"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کمیشن مقدمات کا جلد فیصلہ کرے

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے این اے 133 لاہور کے ضمنی انتخاب میں ووٹوں کی خرید و فروخت کی وڈیو سامنے آنے پر الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 167، 168اور 190کے تحت اس حلقے کے ضمنی انتخاب کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے وڈیو وائرل ہونے پر صوبائی الیکشن کمیشن کے حکام کو معاملے پر فوری کارروائی کا حکم دیا جس پر انسپکٹر جنرل پولیس، کمشنر لاہور ڈویژن اور ایف آئی اے کے علاوہ پیمرا کے ڈائریکٹر جنرل کو بھی انکوائری رپورٹ بھجوانے کا حکم دیا گیا اور نادرا کی ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔اس معاملے میں الیکشن کے بعد بھی الزام ثابت ہوگیا تو امیدوار کو نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔بہرکیف نادرا کی شفافیت 2013ء کے الیکشن کے دوران اور بعد میں بھی سوالیہ نشان بنی رہی ہے۔ جولائی 2018ء کے الیکشن کے لیے الیکشن کمیشن نے نادرا سے رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم (آر ٹی ایس) تیار کروایاتھا جس کے اخراجات تقریباً 18 کروڑ روپے تھے جو الیکشن کمیشن نے وزارت ِ خزانہ کے توسط سے ادا کیے تھے۔ الیکشن کمیشن کا موقف تھا کہ آر ٹی ایس کے فلاپ ہونے کا ذمہ دار نادرا تھا‘ یہ معاملہ ابھی تک الیکشن کمیشن اور کیبنٹ ڈویژن میں زیر التوا ہے۔ نادرا پاکستان کا اہم ترین اور حساس ادارہ ہے جو پاکستان کے 22 کروڑ عوام کے اہم ترین ڈیٹا کا امین ہے‘ حکومت پاکستان کو اس اہم ترین ادارے کی کارکردگی پر نظر رکھنی چاہیے۔ تاہم ووٹوں کی خرید و فروخت کے نئے سکینڈل کے بعد الیکشن کمیشن کے اس شبہے کی تائید ہوتی ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے ووٹوں کی خرید و فروخت کا بازار گرم ہو گا۔ پاکستان میں 1951ء سے جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں ان میں دھونس، دھاندلی، جھرلو اور ووٹوں کی خرید و فروخت کے الزامات ضرور لگے۔ ان کے صاف شفاف ہونے پر سوالات بھی اُٹھائے گئے۔ انتخابی بدعنوانیوں اور شکوک و شبہات کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ قومی اسمبلی کے حلقہ 133 لاہورکے ضمنی انتخابات میں دو‘ دو ہزار روپے کے عوض ووٹ خریدنے کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کا واقعہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ الیکشن کمیشن نے مذکورہ وڈیو کلپس کے فارنزک آڈٹ کا حکم بھی دیا ہے اور الیکشن کمیشن کی مشینری اس معاملے میں متحرک ہے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں جمہوریت کے نام پر ایک طرزِ حکومت تو قائم ہے مگر مغربی ممالک کی طرح جمہوری اصولوں پر پوری طرح عمل نہیں کیا جاتا۔ جمہوری قوتیں بھی بالعموم اقتدار کے لیے غیر جمہوری، غیر قانونی اور غیر اخلاقی راستے اختیار کرنے پر تیار رہتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں جو پارٹی برسرِ اقتدار آتی ہے روزِ اوّل سے اس کی مخالفت میں ملک کے سیاسی نظام کو عدل استحکام سے دوچار کرنے کی کوششیں شروع ہو جاتی ہیں۔ اس صورتحال میں حکومت گڈ گورننس یا اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہے نہ اپوزیشن جمہوری اصولوں کی پاسداری کرتی ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے انتخابی اصلاحات کی منظوری کے لیے ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن کے 20 ارکان کو ترغیب و لالچ کے ذریعے غیر حاضر کروا یا گیا اور انتخابی اصلاحات کے بل پر الیکشن کمیشن نے جن 15 کے قریب شقوں پر اعتراضات داخل کئے تھے جو آئین سے متصادم ہیں‘ان کو بھی نظرانداز کر دیا گیا۔ گمان غالب تھا کہ ایسی غیر آئینی ترامیم سپریم کورٹ میں چیلنج ہو جائیں گی۔ ایک دردمند شہری ایڈووکیٹ نے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت اپیل سپریم کورٹ میں دائر کر دی ہے‘ اگرچہ اپوزیشن کے کسی رہنما نے سپریم کورٹ سے ابھی تک رجوع نہیں کیا۔
الیکشن میں جھرلو اور ووٹوں کی خرید و فروخت کی روایت خان عبدالقیوم خان کے دورِ حکومت میں صوبہ سرحد میں شروع کی گئی اور پنجاب میں ممتاز محمد خاں دولتانہ نے اس روایت کو برقرار رکھا جبکہ صدر ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کے ارکان‘ جن کی تعداد مشرقی و مغربی پاکستان میں 80 ہزار تھی‘ کو محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے پر صدارتی انتخاب میں اپنی حمایت میں ووٹ خریدنے کے لیے فنڈز فراہم کئے۔ پنجاب کے بی ڈی ارکان کو اس مقصد کیلئے دس‘ دس ہزار روپے دیے گئے۔یہ فنڈز کنونشن مسلم لیگ کی طرف سے ادا کیے جاتے تھے۔کنونشن مسلم لیگ کے فنڈز میں ملک کے بائیس خاندانوں نے عطیات دیے تھے۔ بنیادی جمہوریت کے ارکان کی جانب سے صدارتی انتخاب میں صدرایوب خان کے حق میں ووٹوں دلوانے کی مہم کی نگرانی ڈپٹی کمشنرز آفس سے ہوتی تھی جس کی نگرانی صدر ایوب کے وزیر خارجہ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کر رہے تھے اور قوم تقسیم کرنے کی کمیٹی میں ملک محمد قاسم، ملک معراج خالد، مسعود صادق، خان عبدالوحید خان، اے کے سومار اور عبدالغفار تھے جن میں بعض مرکزی حکومت کا حصہ بھی تھے اور چند کا تعلق مغربی پاکستان کی حکومت سے تھا۔ بعد ازاں چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر صدر جنرل یحییٰ خاں نے جولائی 1969ء میں کنونشن مسلم لیگ کا چار کروڑ روپے کا اثاثہ بحق سرکار ضبط کر لیا۔ ایس ایم ظفر بھی اس معاملے کو بخوبی جانتے ہیں۔ صدر یحییٰ خاں کنونشن مسلم لیگ کے فنڈز سے اچھی طرح واقف تھے‘ جونہی اقتدار میں آئے چار کروڑ روپے کی خطیر رقم بحق سرکار ضبط کر لی۔اُس دور میں چار کروڑ کی رقم آج کے چار ارب روپے کے برابر تھی۔
الیکشن کمیشن میں تحریک انصاف فارن فنڈنگ کیس جو سات سال سے زیر سماعت ہے‘ کی سکروٹنی کمیٹی نے دشوار گزار راہوں سے گزرنے کے بعد اپنی رپورٹ جمع کروا دی ہے۔ رپورٹ رازداری کے زمرے میں آتی ہے مگر اس کا متن چند روز میں الیکشن کمیشن کے اِن کیمرا اجلاس میں کھولا جائے گا اور آئندہ کے لائحہ عمل پر الیکشن کمیشن غیر جانبداری سے ہی فیصلہ کرے گا۔ ملک کی انتظامی مشینری اور سیاسی جماعتوں کے رویوں کو مدنظر رکھیں تو قوم کو مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی نے اپنی رپورٹ مرتب کرنے میں بھی ڈھائی سال لگا دیے‘ اب نتیجہ سامنے کیا آتا ہے‘یہ الیکشن کمیشن کیلئے بھی آزمائش کی گھڑی ہے۔الیکشن 2023ء بھی روز بروز قریب آ رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کو اس دوران بلدیاتی انتخابات، انتخابی فہرستوں کی نظرثانی، مردم شماری کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلیوں کیلئے حلقہ بندی جیسے مشکل مراحل سے گزرتے ہوئے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں اور سمندر پار پاکستانیوں کیلئے ووٹ کے حق کی دشواریوں سے بھی گزرنا ہوگا۔ شفاف انتخابات کرانے کیلئے جرأت مندانہ فیصلے، بیورو کریسی کی پراسرار سرگرمیوں، نگران حکومت کے مفادات، انتخابی عملے کی چالبازیوں، الیکشن کمیشن کی اندرونی ریشہ دوانیوں اور وزڈم کے فقدان پر بھی گہری نظر رکھنا ہوگی۔ ڈسکہ الیکشن رپورٹ نے حقائق کی نقاب کشائی کر دی ہے‘ اب بیورو کریسی پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
آئندہ انتخابات کی شفافیت اور رٹ آف الیکشن کمیشن برقرار رکھنے کے لیے الیکشن کمیشن کو آئندہ چند ہفتوں میں اہم فیصلے کرنا ہوں گے۔ ان کے ہاں فیصل واوڈا، فواد چوہدری اور اعظم سواتی کے خلاف جو شکایات ہیں نیز ڈسکہ ضمنی الیکشن میں بے ضابطگی کے مرتکب افراد، پارٹی فنڈنگ کیس اور دیگر ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں کے واقعات‘ان سبھی کے فیصلے کرنا ہوں گے۔ جن ارکان قومی اسمبلی نے الیکشن ٹربیونلز کے فیصلوں کے خلاف حکم امتناعی حاصل کر رکھا ہے اس پر بھی فیصلہ کر کے الیکشن کمیشن کی رٹ کو مضبوط کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح اسلام آباد ہائی کورٹ میں خواتین کی مخصوص نشستوں کا معاملہ بھی زیرِ سماعت ہے‘ اس کا حتمی فیصلہ بھی آ جانا چاہیے۔وزیراعظم پاکستان بلدیاتی انتخابات میں اپنی پارٹی کے لیے اچھے نتائج دیکھنا چاہتے ہیں تو اپنی معاشی ٹیم کی کارکردگی کا جائزہ لیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں