"KDC" (space) message & send to 7575

ضمنی انتخاب پر الیکشن کمیشن کی رپورٹ

رواں سال فروری میں ہونے والے حلقہ این اے 75 ڈسکہ کے ضمنی انتخابات میں منظم دھاندلی کے بارے جو خدشات ظاہر کئے گئے تھے‘ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تحقیقاتی رپورٹ نے ان کی تصدیق کر دی ہے۔ بیس پولنگ سٹیشنوں کے پریذائیڈنگ آفیسرز کی پراسرار گمشدگی کے معاملے میں رپورٹ کہتی ہے کہ ان پریذائیڈنگ آفیسرز کو منصوبہ بندی سے غائب کیا گیا‘ جبکہ ایجوکیشن آفیسر‘ اسسٹنٹ کمشنر ڈسکہ اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی اُس وقت کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان اس منصوبہ بندی میں ملوث پائے گئے ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر اور ریٹرننگ آفیسر بھی دھاندلی کے ذمہ دار قرار پائے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنے دو سینئر آفیسرز کو بھی کرپٹ پریکٹس کا ذمہ دار قرار دے کر اپنی غیر جانب داری کا عملی ثبوت پیش کیا ہے؛ تاہم وزیر اعلیٰ پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری کی اس معاملے میں شمولیت سے وزیر اعلیٰ کی غیر جانب داری پر حرف آتا ہے۔ اسی طرح جب بیس پریذائیڈنگ آفیسرز کے غائب ہونے کی خبریں چیف الیکشن کمشنر کے نوٹس میں لائی گئیں اور انہوں نے چیف سیکرٹری پنجاب اور انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو ان دونوں بیوروکریٹس نے الیکشن کمیشن کو سرے سے نظر انداز کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر‘ جو آئینی اور قانونی لحاظ سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کے برابر حیثیت رکھتے ہیں‘ کی فون کال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اسی طرح ضلع گوجرانوالہ کے سینئر حکام نے بھی الیکشن کمیشن کے احکام ہوا میں اُڑا دیے۔ رپورٹ میں واضح طور پر انکشاف کیا گیا ہے کہ پولنگ عملے کو پہلے پسرور اور پھر سیالکوٹ لے جایا گیا۔ ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر پر اپنے گھر پر غیر قانونی میٹنگ منعقد کرنے کا بھی الزام ثابت ہوا ہے۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر اور ریٹرننگ آفیسرز کی نا اہلی کے باعث ڈسکہ الیکشن منظم دھاندلی کی زد میں آیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومت کی منشا کے مطابق نتائج حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت منظم دھاندلی کا منصوبہ بنایا گیا اور انتخابی عملے کو آلہ کار بنایا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ڈسکہ الیکشن میں ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز نے الیکشن عمل میں ہیرا پھیری کے لیے مختلف اجلاس میں شرکت کی جبکہ اسسٹنٹ کمشنر ہاؤس میں منعقد ہونے والے اجلاس میں وزیر اعلیٰ پنجاب کی اُس وقت کی اطلاعات کی معاون خصوصی بھی شریک تھیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز نے پریذائیڈنگ آفیسرز کو ووٹنگ کے عمل کو سست کرنے اور شہری علاقے میں ووٹنگ کی شرح 25 فیصد سے زیادہ نہ ہونے دینے کی ہدایت کی اور پریذائیڈنگ آفیسرز کو کہا گیا تھا کہ وہ ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے کام میں مداخلت نہ کریں‘ جبکہ پولیس کی مدد سے ساڑھے چار بجے پولنگ سٹیشن بند کروا دیے گئے۔ الیکشن رپورٹ کے مطابق انتخابی عملے کے ارکان اور حکومتی محکمے انتخابی عمل میں اپنے فرائض الیکشن قوانین کے مطابق ادا کرنے کے بجائے حکومتی آقائوں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنے رہے۔ پولنگ کے بعد ووٹوں سے بھرے تھیلوں کے ساتھ کئی گھنٹوں تک لا پتہ رہنے والے پریذائیڈنگ آفیسرز کے حوالے سے رپورٹ میں چشم کشا انکشاف سے واضح ہوتا ہے کہ یہ کارروائی سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ تھی جس کے تحت 17 پریذائیڈنگ آفیسرز نے ڈیوٹی دینے سے معذرت کی درخواست کی جبکہ ان سبھی درخواستوں کی لکھائی یکساں تھی‘ یعنی یہ ساری درخواستیں سیالکوٹ میں بیٹھے کسی ایک شخص نے تیار کیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن میں منظم دھاندلی کے طریقہ کار کو قوم کے سامنے رکھ دیا ہے‘ جس کے مطابق سیالکوٹ میں مقامی ایس ایچ او نے بھی الیکشن عمل میں ہونے والی جوڑ توڑ میں کردار ادا کیا۔ وہ اپنی حدود بھی تبدیل کرتے رہے۔ ایس ایچ او پولنگ سٹیشن کے اندر پولنگ سٹاف سے بھی ملے‘ جس کی انہیں اجازت نہیں تھی۔ ایس ایچ او کی سرکاری گاڑیاں بعض پریذائیڈنگ آفیسرز کو غیر متعلقہ مقامات پر لے کر گئیں مگر پولیس اہل کاروں نے غیر متعلقہ افراد کو پولنگ سٹیشن میں داخلے سے نہیں روکا بلکہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان افراد کی پریذائیڈنگ آفیسرز سے ملاقاتیں بھی کرائیں۔ الیکشن کمیشن کی رپورٹ میں کیا گیا ہے کہ پولیس اہل کاروں نے الیکشن کمیشن کے عملے کے محافظ کے بجائے اغوا کاروں کا کردار ادا کیا اور پریذائیڈنگ آفیسرزکو غیر متعلقہ افراد کے حوالے کئے رکھا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ سے یوں لگتا ہے کہ ماضی میں جتنے بھی الیکشن ہوتے رہے ان میں بھی بعض حلقوں میں منظم دھاندلی کے پس پردہ پولیس حکام اور پریذائیڈنگ آفیسرز کا عمل دخل رہا ہو گا اور پس پردہ پریذائیڈنگ آفیسرز سیاسی جماعتوں سے ملی بھگت کرتے ہوئے الیکشن کو متنازع بناتے رہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قومی تاریخ میں پہلی بار الیکشن میں منظم دھاندلی کو بے نقاب کیا اور ہر قسم کے دبائو کو مسترد کرتے ہوئے موجودہ حکومت کی مرضی کے برخلاف دھاندلی کو پوری جرأت سے بے نقاب کیا۔
قوم کو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کا ممنون ہونا چاہیے کہ قومی اسمبلی کے حلقہ 175 ڈسکہ میں اس سال فروری میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں منظم دھاندلی کی شکایات سامنے آئیں تو الیکشن کمیشن نے اس حلقہ میں از سر نو انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا اور دھاندلی کے ذمہ داروں کی حوصلہ شکنی کی۔ اس معاملے میں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو احساس دلایا کہ آئین کے آرٹیکل 218 کی روح کے مطابق انتخابات کرانے کے لیے سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کی پشت پر کھڑی ہے۔
یہ رپورٹ آنے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنی قانونی ذمہ داریوں کو بروئے کار لاتے ہوئے‘ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعات 167 اور 174 کے مطابق‘ کرپٹ پریکٹس کے الزامات کے تحت ان ملزموں کے خلاف کارروائی کرنے میں با اختیار ہے۔ اس کے تحت ان ملزموں کو تین سال کی قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری کے علاوہ پنجاب کے سابق چیف سیکرٹری اور سابق آئی جی پولیس کے خلاف بھی کارروائی کرنا ہو گی اور وزیر اعلیٰ پنجاب سے بھی جواب طلبی کرنی چاہیے کہ ان کے ڈپٹی سیکرٹری کس مجاز اتھارٹی کے حکم سے اسسٹنٹ کمشنر ہاؤس میں موجود پائے گئے۔ اطلاعات کے مطابق چیف منسٹر پنجاب کو بھی الیکشن کمیشن طلب کرنے پر مشاورت ہو رہی ہے۔
یہ چشم کشا رپورٹ آنے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان دو راہے پر کھڑا ہے۔ اب اگر نرمی اور نظر انداز کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی تو آئندہ ہونے والے انتخابات مزید انتشار‘ خلفشار‘ اور منظم دھاندلی کے شکار ہوں گے جبکہ اس رپورٹ کے آنے کے بعد الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال مزید متنازع ہو گیا ہے۔ اگر انتخابات میں بد عنوانی کے لیے انتخابی عملہ ہی کلیدی کردار ادا کرنے کا ذمہ دار ہو تو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال بے معنی‘ بے سود اور ڈیڑھ کھرب روپے کا ضیاع ثابت ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں