"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کمیشن آئین کے مطابق فیصلہ کرنے کا مجاز

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومت نے جس طرح انتخابی اصلاحات کے لیے بل منظور کروایا وہ بادی النظر میں آئین کے آرٹیکل 25 سے مطابقت نہیں رکھتا‘ جس میں سب کے حقوق کے بارے میں واضح طور پر گائیڈ لائن دی گئی ہے۔ انتخابی عمل میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور سمندر پار پاکستانیوں کے لیے انٹرنیٹ ووٹ دینے کے بارے میں ترامیم لانے سے پیشتر اپوزیشن اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مشاورت اور رائے شامل ہونی چاہیے تھی۔ اتحادی ارکان کو زبردستی ووٹنگ کے لیے لانے کی خبریں بھی پارلیمنٹ کی راہداریوں میں گردش کرتی رہی ہیں۔ بہرحال الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 103 اور 94 میں ترامیم سے الیکشن کا نظام الیکشن سے پہلے متنازع ہو گیا ہے۔ یہ سنگین نوعیت کا معاملہ اب ممکنہ طور پر اپوزیشن کی طرف سے سپریم کورٹ میں جائے گا۔ اپوزیشن نے الیکشن کمیشن کو فریق بنایا تو غالب امکان ہے کہ کمیشن وہی موقف اختیار کرے گا جو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے سامنے اپناتے ہوئے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے سسٹم پر اعتراضات داخل کراتے وقت کیا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 103 اور 94 کے مطابق ایک جامع رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی تھی جو اٹھارہ ماہ سے زائد عرصے تک سپیکر آفس کی فائلوں میں دبی رہی اور اس پر کوئی غور نہیں کیا گیا۔ الیکشن کمیشن کے قریبی ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے دونوں ایوانوں کو خطوط بھی بھجوائے تھے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بارے میں جو تجرباتی رپورٹ تیار کی گئی اس میں الیکٹرانک ووٹنگ کے قابل استعمال نہ ہونے کے بارے الیکشن کمیشن نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں رازداری کا فقدان ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بارے میں الیکشن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی لکھا تھا کہ اس پر 150 ارب روپے کے اخراجات ہوں گے‘ ایک مشین کا خرچہ دو لاکھ روپے کے قریب ہے اور چار لاکھ آئی ٹی ماہرین کی ضرورت بھی پڑے گی اور 2023ء کے انتخابات کے لیے آٹھ لاکھ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں درکار ہوں گی۔ اگر الیکشن میں دھاندلی کرانے کے لیے ای وی ایم کی چپ گم کر دی جائے تو اس سے نتائج تبدیل ہونے کا بھی خدشہ ہے جبکہ مشینوں کو متعلقہ حلقوں تک پہنچانے کے لیے ہیلی کاپٹروں کی ضرورت پیش آئے گی۔ مشین پر غلط ووٹ کاسٹ ہونے پر دوبارہ ووٹ کاسٹ کرنے کی سہولت بھی نہیں ملے گی۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو حفاظتی حصار میں رکھنے کا بھی بہت بڑا چیلنج ہے۔ قوم کو اور پارلیمنٹ کو یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین حکومت پاکستان کے کسی ادارے نے نہیں بنائی ہے بلکہ ایک نجی کمپنی سے بنوائی گئی ہے جو دیگر بین الاقوامی کمپنیوں سے انتہائی کم محفوظ ہے اور جدید ٹیکنالوجی سے محروم ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنا موقف قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کو سیکرٹری الیکشن کمیشن کے ذریعے پہنچا دیا ہے۔ سیکرٹری نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال یقینی نہیں‘ اگرچہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا بل تو پاس ہو گیا ہے لیکن الیکشن کمیشن آئندہ انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے مطابق کرانے کا پابند نہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال آئندہ انتخابات میں کرانے کا فیصلہ الیکشن کمیشن آئین اور قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے کرے گا۔ الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 219 کے تحت عام انتخابات کرانے کا ذمہ دار ہے اور انتخابی عمل کو آزادانہ‘ غیر جانبدارانہ اور شفاف بنانا الیکشن کمیشن آف پاکستان کی آئین کے آرٹیکل 218 کے تحت آئینی اور قانونی ذمہ داری ہے۔
آئین کے مطابق پارلیمنٹ کو قانون سازی کے اختیارات حاصل ہیں لیکن کچھ پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں‘ مثلاً پارلیمنٹ کوئی ایسی قانون سازی نہیں کر سکتی جس سے پارلیمانی جمہوریت کی دستوری اساس کو بدلنا مقصود ہو‘ یعنی پارلیمنٹ موجودہ پارلیمانی نظام کو ختم کرکے صدارتی نظام کرنے کا فیصلہ نہیں کر سکتی۔ پارلیمانی نظامِ جمہوریت کی اساس کے منافی کسی قانون کو جو پارلیمنٹ نے بنایا ہو اعلیٰ عدالت منسوخ کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ ایک اہم پہلو انتخابی عمل کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے آئینی حدودِ کار سے متعلق ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے بارے میں آئین میں ایک باب شامل ہے جس کے آرٹیکل 222 ( F) میں واضح طور پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کا نام لے کر قرار دیا گیا ہے کہ کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جائے گا جس کے تحت چیف الیکشن کمشنر یا الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات میں سے کسی اختیار کو کم کرنا یا سلب کرنا مقصود ہو لیکن موجودہ حکومت نے انتخابی فہرستوں کی تیاری کی دفعات 23 سے لے کر 44 تک حذف کرکے یہ اختیارات الیکشن کمیشن سے لے کر نادرا کے سپرد کر دیے ہیں جو آئین کے آرٹیکل 218 سے انحراف ہے۔ حکومت نے پارلیمنٹ میں قانون سازی کرتے وقت اس اہم شق کو مدنظر نہیں رکھا جس کے بارے الیکشن کمیشن نے قانون سازی کے ڈرافٹ کے موقع پر وفاقی حکومت کو آگاہ بھی کر دیا تھا۔ اسی طرح آبادی کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیوں کی تشکیل کے لیے جب دو صدارتی آرڈیننس جاری کئے گئے اُس وقت بھی الیکشن کمیشن نے مضبوط موقف اختیار کیا کہ آئین کے ذریعے دیے گئے اختیارات صدارتی آرڈیننس کے ذریعے واپس نہیں لیے جا سکتے اور اس معاملے میں الیکشن کمیشن کو کامیابی حاصل ہوئی اور صدارتی آرڈیننس واپس لیے گئے۔ صدارتی آرڈیننس کے مطابق حکومت نئی حلقہ بندیاں آبادی کی بنیاد کے بجائے انتخابی فہرست کی بنیاد پر کرانے کا عزم رکھتی تھی جو آئین کے آرٹیکل 51 کے منافی تھا۔ پارلیمنٹ سے منظور ہونے والا الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا بل آئین کے آرٹیکل 218 اور 222 کے خلاف ہے‘ الیکشن کمیشن آف پاکستان اگر چاہے تو اسی آئینی آرٹیکل کے تحت پارلیمنٹ کی مذکورہ قانون سازی کو نظرانداز کر سکتا ہے۔
الیکشن کمیشن کو آئین کے آرٹیکل 222 نے باوقار اور خودمختار بنایا ہے اور کوئی قانون‘ جو پارلیمنٹ منظور کرتی ہے‘ اگر وہ آئین کے آرٹیکل218‘ 222 اور 226 سے متصادم ہے تو اس کو نظرانداز کرنے کا استحقاق الیکشن کمیشن آف پاکستان کو حاصل ہے‘ لہٰذا حکومتی وزرا کو الیکشن کمیشن کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے آئین کے مذکورہ آرٹیکلز کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ حکومت دسمبر 2022ء تک مردم شماری کرانے کا فیصلہ بھی کر چکی ہے‘ لیکن ضروری ہے کہ یہ مردم شماری شفاف اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے کروائی جائے‘ جس کے مطابق کراچی‘ حیدرآباد اور دیگر شہروں میں حقیقی بنیادوں پر مردم شماری کا انعقاد ہو۔ کراچی اور حیدرآباد میں ازسرِ نو مردم شماری کے نتیجے میں قومی اسمبلی کی مزید دس اور صوبائی اسمبلی کی 25 نشستیں ان علاقوں کے لیے مختص ہو سکتی ہیں اور 2023ء کے انتخابات کے نتیجے میں صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی اقتدار سے محروم ہو سکتی ہے۔ میرے خیال میں الیکشن کمیشن آئندہ چند ہفتوں میں وہ تمام اہم فیصلے کرنے جا رہا ہے جو عرصہ دراز سے الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہیں۔ جن وفاقی وزرا نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو نشانہ بنایا‘ ہو سکتا ہے وہ جھنڈے والی گاڑی میں الیکشن کمیشن آئیں اور الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 204 کے تحت اُن کو بغیر جھنڈے کے گاڑی میں گھر بھیج دے۔ علاوہ ازیں ڈسکہ الیکشن رپورٹ کے مطابق کرپٹ پریکٹسز کے ملزموں کو الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 167‘ 172 اور 174 کے تحت سزا دیے جانے کا امکان بھی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں