"KDC" (space) message & send to 7575

سیاسی بلیک ہول

گزشتہ ہفتے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرنے کے بعد مؤخر ہونا حکومت اور اتحادی جماعتوں میں اختلافِ رائے کی نشاندہی کرتا ہے۔ تحریک انصاف کے اتحادیوں کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے طریقہ کار پر تحفظات ہیں اور حکومت کو یہ خدشہ تھا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومت کے پیش کردہ بلوں کی منظوری کے لیے مطلوبہ اکثریت نہیں مل سکے گی کیونکہ اتحادی جماعتوں نے ووٹ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ مسلم لیگ (ق)‘ متحدہ قومی موومنٹ ‘ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور تحریک انصاف کے بعض ارکانِ قومی اسمبلی‘ جن کو جہانگیر ترین کا ہم خیال تصور کیا جاتا ہے ‘نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے معاملے پر الیکشن کمیشن کے اعتراضات کو مدنظر رکھتے ہوئے تحفظات کا اظہار کیا تھا ۔اطلاعات کے مطابق‘ وزیراعظم عمران خان وزیر دفاع پرویز خٹک کو بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بل کی منظوری کے لیے قائل نہ کر سکے۔ پرویز خٹک کا موقف تھا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بارے میں اتحادی جماعتیں غیرمطمئن ہیں اور حکومت کے بعض ارکانِ پارلیمنٹ نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس کے دورا ن سینیٹر اعظم سواتی کے طرزِ عمل کو بھی ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے بلاوجہ الیکشن کمیشن کے ساتھ محاذ آرائی کو ناپسند کیا تھا۔ مبینہ طور پر پرویز خٹک نے وزیراعظم کو آگاہ کیا تھا کہ اتحادی جماعتیں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بارے میں حکومتی بل پر متفق نہیں۔ حکومتی ارکان دو وفاقی وزرا اور ایک مشیر کے طرزِ عمل سے بھی نالاں تھے کیونکہ جارحانہ لفظی جنگ سے الیکشن کمیشن کی ساکھ کو نقصان پہنچانے سے ان کے ووٹرز بھی ناراض ہیں‘ لہٰذا تحریک انصاف کے ارکان بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بل کی منظوری میں حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے تھے۔ان ارکان نے قانونی ماہرین سے بھی مشورہ کیا کہ اگر حکومتی ارکان مشترکہ پارلیمانی اجلاس میں حکومتی بل کی مخالفت میں اجلاس سے غیر حاضر ہو جائیں تو ان پر آئین کا آرٹیکل 63 (1) تو لاگو نہیں ہوگا‘یا وہ فلور کراسنگ کی زد میں تو نہیں آتے؟ ان حالات میں حکومت الیکٹرانک ووٹنگ مشین بل پیش کرنے پر منقسم نظر آئی۔ حکومتی اتحادیوں نے اپنے مفادات کے پیش نظر حکومتی بل کی منظوری پر ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا اور وزیراعظم کو اس وقت صدمہ پہنچا جب اُن کو بریف کیا گیا کہ حکومتی اتحادیوں کے اپوزیشن کے ساتھ بیک ڈور رابطے جاری ہیں جن میں حکومت کے اتحادیوں نے اپوزیشن کو تعاون کی یقین دہانی کروائی تھی‘ لہٰذا حکومت کو مشترکہ اجلاس میں قانون سازی کے لیے عددی برتری پوری نہ ہونے پر اجلاس موخر کرنا پڑا۔ حکومت کو خدشہ تھا کہ وہ مشترکہ اجلاس میں قانون سازی کرنے کے لیے اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی اور سبکی اٹھانا پڑسکتی ہے۔ اب بھی اگر مشترکہ اجلاس میں حکومت کے بل کی منظوری حاصل نہیں ہوتی تو اسے حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے مترادف تصور کیا جائے گا۔
وزیراعظم کو ادراک نہیں کہ ان کی حکومت آہستہ آہستہ سیاسی بلیک ہول کی طرف بڑھ رہی ہے۔ سپریم کورٹ میں وزیراعظم کی پیشی اٹارنی جنرل پاکستان کی کوتاہی کی وجہ سے ہوئی‘ اگر اٹارنی جنرل سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں وزیراعظم کو بروقت بریف کر دیتے تو شاید وزیراعظم کو سپریم کورٹ میں بلائے جانے کی نوبت نہ آتی۔2014 ء میں پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملے کا سانحہ سقوطِ مشرقی پاکستان کے دن پیش آیا تھا‘ اُس وقت خیبر پختونخوا میں پرویز خٹک وزیراعلیٰ تھے ‘ جونہی یہ واقعہ پیش آیا تو وفاقی حکومت کے فیصلے سے پہلے ہی آپریشن شروع کرتے ہوئے نیشنل ایکشن پلان کے تحت کارروائی شروع کر دی گئی۔جہاں تک حکومت کے سیاسی معاملات کا ذکر ہے تو حکمران الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اہم فیصلوں کی زد میں آنے والے ہیں۔ ڈسکہ الیکشن رپورٹ کے گہرے اثرات حکومت پنجاب پر بھی پڑسکتے ہیں اور صوبائی حکومت کے بعض بیورو کریٹس الیکشن قوانین کی زد میں آ سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان وزیراعلیٰ پنجاب کے سابق پرنسپل سیکرٹری کو بھی طلب کرسکتا ہے۔ بعض وزرا کے ریمارکس سے لگتا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن میں اس معاملے کو غیر سنجیدگی سے لے رہے ہیں‘ وزیراعظم بھی اس اہم آئینی ‘ قانونی اور حساس نوعیت کے کیس کو اہمیت نہیں دے رہے ۔اسی طرح فیصل واوڈا بھی غیر سنجیدگی کے طرزِ عمل سے اپنے لیے مشکلات بڑھا رہے ہیں ۔ حساس نوعیت کا فارن فنڈنگ کیس بھی الیکشن کمیشن میں سات سال سے سماعت کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ اب بعض اطلاعات کے مطابق الیکشن کمیشن الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 210‘ 213 اور 215 کو مدنظر رکھتے ہوئے اس اہم کیس کا فیصلہ کرے گا۔ اسی طرح الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنی رٹ کو مضبوط و مستحکم بنانے کیلئے آئین کے آرٹیکل 218‘ 219‘ 63اور 62 کے ساتھ ساتھ آئین کے آرٹیکل چار‘ پانچ کو بھی بروئے کارلانے کی پوزیشن میں ہے۔
وزیراعظم کے قانونی ماہرین نے ان کی توجہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق 231 اور 232 کی طرف مبذول نہیں کرائی جس کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان کو وسیع تر اختیارات دیے گئے ہیں۔ جس کے تحت الیکشن کمیشن سزا دینے اور نااہل قرار دینے کے اختیارات بھی رکھتا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جولائی 2018ء کے انتخابات میں آر ٹی ایس سسٹم کے فلاپ ہونے کی وجوہات کے بارے میں انکوائری کروانے کے لیے کیبنٹ سیکرٹری اور ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کے پاس ریفرنس دائر کر رکھے ہیں مگر حکومتی حلقے پراسرار خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔الیکشن کمیشن آف پاکستان آر ٹی ایس کے فلاپ ہونے پر اپوزیشن کی تنقید کی ضد میں ہے‘ اب وقت آن پہنچا ہے کہ الیکشن کمیشن‘کیبنٹ ڈویژن اور ایف آئی اے کے حکام سے انکوائری کروانے کے عمل ک لیے آگے بڑھیں۔
دوسری جانب سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے نئے صدر احسن بھون آئین کے آرٹیکل 62 (1) الف کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان میں نظرِثانی کی درخواست دائر کر نے جارہے ہیں کیونکہ سپریم کورٹ نے شمعونہ عنبر ین قیصرانی‘ سابق ممبر صوبائی اسمبلی حلقہ 240 ملتان کی نااہلی کے فیصلہ پر آئین کے آرٹیکل 62 (1) الف پر فیصلہ دیا تھا کہ کاغذاتِ نامزدگی میں حقائق کو پوشیدہ رکھنے کے بارے میں کئی زاویے دیکھنا ہوتے ہیں۔ فیصلے میں قرار دیا گیا تھا کہ امیدوار کی جانب سے پیش کی گئی وضاحت فیصلہ کن عنصر ہے کہ آیاکسی اثاثے کا انکشاف نہ کرنا مستقل نااہلی کے لیے کافی ہے یا نہیں اور یہ دیکھنا بھی اہم ہے کہ عدم انکشاف میں بے ایمانی کا عنصر شامل ہے یا نہیں۔ جناب جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کی جانب سے دیے گئے فیصلے میں قرار دیا گیا تھا کہ یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ کاغذات نامزدگی کے فارم میں حقائق پوشیدہ رکھنے کی بنا پر غلط ڈیکلریشن قانون ساز یا انتخابی امیدوار کو مستقل طور پر نااہل کرنے کے لیے کافی نہیں ہوگا‘ حقائق کی پوشیدگی یا غلط ڈیکلریشن کے پیچھے مقصد اور ارادے کو دیکھنا ضروری ہے۔ اسی فیصلہ کو مدنظر رکھتے ہوئے نواز شریف اور جہانگیر ترین کی نااہلی کے بارے میں نظرثانی کی درخواست دائر ہونے کے امکانات ہیں۔ ان حالات میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے سے کئی اہم شخصیات کو سیاسی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں جس سے ملک کا انتخابی منظر نامہ تبدیل ہو سکتا ہے۔ جہانگیر ترین کو ریلیف ملنے سے تحریک انصاف میں متبادل قیادت کے روشن امکانات سامنے آ ئیں گے۔ ان کا گروپ متحرک مزید فعال ہو جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں