"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابات 2023: تیاری کے مراحل

الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 103 میں ترمیم کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے لاء آف لینڈ کی روح کے مطابق الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی خریداری کے لیے حکومت پاکستان سے فنڈز کا مطالبہ کرنے کے لیے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے وزارت خزانہ کو ریفرنس بھجوادیا ہے۔ آئندہ انتخابات میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے الیکشن کمیشن نے وزارتِ پارلیمانی امور سے معاملہ متعلقہ حکام تک پہنچانے کے لیے رولز آف بزنس کے تحت ریفرنس بھجوایا ہے جبکہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی سٹوریج کے لیے حکومت پاکستان کو کوہسار سیکرٹریٹ بلاک میں دو مخصوص فلور مختص کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ممکنہ طور پر آئندہ عام انتخابات اکتوبر 2023ء میں ہوں گے اور الیکشن کمیشن کو ان 23 مہینوں میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے متعلق اہم اقدامات کرنا ہیں۔ الیکشن کمیشن کو آٹھ لاکھ سے زائد الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی سٹوریج کے لیے ویئر ہائوس درکار ہوگا جبکہ ڈیٹا سنٹر کنٹرول کے لیے جدید لیب‘ پرنٹنگ اور ٹریننگ سنٹرز کے لیے بھی عمارتیں درکار ہوں گی۔ الیکشن کمیشن نے اپنے ریفرنس میں کہا ہے کہ ضروری ڈھانچے کی تعمیر کے لیے فنڈز میں تاخیر سے پہلے ہی وقت کا ضیاع ہو چکا ہے لہٰذا پلاننگ کمیشن اسلام آباد کے سیکٹر ایچ الیون میں عمارت کی تعمیر کے لیے فوری فنڈز جاری کرے اور وزارتِ ہاؤسنگ اینڈ ورکس عمارت کی تعمیر کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 103 اور وزارتِ پارلیمانی امور کے مطابق آئندہ عام انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن آٹھ لاکھ سے زائد الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں خریدے گا‘ جبکہ الیکشن کمیشن کو سٹوریج کے لیے تین ایکڑ زمین درکار ہوگی۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قانون سازی کے حوالے سے بعض ایسی ترامیم کی گئی ہیں جو آئین کے آرٹیکلز سے متصادم ہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے حوالے سے قانون سازی کرتے وقت حکومت نے الیکشن کمیشن کے 34کے لگ بھگ اعتراضات کو یکسر نظرانداز کر دیا اور اپوزیشن کے نکاتِ اعتراض کو بھی مسترد کر دیا گیا۔ اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے فلور پر قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس قانون سازی کو مسترد کرتی ہے اور اس کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کرے گی لیکن آج دو ہفتے سے زائد کا وقت گزر چکا ہے‘ ابھی تک اپوزیشن نے عدالت سے رجوع نہیں کیا ۔ اس کے علاوہ اپوزیشن کے 20 کے قریب ارکانِ پارلیمنٹ‘ جو مبینہ طور پر ذاتی مفادات کے تحت 17 نومبر کے اہم اجلاس سے پراسرار طور پر غائب ہو گئے تھے‘ کے خلاف تادیبی کارروائی کرتے ہوئے ان کو نوٹس بھی جاری نہیں کیے گئے اور جو چند ارکان بیرون ملک تھے وہ مشترکہ اجلاس کی قانون سازی کے بعد فوری طور پر پاکستان پہنچ کر ٹیلی وژن کے ٹاک شوز کی زینت بنے ہوئے ہیں۔
گزشتہ تین سال سے ملک کے عوام مہنگائی کی دلدل میں پھنس چکے ہیں۔ حکومت کے معاشی فیصلوں نے ملک کو دیوالیہ پن کی طرف دھکیل دیا ہے‘ معیشت کا توازن بگڑ چکا ہے جبکہ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی خالص آمدنی رواں برس صرف قرضوں کی ادائیگی میں استعمال ہوگی۔ ملک کے ممتاز ماہر اقتصادی امور ڈاکٹر اشفاق کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران دفاعی ضروریات سمیت تمام اخراجات قرضوں کی رقم سے پورے کیے جائیں گے۔ رواں مالی سال کے حوالے سے ڈاکٹر اشفاق حسن خان خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں کہ موجودہ مالی صورتِ حال میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی اور شرح سود میں اضافے سے خالص آمدنی100 فیصد قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہو جائے گی اور باقی تمام اخراجات بشمول دفاع اور سول حکومت چلانے کے اخراجات قرضوں کی رقم سے پورے کرنا ہوں گے۔ کیا اس سے ایسا نہیں لگتا کہ ملک دیوالیہ پن کی طرف بڑھ رہا ہے ؟ لیکن وزیراعظم الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں اور سمندر پار پاکستانیوں کے لیے انٹرنیٹ ووٹنگ کو اَنا کا مسئلہ بنائے ہوئے ہیں‘ جس پر الیکشن کمیشن کے تخمینے کے مطابق پونے دو کھرب روپے کے اخراجات ہوں گے جبکہ ترقی یافتہ ممالک مثلاً امریکہ‘ فرانس‘ جرمنی‘ ناروے‘ بلجیم اور برازیل نے اس مشینی نظام کو متروک قرار دے رکھا ہے۔
کہا یہ جاتا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اسرائیل میں تیار ہوتی ہیں‘ اور امریکہ انٹرنیٹ ووٹنگ اور بعض ریاستوں کے استعمال کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشین اسرائیل ہی سے خریدتا ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ اس وقت اسرائیل نے اپنی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے لیے گاہک تلاش کرنے کے سلسلے میں مختلف ناموں سے دبئی میں اپنی کمپنیاں قائم کر رکھی ہیں‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل الیکٹرانک مشینیں تیار کرنے والا واحد ملک نہیں ہے۔ کئی دوسرے ممالک بھی یہ مشینیں تیار کرتے ہیں۔
اپوزیشن نے بے بسی یاپارٹی مفادات کی وجہ سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے مجوزہ ایکٹ کی منظوری پر سپریم کورٹ میں جانے سے گریز کیا مگر اسلام آباد کے قانون دان سلیم سیف اللہ خان نے اگلے روز اس مجوزہ بل کے خلاف سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 183 (3) کے تحت اپیل داخل کر دی۔ ان کی اپیل کا متن مجھے پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے‘ اور مجھے حیرانی ہوئی کہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 103کی شق میں جو ترمیم کی گئی ہے وہ ترمیمی بل کی روح سے مطابقت نہیں رکھتی۔
نادرا کا شمار ان قومی اداروں میں ہوتا ہے‘ جو ملک کے لیے اہم خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ وہ اپنی انتظامی کمزوریوں کے باوجود بہترین جدید ٹیکنالوجی کی طرف جا رہا ہے۔ نادرا قومی شناختی کارڈ کے نمبر کو چار ہندسوں تک محدود کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ نادرا کے چیئرمین کوشش کر رہے ہیں کہ قومی شناختی کارڈ نمبر 13 کے بجائے چار ہندسوں تک لایا جائے اور اس بات کی بھی کوشش کی جا رہی ہے کہ شہریوں کو یہ معلوم کرنے کا حق دیا جائے کہ ان کا ڈیٹا کس نے چیک کیا ہے۔ ایف بی آر یا کوئی بینک اپنی ضرورت کے تحت اگر ڈیٹا چیک کرتا ہے تو وہ بھی معلوم ہو جایا کرے گا۔ شہریوں سے متعلق نادرا کا ڈیٹا کسی ادارے کو اپنے پاس محفوظ کرنے یا منی ڈیٹا بینک بنانے کی قطعی اجازت نہیں ہے۔ اس جدید ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے نادرا کی کوشش قابلِ ستائش ہو گی لیکن اس کے ساتھ ساتھ نادرا کو اپنے ان افسران کی کارکردگی پر بھی نگاہ رکھنا ہو گی اور صوبہ سندھ‘ بلوچستان اور خیر پختونخوا میں جعلی شناختی کارڈوں کے اجرا کی روک تھام کے لیے قومی ایجنسیوں کی خدمات حاصل کرنا ہوں گی کیونکہ ان صوبوں میں با اثر سیاسی رہنما اپنی اپنی پارٹی کے ووٹ بینک میں اضافے کے لیے جعلی شناختی کارڈ بنوانے کی خفیہ حکمت عملی کے تحت نادرا کے اہل کاروں کو مالی منفعت کی ترغیب دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
مشترکہ پارلیمنٹ اجلاس سے منظور کردہ بعض بل آئین کے آرٹیکلز کے برعکس ہیں لہٰذا پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کو اس قانون سازی کا پیشہ ورانہ جائزہ لیتے ہوئے اپنی قانونی مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے آئین کے آرٹیکل چارکی روح کے مطابق آگے بڑھنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں