"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کمیشن آف پاکستان اور ضابطہ اخلاق

وزیر اعظم عمران خان نے بادی النظر میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے آٹھ دسمبر کو پشاور کا دورہ کیا جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنے مراسلے میں انہیں خیبر پختونخوا کا دورہ نہ کرنے کی ضابطہ اخلاق کے تحت ہدایت کی تھی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا یہ اہم مراسلہ وزیر اعظم آفس بھجوایا گیا تھا۔ وزیر اعظم کو لکھے گئے مراسلے میں کہا گیا تھا کہ پشاور کا دورہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہدایت اور ضابطے کی خلاف ورزی ہو گا۔ الیکشن کمیشن نے آئین کے آرٹیکل 218 (3) کی پاس داری کرنے کا کہتے ہوئے مزید کہا تھا کہ بصورتِ دیگر قانونی کارروائی کا آغاز کیا جائے گا جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا کے وزرا کی رائے میں وزیر اعظم پاکستان کا دورہ سرکاری نوعیت کا تھا۔ انہوں نے گورنر ہاؤس پشاور میں سرکاری تقریب میں شرکت کی جبکہ وزیر اعظم نے گورنر ہاؤس میں خیبر پختونخوا کے 75 لاکھ خاندانوں کے مفت علاج کا اعلان کرتے ہوئے بظاہر 19 دسمبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جو الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 132، 133 اور 134 کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے رائے دی کہ وزیر اعظم کے دورۂ پشاور سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی، اب اس کا اہم پہلو یہ ہے کہ جب اکتوبر 2019ء میں وزیر اعظم عمران خان گھوٹکی میں مہر خاندان کے قبائلی رہنما کے گھر تعزیت کے لیے گئے تھے تو ان دنوں گھوٹکی میں قومی اسمبلی کے ضمنی الیکشن کا بھی شیڈول جاری ہو چکا تھا تو اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار رضا نے وزیر اعظم عمران خان کو براہ راست خط کے ذریعے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے نوٹس جاری کر دیا تھا‘ جبکہ میری ناقص رائے میں نوٹس جاری کرنا درست نہیں تھا۔ وزیر اعظم عمران خان محض تعزیت کے لیے گئے تھے‘ اُنہوں نے اس وقت سیاسی بیان دینے سے بھی گریز کیا تھا جبکہ حالیہ پشاور دورے کے موقع پر گورنر ہاؤس میں وزیر اعظم نے صوبہ خیبر پختونخوا کے عوام کے لیے ترقیاتی فنڈز کے ساتھ ساتھ صحت کارڈ کے اجرا کا اعلان بھی کیا۔ مجھے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اس سینئر آفیسر کے تبصرے پر حیرانی ہوئی کہ انہوں نے ماضی کے فیصلوں کو برقرار نہیں رکھا۔ سردار رضا کے ضابطہ اخلاق کے حوالے سے اہم فیصلے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی فائلوں میں موجود ہیں۔
ماضی کی مثالیں دیکھیں تو بلدیاتی انتخابات 2002ء کے موقع پر چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان جسٹس (ر) ارشاد خان اور 2006ء میں چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان جسٹس (ر) عبدالحمید ڈوگر نے سندھ کے طاقتور وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم‘ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام یوسف‘ قومی اسمبلی کے سپیکر چوہدری امیر حسین‘ گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد مقبول اور صوبہ سرحد (کے پی) کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل (ر) افتخار حسین شاہ کو اپنی حدود میں مقید کر دیا تھا اور بلدیاتی انتخابات میں ان کے اثر و رسوخ کو زیرو کر دیا تھا۔ یہ ریکارڈ کا حصہ ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ماضی کے بے نظیر فیصلوں کا از سرِ نو مطالعہ کرنا چاہیے۔
بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے بھارتی آئین کی منظوری (26 جنوری 1951ء) کے بعد الیکشن کمیشن آف انڈیا کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرتے ہوئے اسے آزاد الیکشن کمیشن کی سرکاری حیثیت دیتے اور ریاست کا چوتھا ستون قرار دیتے ہوئے بھارتی ایڈمنسٹریشن کے اثر سے بالا تر رکھا۔ وزیر اعظم انڈیا کو بھی الیکشن کمیشن آف انڈیا کے تابع کرتے ہوئے تمام اختیارات اس کو تفویض کر دیے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج بھارتی الیکشن کمیشن بھارت کی وحدت کا علامتی ادارہ ہے۔ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کے دورِ وزارتِ عظمیٰ میں جب بھارت میں عام انتخابات ہو رہے تھے تو اسی دوران بھارتی چیف آف آرمی سٹاف کی ریٹائرمنٹ اور نئے چیف آف آرمی سٹاف کا تقرر ہونا تھا لہٰذا بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے الیکشن کمیشن آف انڈیا سے باقاعدہ تحریری طور پر اجازت حاصل کی تھی کہ چونکہ بھارت میں عام انتخابات ہو رہے ہیں‘ ایسا نہ ہو کہ بھارتی چیف آف آرمی سٹاف کا تقرر ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی مد میں آ جائے۔ چیف الیکشن کمشنر آف انڈیا نے تحریری طور پر NOC جاری کر دیا کہ تقرر کیا جا سکتا ہے۔ یہ اہم تاریخی واقعہ مجھے انڈیا کے چیف الیکشن کمشنر نے ملاقات کے دوران سنایا تھا۔ اسی پس منظر میں مجھے لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان وزیر اعظم عمران خان کے دورۂ پشاور پر حقائق سے چشم پوشی کر رہا ہے اور میرا سوال یہ ہے کہ اگر حقائق سے چشم پوشی ہی کرنا تھی تو پھر وزیر اعظم عمران خان کو ضابطۂ اخلاق کے حوالے سے نوٹس بھجوانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے اور قانون کی پاسداری کرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کے دوران اسلام آباد میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال کا فیصلہ کیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے 3900 الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی فراہمی کے لیے وزارتِ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو خطوط لکھتے ہوئے اسلام آباد کے لارڈ میئر کی نشست کے انتخابات میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر رضا مندی کا اظہار کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان میئر کے براہ راست الیکشن کے لیے 800 پولنگ سٹیشنوں کے تمام پولنگ بوتھز پر الگ الگ الیکٹرانک ووٹنگ مشین استعمال کرے گا۔ الیکشن کمیشن نے وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی سے تکنیکی سپورٹ، مشینوں کی پروڈکشن، الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی ٹیسٹ کوالٹی اور کنٹرول طلب کرتے ہوئے پاس ورڈ اور سافٹ ویئر پر کنٹرول اور آٹھ کے لگ بھگ آئی ٹی کے ماہرین کی تربیت جیسے اہم ٹاسک کو وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کی ذمہ داری قرار دیا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے حقائق کے مطابق قدم اٹھایا ہے۔ حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مابین اس اہم متنازع مسئلے کو مثبت انداز میں حل کرنے پر سائنس ایند ٹیکنالوجی کے وزیر سینیٹر شبلی فراز کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح پنجاب کے بلدیاتی انتخابات میں میئر کے انتخابات میں بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال کیا جائے گا۔ وفاقی وزیر شبلی فراز نے حقائق کے مطابق یہ بھی رائے دی ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں میئر کے سوا الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال ناقابلِ عمل ہے۔ اگر وزیر اعظم پاکستان ابتدا سے ہی پالیسی اختیار کرتے تو یہ مسئلہ متنازع نہ ہوتا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو چاہیے کہ ضابطۂ اخلاق کے حوالے سے پارلیمانی سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے کانفرنس طلب کر کے بامعنی قانون سازی کروائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں