"KDC" (space) message & send to 7575

آئندہ انتخابات اور شفافیت کے تقاضے

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ اور الیکشن کمیشن کے دو معزز ارکان کے مضبوط موقف اور الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 9 ‘ 232 اور آئین کے آرٹیکل 204 کا سہارا لیتے ہوئے فواد چوہدری اور اعظم سواتی کو توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کے لیے نوٹسز بھجوائے گئے تو ان وزرا کو احساس ہو گیا کہ موجودہ الیکشن کمیشن ان دونوں کے سیاسی مستقبل پر تاحیات نااہلی کی مہر لگانے کا اختیار رکھتا ہے؛ چنانچہ فواد چوہدری صاحب نے سیاسی مصلحت کے تحت معافی نامہ الیکشن کمیشن میں جمع کروا دیا مگر اس معافی نامہ کے برعکس انہوں نے کسی پراسرار حکمت عملی کے ساتھ الیکشن کمیشن کی فنڈنگ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ساتھ مشروط کر نے کی بات کہہ دی جبکہ پاکستان کے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے فواد صاحب کی منطق کو مسترد کر دیا اور وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی نے بھی بین السطور فواد چوہدری کے اس بیان سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ اس دوران اعظم سواتی نے بھی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے الیکشن کمیشن سے اپنے وکیل سید علی ظفر کی وساطت سے معافی مانگ لی۔ الیکشن کمیشن دونوں کے معافی نامے پر 22 دسمبر کو فیصلہ کرے گا اور دونوں کے معافی ناموں کا آئندہ انتخابات پر گہرا اثر پڑے گا۔ ماضی میں الیکشن کمیشن کچھ بڑی شخصیات کی معافی قبول کر کے ملک کے سیاسی نظام کو کمزور کر چکا ہے۔ مثال کے طور پر صدر ایوب خان نے شیخ مجیب الرحمن کے خلاف مقدمات واپس لے کر مشرقی پاکستان کے سقوط کے لیے راہ ہموار کردی تھی۔ اسی طرح ماضی قریب میں ملک کی ایک اہم شخصیت کا معافی نامہ قبول کر کے ملک کا سیاسی نظام ہی بدل ڈالا گیا۔ اس کے برعکس طلال چوہدری‘ نہال ہاشمی اور دانیال عزیز کے بارے میں فیصلے کرتے ہوئے عدالت کی آئینی اتھارٹی برقرار رکھی گئی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان اس وقت دو راہے پر کھڑا ہے۔ الیکشن کمیشن کے فنڈز روکنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں جو آئین کے آرٹیکل 219 کے خلاف ہے۔ حکومتِ پاکستان الیکشن کمیشن کو الیکشن کے لائحہ عمل میں کوئی حکم صادر نہیں کر سکتی کہ آئین نے الیکشن کمیشن کو مکمل تحفظ دیا ہوا ہے۔ حکومت کے ترجمانوں کو آئین کے آرٹیکل 222 کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ اس طرح ماضی کے سپریم کورٹ کے بے نظیر فیصلے موجود ہیں جن میں واضح طور پر حکم دیا گیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اتھارٹی کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ اس حوالے سے میں ماضی کا ایک اہم تاریخی فیصلہ قارئین کی نذر کر رہا ہوں۔ اپریل 1995ء میں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے اپنے سرکاری نوٹ میں اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار فخر عالم کو ہدایت دیتے ہوئے ملک میں انتخابی فہرستیں از سر نو مرتب کرنے کے لیے پروگرام جاری کر دیا اور اس وقت کے اٹارنی جنرل قاضی محمد جمیل کی سربراہی میں کمیٹی مقرر کر دی جس کے ارکان میں سیکرٹری الیکشن کمیشن محمد حسن بھٹو‘ راقم الحروف اور اٹارنی جنرل کے معاون خالد جاوید خان ایڈووکیٹ (موجودہ اٹارنی جنرل پاکستان) بھی شامل تھے‘ لیکن چیف الیکشن کمشنر سردار فخر عالم نے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے سرکاری نوٹ کو مسترد کر دیا کہ آئین کے آرٹیکل 219 کی رُو سے وزیر اعظم الیکشن کمیشن کو حکم جاری کرنے کی مجاز نہیں۔ چونکہ محترمہ بے نظیر بھٹو ملک کی ذہین ترین سیاستدان تھیں‘ چنانچہ انہوں نے قاضی محمد جمیل اور خالد جاوید خان سے مشاورت کے بعد متنازع پیرا نکال دیا۔ میری ان دونوں شخصیات سے دوستی تھی اور اکثر آئینی معاملات پر رائے کے سلسلے میں خالد جاوید خان سے ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ انہوں نے آئینی امور پر رہنمائی کرتے ہوئے آئین کی باریکیوں کے بارے میں مجھے بریف کیا۔ میری جناب خالد جاوید خان سے استدعا ہے کہ وہ وزیر اعظم پاکستان کو الیکشن کمیشن کی اتھارٹی‘ جو آئین نے اس ادارے کو تفویض کی ہے‘ کے بارے میں بریف کریں۔
ملک میں سیاسی خزاں کی آمد آمد ہے۔ وزیر اعظم کی معاشی ٹیم نے پاکستان کو ایک طرح سے دیوالیہ ہونے کے راستے پر گامزن کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف کا سلسلہ صدر ایوب خان کے وزیر خزانہ محمد شعیب اور عالمی بینک کے سٹیٹ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر محبوب الحق نے شروع کیا تھا۔ میری نظر میں ڈاکٹر محبوب الحق پاکستان کے معاشی ضرب کار (hitman) تھے جنہوں نے صدر ایوب خان کے تیسرے پانچ سالہ منصوبے کو ناکام بنوانے کے لیے عالمی اداروں کی معاونت کی تھی۔ وزیر اعظم پاکستان ملک کے نوجوانوں کو پانچ سو سالہ تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی روشن مثالیں دیتے ہیں‘ جو اگرچہ خوش آئند ہے‘ مگر اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے معاشی ضرب کاروں کی روداد کا بھی بتایا کریں۔ میرے خیال میں تو وزیر اعظم کے اپنے گرد ایسے معاشی ہٹ مینوں نے حصار کھڑا کیا ہوا ہے۔ وزیر اعظم 1962ء سے 1970ء تک کے سی آئی اے کے ڈائریکٹرز کی سرگزشت پڑھیں۔ انہیں پاکستان کے معاشی ہٹ مینوں کے بارے میں تفصیل سے لکھا مل جائے گا۔
گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کی لندن کی سرگرمیوں میں بھی خزاں کی آمد اور پت جھڑ کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ اس طرح سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ایک اہم رہنما کی لندن جانے کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں اور ان کی واپسی کے بعد ان کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں تاحیات نااہلی کے مقدمات میں ازسرِ نو نظرثانی اور اپیل دائر کرنے کے امکانات ہیں۔ ویسے بھی اگر بین السطور آئین کے آرٹیکل 225 کو مدنظر رکھیں تو بعض منصفوں نے اپنے فیصلے صادر کرتے ہوئے آئین کے مذکورہ آرٹیکل کو مدنظر نہیں رکھا‘ جس کی نشاندہی ملک کے سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر بھی کر چکے ہیں۔ اس طرح آئین کے آرٹیکل 63 (1) کو نظر انداز کیا گیا اور الیکشن کمیشن کی آئینی اتھارٹی کو پس پشت ڈالا گیا۔
لندن کی عدالت میں ان دنوں نواز شریف کی لندن میں قیام کا مقدمہ زیر سماعت ہے اور ان کی تمام اپیلیں خارج ہو چکی ہیں۔ اب آخری نظرِثانی کی اپیل کا مقدمہ چل رہا ہے۔ اسی لیے میرے اندازے کے مطابق نواز شریف نے پاکستان کے آئینی امور کے ماہر کو لندن بلوایا ہے۔ نواز شریف کی سیاسی قسمت کا آخری فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ یہ فیصلہ آنے تک لندن عدالت نواز شریف کی آخری اپیل پر فیصلہ نہ کرے۔ اسی پس منظر میں مریم نواز صاحبہ نے مذکورہ عدالت میں اپنے کیس کی تاریخ میں توسیع کرائی ہے۔ اس دوران نواز شریف کے قانونی ماہرین اور ان کے خاندان کے ارکان نواز شریف کے لیے متبادل راستہ جنیوا کانفرنس کے آرٹیکل نو کے تحت تلاش کر رہے ہیں۔ برطانیہ کی اہم ایجنسیاں اور تھنک ٹینک بھی اسی نکتے پر نظر رکھے ہوئے ہوں گے۔ اب اگر لندن کی عدالت نواز شریف کے حق میں فیصلہ نہیں کرتی تو ان کو لندن چھوڑنا پڑے گا جس سے پاکستان کا سیاسی نظام زلزلے کا شکار ہو جائے گا۔ پاکستان کے اہم سیاسی رہنما بشمول چوہدری سرور اور مسلم لیگ (ن) کی بعض شخصیات اور تحریک انصاف کے موسمی پرندوں اور اتحادی جماعتوں نے بھی لندن کی عدالت کو فوکس کیا ہوا ہے۔ آخر میں یہ کہ الیکشن کمیشن نے پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر آئندہ لوکل گورنمنٹ الیکشن کے لیے 78 الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال پر غور کرنا شروع کر دیا ہے اور وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی شبلی فراز نے بھی عندیہ دیا ہے کہ ناظمین کے سوا بلدیاتی انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر ممکن نہیں‘ مقامی تیار کردہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور نہ ہی بیرون ملک دستیاب مشینیں ایسے انتخابات کے لیے کارآمد ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں