"KDC" (space) message & send to 7575

ضابطہ اخلاق اور شفاف انتخابات

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے شیڈول کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا کے 17 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات 19 دسمبر کو ہو رہے ہیں اور الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق صوبے میں ہونے والے ان بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں دو ہزار سے زائد امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہو چکے ہیں‘ 876 خواتین امیدوار بلا مقابلہ کامیاب ٹھہری ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں نمایاں برتری حاصل کرنے کے لیے حکومتی حلقے خاصے سرگرم ہیں اور اپوزیشن پارٹیاں بھی اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ کچھ نے الیکشن کمیشن کے مرتب کردہ ضابطۂ اخلاق کو بالائے طاق رکھا ہوا ہے جس سے الیکشن کمیشن کی قانونی رٹ اس وقت دو راہے پر کھڑی نظر آتی ہے۔ قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر، وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور، صوبائی وزیر تیمور سلیم جھگڑا، ممبر قومی اسمبلی شیر علی ارباب، صوبائی اسمبلی کے ممبر آصف خان، اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی، سید محمد صابر شاہ، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری کے خلاف الیکشن قوانین کی خلاف ورزیوں پر باقاعدہ نوٹسز جاری کیے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پشاور میں جلسہ کرنے کے ضمن میں صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ، قومی اسمبلی کے ممبر عبدالقادر پٹیل، صوبائی وزیر سعید غنی اور نثار احمد کھوڑو کو بھی اسی قسم کے نوٹسز الیکشن قوانین کی دفعات 232، 233 اور 234 کے حوالے سے جاری ہو چکے ہیں۔
علاوہ ازیں وزیر اعظم عمران خان کے 8 دسمبر کو گورنر ہاؤس پشاور کے خطاب پر اہم ترین نوٹس جاری کیا گیا۔ انہیں 12 دسمبر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان پشاور کے دفتر میں طلب کیا گیا تھا‘ لیکن الیکشن کمیشن کی اطلاع کے مطابق وزیر اعظم اس کے رو برو پیش نہیں ہوئے۔ ان کے خلاف جو نوٹس الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جاری کیا (جس کی کاپی میرے پاس موجود ہے) وہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ چونکہ وزیر اعظم نے الیکشن کمیشن کے نوٹس کو نظر انداز کر دیا ہے تو اب الیکشن کمیشن باقاعدہ طور پر کارروائی کا مجاز ہے۔ اسی طرح قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کی وائرل آڈیو سے الیکشن قوانین کی خلاف ورزی ہوتی نظر آتی ہے؛ تاہم یہ ممکن ہے کہ آڈیو جعلی ہو‘ اس لیے کوئی کارروائی کرنے سے پہلے آڈیو کی تصدیق ہونا باقی ہے۔
میں یہاں آئینی و قانونی ماہرین کے سامنے وزیر اعظم پاکستان اور قومی اسمبلی کے سپیکر کے معاملات پر اپنی ناقص رائے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ میرا مطمح نظر یہ ہے کہ وزیر اعظم صاحب کو ان کی آئینی و قانونی ٹیم قوانین کے بارے میں مناسب طور پر بریف نہیں کر رہی اور ان کے ارد گرد جو قانونی ماہرین موجود ہیں وہ شاید وزیر اعظم کی ملکی اور بین الاقوامی مصروفیات کی وجہ سے ان سے ملاقات کرنے اور انہیں بریف کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں؛ چنانچہ وزیر اعظم کو ادھر ادھر سے جو معلومات ملتی ہیں انہیں پر انحصار ہے۔ ضمناً یہ تاثر ظاہر کرنے کے بعد اب میں سب سے پہلے قومی اسمبلی کے سپیکر کی پشتو زبان میں آڈیو کے معاملات کی طرف آتا ہوں۔
اچھی شہرت کے حامل سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر بلدیاتی الیکشن کے تناظر میں سامنے آنے والی ایک مبینہ آڈیو لیک کی وجہ سے الیکشن قوانین کے سیکشن 1234 کی زد میں آتے محسوس ہوتے ہیں اور میری ناقص رائے کے مطابق اگر فرانزک رپورٹ کے نتائج میں یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ مذکورہ آڈیو میں سنائی دینے والی آواز انہی کی ہے تو پھر الیکشن کمیشن خصوصی کارروائی کرتے ہوئے ان کے خلاف فوجداری مقدمہ کرپٹ پریکٹس الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 167، 168 اور 174 کے تحت قائم کرا سکتا ہے‘ جس کے تحت ووٹرز کو ترغیب، حرص، لالچ دینے کے الزام میں زیادہ سے زیادہ تین برس سزائے قید کا معاملہ ہو سکتا ہے اور اگر بات جرمانے اور سرزنش تک محدود رہتی ہے تو بھی اپوزیشن سپیکر کے خلاف نہ صرف عدالت جا سکتی ہے بلکہ اسمبلی میں تحریک استحقاق اور تحریک عدم اعتماد بھی لائی جا سکتی ہے۔
واضح رہے کہ سپیکر قومی اسمبلی سے منسوب آڈیو گزشتہ ہفتے کے دوران منظرِعام پر آئی تھی جس پر ضلعی الیکشن کمیشن صوابی کے ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسر نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا نوٹس جاری کرتے ہوئے اسد قیصر صاحب کو اپنے دفتر طلب کر لیا تھا۔ الیکشن کمیشن کے نوٹس پر سپیکر قومی اسمبلی کے وکیل الیکشن کمیشن کے دفتر میں پیش ہوئے اور آڈیو کی فرانزک تصدیق ہونے تک مہلت طلب کر لی۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے مبینہ آڈیو کے فرانزک ٹیسٹ کا حکم پہلے ہی دیا جا چکا ہے۔ آڈیو کی گفتگو مبینہ طور پر ووٹروں کو ترغیب، حرص اور لالچ دینے کے مترادف ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ قومی اسمبلی کے سپیکر کے وکیل نے قانون کی پاس داری کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سے مہلت طلب کی ہے؛ تاہم پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر چلنے والی آڈیو کا مواداگر قومی اسمبلی کے سپیکر سے منسوب ہونا درست ثابت ہوتا ہے تو الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنے قواعد و ضابطہ کی رٹ برقرار رکھنے کے لیے کارروائی کرنے کا مجاز ہے اور یہ معاملہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی سے بڑھ کر ہے۔ اس اندیشے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ چونکہ قومی اسمبلی کا سپیکر آئین کا محافظ ہے تو ممکن ہے کہ آڈیو مخالف گروپ نے جعلی طور پر تیار کی ہو کیونکہ بادی النظر میں سپیکر قومی اسمبلی بڑے محتاط رویے کے حامل ہیں اور خلاف اصول و ضوابط کوئی بات نہیں کرتے۔
وزیر اعظم عمران خان بھی اپنے معاملے میں یہی طریقہ اختیار کر سکتے ہیں۔ وہ اپنے اٹارنی کے ذریعے اپنی پوزیشن کی وضاحت کر کے معاملہ کو رفع دفع کرا سکتے ہیں۔ اگر الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 233 اور 234 کا گہرائی تک جائزہ لیا جائے تو قوانین میں ابہام اور خامیاں نظر آ رہی ہیں۔ ویسے جو نوٹس وزیر اعظم کو بھیجا گیا ہے اور جس کی ایک کاپی میرے پاس موجود ہے‘ اس میں جن معاملات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے‘ وہ ضابطۂ اخلاق کی صریحاً خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ جناب وزیر اعظم کو ابتدائی طور پر جواب داخل کرا دینا چاہیے کیونکہ معاملہ اگر اعلیٰ سطح کے اجلاس میں پیش ہو گیا تو وزیر اعظم بلا وجہ تنقید کی زد میں آ جائیں گے۔
اب کچھ بات اگلے عام انتخابات کی۔ آئندہ انتخابات پاکستان کی انتخابی تاریخ میں مہنگے ترین الیکشن ثابت ہو سکتے ہیں‘ جس میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں اور بیرون ممالک پاکستانیوں کو انٹرنیٹ ووٹنگ کی سہولت فراہم کرنے پر تقریباً چار کھرب روپے خرچ ہونے کے امکانات پائے جاتے ہیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے لیے یہ مشکل ترین مرحلہ ہو گا‘ کیونکہ ملک کے بعض معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ ملک کی تمام اپوزیشن جماعتیں، سول سوسائٹی کا ایک حصہ اور کچھ آزاد حلقے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے بارے کچھ تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ اب بعض بڑی سیاسی جماعتیں مشترکہ پارلیمانی اجلاس کی منظوری سے انتخابی اصلاحات کے منظور کردہ بلوں کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل دائر کرنے کے ہوم ورک پر کام کر رہی ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں کچھ اہم کیسز پہلے ہی زیر سماعت ہیں۔ اب وزیر اعظم کے خلاف ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کے نوٹس پر الیکشن کمیشن میں اہم پیش رفت ہونے کا امکان بھی بڑھ رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان حوالوں سے معاملات آنے والے دنوں میں کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں