربوں سے ووٹ حاصل کرکے پارلیمنٹ میں پہنچ جاتا ہے ۔موجودہ حکومت نے انتخابی اصلاحات کا جو بل قومی اسمبلی سے عجلت میں منظور کرایا ‘اس کا مقصد مفاد پرست گروپ کو ہی ریلیف دینا لگتا ہے ۔وہ آئندہ انتخابات کو شفا ف بنانے کے لیے نہیں ہے ‘اپنے مخصوص گروہ کو پارلیمنٹ تک پہنچانا ہے۔
حاصل بحث یہ ہے کہ ملک کو صحیح سمت کی طرف لے جانے کے لیے سنجیدگی سے حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔موجودہ سنگین بحران میں حکومت کے وزرا تین حصوں میں بٹ چکے ہیں جبکہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت مشکلات میں ہیں۔پاکستان کے حقیقی عوام مکمل طورپر خاموش ہیں جو کہ بنیادی طور پر ایک خطر ناک صورت حال کی علامت ہے۔ ایسے میں دھیان خود بخود 25 جون 1977 کی طرف چلا جاتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں