"KDC" (space) message & send to 7575

کیا قومی انتخابات کا طبل بجنے والا ہے؟

قوم میں ایک اضطراب کی کیفیت تھی اور تمام مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت اور تحریک لبیک پاکستان‘ جسے حکومت نے کالعدم قرار دے رکھا تھا‘ کے مابین معاہدے سے جو امن کا راستہ تلاش کیا گیا‘ خوش آئند ہے۔ اس سے امن و امان کی ضمانت ملنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ مولانا محمد بشیر فاروقی نے اس معاہدے کے حقائق بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مذاکرات پر زور دیا تھا‘ وہ ملک میں امن چاہتے ہیں۔ بقول مولانا: یہ معاہدہ طے پانے میں آرمی چیف کا ہزار فیصد کردار ہے کیونکہ وہ دھرنے کے شرکا کے خلاف طاقت کے استعمال کے حق میں نہیں تھے۔ اس معاہدے کے لیے کوشش کرنے والوں میں مولانا محمد بشیر فاروقی سرفہرست تھے‘ جنہوں نے معاہدے سے پہلے آرمی چیف سے ملاقات کی اور انہی سے مجھے یہ پتا چلا کہ جو معاہدہ ہوا اس میں اہم کردار آرمی چیف کا ہی تھا۔ بہرحال مفتی منیب الرحمن، حاجی رفیق پردیسی اور عقیل کریم ڈھیڈی جیسی معتبر شخصیات کو ثالث بنانے کا فیصلہ صائب ہے۔ وہی اسی معاہدے کے ضامن بھی مقرر ہوئے ہیں۔ ملک کی سنگین صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک کے ممتاز صنعت کار عقیل کریم ڈھیڈی نے بھی آرمی چیف سے براہ راست رابطہ کر کے معاہدے کی راہ ہموار کی تھی۔ ان کی معاونت حاجی رفیق پردیسی نے بھی کی۔
تحریک لبیک پاکستان الیکشن کمیشن آف پاکستان کی رجسٹرڈ پارٹی ہے اور الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 204 کے تحت رجسٹرڈ ہے۔ اس پر فارن فنڈنگ کے الزامات بھی لگائے گئے مگر کالعدم قرار دینے کے باوجود الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 210 اور 212 کے تحت اس کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔ اب حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے مابین معاہدے کی روشنی میں تحریک لبیک کا سٹیٹس دوبارہ ایک جائز اور قانونی سیاسی جماعت کے طور پر بحال کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق پنجاب کے محکمہ داخلہ نے تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ ''کالعدم‘‘ کا لفظ ہٹانے کی سمری وزیر اعلیٰ پنجاب کو ارسال کی تھی‘ جسے منظور کر لیا گیا ہے۔ سمری میں کہا گیا ہے کہ ذیلی کیبنٹ کمیٹی برائے امن و امان نے تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ کالعدم کا لفظ ہٹانے کی منظوری دے دی ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اور صوبائی کابینہ سے منظوری کے بعد وفاق کو تحریک لبیک کے ساتھ کالعدم کا لفظ ہٹانے کی سفارش کی جائے گی۔ غیر سرکاری حوالوں سے معاہدے کی جو تفصیل سامنے آئی ہیں ان کے مطابق مفتی منیب الرحمن، مولانا محمد بشیر فارو قی اور حاجی رفیق پردیسی نے اس بات کی ضمانت دی ہے کہ تحریک لبیک پاکستان آئندہ کسی لانگ مارچ یا دھرنے سے گریز کرے گی‘ اور سیاسی جماعت کے طور پر سیاسی دھارے میں شریک ہوگی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر اور وفاقی وزیر مملکت علی محمد خان بھی اس معاہدے کے اہم فریقوں میں شامل ہیں۔ گویا تحریک لبیک کو بین السطور پارلیمنٹ کی بھی حمایت حاصل ہو گئی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان اعتماد بحال کرنے اور معاہدے کو یقینی بنانے کے لیے وہ حکومتی ٹیم تبدیل کر دی تھی جس کا موقف نسبتاً جارحانہ تھا۔ حکومت کے اس اقدام کو پاکستان کے باشعور عوام نے وزیر اعظم کی معاملہ فہمی‘ ملک کے مکمل مفاد میں اور بہتر حکمت عملی قرار دیا۔ تحریک لبیک کے حوالے سے جن وزرا نے وزیراعظم عمران خان کو اندھیرے میں رکھا، مثبت فضا برقرار رکھنے کے لیے وزیر اعظم کو چاہیے کہ ان وزرا کو سبکدوش کرکے پارلیمنٹ کے سنجیدہ اور مدبر رہنمائوں کو ذمہ داریاں سونپیں۔ وزیراعظم کو الیکشن کمیشن کی خود مختاری کا ضامن بن کر قوم کو اعتماد میں لینا چاہیے۔ تحریک انصاف کی کور کمیٹی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے نوٹسز پر اظہارِ تشویش کرتے ہوئے ان نوٹسز کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 204 اور الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 10 کو مدنظر نہیں رکھا۔
بہرحال 31 اکتوبر کے دانشمندانہ فیصلے سے عوام نے سکون کا سانس لیا ہے۔ اسی طرح کا ایک معاہدہ جنوری 2013ء میں ڈاکٹر طاہرالقادری اور حکومت کے مابین انتخابی اصلاحات کے حوالے سے ہوا تھا‘ تب جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مداخلت سے خونریز تصادم کا خطرہ ٹل گیا تھا۔ اُس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ بھی اسی طرح کے اشتعال انگیز بیانات دے رہے تھے جیسا کہ اس حالیہ بحران کے دوران بعض وزرا دیتے رہے ہیں۔ معاہدے کی قانونی حیثیت کا جہاں تک سوال ہے تو ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان نے ہوا میں تحلیل کر دیا تھا‘ لہٰذا ماضی کے تجربات کو نظر انداز نہ کرتے ہوئے معاہدے کے ضامنوںکو میانہ روی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ ان کے حالیہ بیانات موجودہ حالات کے تناظر میں مناسب معلوم نہیں ہوتے۔ مفتی صاحب کو یہ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ وزرا کے بیانات جھوٹے تھے، لبیک تحریک نے فرانسیسی سفیر کے بارے میں کسی قسم کا مطالبہ نہیں کیا تھا؟ کیا وہ اس سے مطمئن نہیں کہ جن وزرا نے حالات بگاڑنے کی کوشش کی اور طاقت کے استعمال کی دھمکی دی اب خود ہی منظر سے غائب ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
حکومت نے دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کالعدم تحریک لبیک کے خلاف آئینی تقاضے پورے کرتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان میں ریفرنس بھجوانے سے گریز کیا، کیونکہ ایسا ہونے سے معاملہ طول پکڑ جاتا۔ اس سے اگست 2014ء کے دھرنے بھی زیر بحث آتے اور الیکشن کمیٹی کا پاکستان میں فارن فنڈنگ کیسز بھی‘ جس سے ایسا پنڈورا باکس کھل جاتا کہ ملکی معیشت اور امن و امان کی صورت حال شدید متاثر ہوتی۔
موجودہ سیاسی تنائوکے ازالے کے لیے وزیر اعظم نے لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کروانے کا عندیہ دیا ہے۔ اس طریقے سے پارٹی کے ورکروں کو متحرک کرکے لوکل گورنمنٹ کے تحت انتخابات کروانے سے پارٹی فعال اور سرگرم ہو جائے گی۔ میئر کے انتخابات براہ راست ہونے سے اپوزیشن جماعتوں کو بھی پارٹی کی سطح پر متحرک اور جاندار ورکروں کو آگے لانے کا موقع ملے گا۔ وزیر اعظم عمران خان اب آہستہ آہستہ سیاسی بحران سے نکل رہے ہیں، قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی سوچ بھی تبدیل ہو گئی ہے لیکن مہنگائی کے سیلاب سے حکومت بند گلی میں جا کھڑی ہوئی ہے اور اس مرحلے میں بلدیاتی اداروں کے انتخابات کے حوالے سے موجودہ حکومت خطرے کی لائن پر کھڑی ہے۔ اب اگر پنجاب کے 34 اضلاع میں میئر کے براہ راست انتخابات میں حکومت اپنے مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکی تو پھر2023ء کے انتخابات میں ان کی شکست یقینی ہو گی اور تحریک انصاف کو امیدوار ملنا مشکل ہو جائیں گے۔ ایک نجی تنظیم کے الیکشن ماہرین کی ٹیم نے پورے پاکستان کے انتخابی حلقوں کا جائزہ تیار کر لیا ہے جس میں سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ یہ جائزے جب میڈیا پر آئیں گے تو سیاسی جماعتوں اور عوام کو اس کی روشنی میں پارٹی پوزیشن کا واضح پتہ چلے گا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں، نہ صرف لوکل گورنمنٹ کے انتخابات ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں بلکہ لگتا ہے کہ قومی انتخابات کا طبل بھی بجنے والا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں