"KDC" (space) message & send to 7575

تحریک انصاف کا تنظیمی انہدام

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے پارٹی میں اندرونی خلفشار اور خیبر پختونخوا کے پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات میں شکست کے باعث تحریک انصاف کی تنظیموں کو تحلیل کر دیا اور پارلیمانی بورڈ بھی تحلیل کر دیے گئے۔ پارٹی کے مردِ آہن چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی بھی اپنے عہدے سے فارغ کر دیے گئے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کا آئین بھی معطل یا تحلیل کر دیا گیا اور خیبر پختونخوا اور پنجاب کے بلدیاتی انتخابات کے لیے21 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔ تحریک انصاف کو پارٹی کے آئین کے بارے میں وضاحت کرنی چاہیے کیونکہ اگر چیئرمین عمران خان نے پارٹی کا آئین تحلیل یا معطل کر دیا ہے تو یہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 200 اور 201 کی خلاف ورزی تصور کی جائے گی‘ جس کے نتیجے میں تحریک انصاف کی رجسٹریشن بھی سوالیہ نشان بن جائے گی کیونکہ پارٹی کی رجسٹریشن میں پارٹی کا آئین بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ پارٹی کے آئین میں ترمیم کرنے کے اختیارات پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کو حاصل ہیں‘ جس کی تفصیل پارٹی کے آئین میں وضاحت سے دی جاتی ہے۔پارٹی کے آئین میں تبدیلی کے لیے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 205 کو مدنظر رکھنا ہو گا‘ اس حوالے سے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان بڑے بحران سے گزر چکی ہے‘ جب اس کی کور کمیٹی نے تنظیمی ڈھانچہ تحلیل کرتے ہوئے تمام عہدیداران کو برطرف کر دیا تھا تو ڈاکٹر فاروق ستار نے پارٹی کے کنوینر خالد مقبول صدیقی کے الیکشن کوالیکشن ایکٹ2017 کی دفعہ 205 کی سب شق 2 کے تحت الیکشن کمیشن میں چیلنج کر دیا تھا کہ پارٹی عہدیداران کو برطرف کرنے سے پہلے ان کو باقاعدہ چارج شیٹ نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان کے موقف کو سنا گیا۔ اس حوالے سے الیکشن کمیشن کے اُس وقت کے سربراہ جسٹس(ر) سردار رضا نے مثالی فیصلہ دیا تھا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین کو اپنی پارٹی کے تنظیمی امور پر فیصلہ کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے ماضی کے فیصلوں سے رہنمائی لینی چاہیے۔
اگر تحریک انصاف کے چیئرمین نے پارٹی کے آئین کو معطل یا تحلیل کر دیا ہے تو ان کا فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں چیلنج ہو جائے گا کیونکہ پارٹی کے چیئرمین کو پارٹی کا آئین معطل کرنے کے اختیارات نہیں ہیں۔ اگر پارٹی کے آئین کا وجود ہی نہیں ہے تو جس عمارت پر ان کی پارٹی کھڑی ہے وہ زمین بوس ہو جائے گی کیونکہ الیکشن کمیشن کسی پارٹی کی رجسٹریشن کرتے ہوئے پارٹی کا آئین ہی مدنظر رکھتا ہے ۔اب اگر تحریک انصاف اپنے تنظیمی ڈھانچے سے ہی محروم ہو چکی ہے تو پارٹی کے بانی سیکرٹری جنرل حامد خان کو آگے آنا چاہیے‘ تحریک انصاف کے سابق سینئر نائب صدر جسٹس (ر) وجیہ الدین بھی الیکشن کمیشن میں ریفرنس بھیج سکتے ہیں ۔اگر یہ بات درست ہے کہ پارٹی کے چیئرمین نے پارٹی کے آئین کو معطل کرتے ہوئے پارٹی کی سنٹرل کمیٹی سے منظوری حاصل نہیں کی توپارٹی کی رجسٹریشن الیکشن ایکٹ کی دفعہ 215 کی زد میں آ سکتی ہے۔
عمران خان نے پارٹی کے عہدیداروں کو معطل کر کے دوبارہ انہی افراد کو نامزد کر دیا ہے جن کی کارکردگی سے پارٹی کے عام ورکر نالاں تھے۔ ان حالات میں وہ تنہا کھڑے نظر آتے ہیں اور اگلے مرحلے کے مقامی انتخابات پارٹی کے بنیادی ڈھانچے کے بغیر انکے ہاتھ سے نکل سکتے ہیں۔ پارٹی کے گراس روٹ کے ورکرز ان کے طرزِ عمل سے مایوس ہوئے ہوں گے ‘ لہٰذا پنجاب میں بلدیاتی الیکشن میں تحریک انصاف مجھے دور دور تک نظر نہیں آ رہی۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی کارکردگی سے بیورو کریسی میں کرپشن ریکارڈ توڑ حد تک بڑھ چکی ہے۔ پنجاب کی قیادت جن رہنماؤں کو دی گئی ہے ان تک پارٹی کے عام کارکنوں کو رسائی حاصل نہیں ہے ‘ان حالات میں یہ کہنا غلط نہیں کہ تحریک انصاف پنجاب میں اپنا وجود کھو بیٹھی ہے۔
سندھ میں تحریک انصاف کی جڑیں عوام میں نہیں ہیں‘ اسی طرح بلوچستان میں تحریک انصاف کی کارکردگی کے حوالے سے سردار یار محمد رند شدید تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں اور صوبہ خیبر پختونخوا کے دوسرے مرحلے کے نتائج بھی تحریک انصاف کی توقع کے برعکس ہی آتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان حالات میں وزیراعظم کو قومی اسمبلی اور پنجاب و صوبہ خیبر پختونخوا کی اسمبلی کو تحلیل کرانے کے آئینی اختیارات حاصل ہیں لیکن اس بحران میں صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان ان کے ہم نوا نہیں ہوں گے تو ملک کو آئینی‘ معاشی بحران سے بچانے کے لیے آئین کے آرٹیکل 123کے تحت ہنگامی حالات نافذ کرناپڑیں گے‘ جس کے اثرات سے نگران سیٹ اپ کو بھی الیکشن غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرنا پڑیں گے۔
مجھے حیرانی ہے کہ وزیراعظم تاریخ اور فلسفے کی کتابیں پڑھنے پر زور دیتے ہیں تو انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی تاریخ کیوں نہیں پڑھی اور وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے طرزِ حکومت پر بھی غور نہیں کیا۔اس دور میں بھی پاکستان تنہائی کا شکار ہو چکا تھا جبکہ نواز شریف نے ہمالیہ جیسی غلطیاں کیں جن کے نتیجے میں انہیں اقتدار سے محروم ہونا پڑا ‘ اسی طرح اکتوبر 2016ء میں ڈان لیکس کی وجہ سے وہ سکیورٹی رسک قرار دیے گئے ‘ پھر معاملہ اقامہ کیس تک پہنچ گیا جس کے تحت سپریم کورٹ نے ان کو آئین کے آرٹیکل 62 (1) ایف کے تحت تاحیات نااہل قرار دے دیا اور اب بازگشت ہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر نواز شریف کے لیے سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست لا رہے ہیں ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی ایک رولنگ دی تھی کہ تاحیات نااہلی کا فیصلہ کرنے کیلئے سپریم کورٹ کا 17 رکنی بنچ تشکیل دیا جائے۔ تاحیات نااہلی کے کیسز میں سپریم کورٹ آف پاکستان اپنے فیصلے میں رہنما اصول واضح کر چکی ہے‘ جس میں حقائق چھپانے میں نیت کے عمل دخل پر زور دیا گیا تھا‘ لہٰذا نواز شریف اور جہانگیر ترین کی نااہلی کا معاملہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی آئینی پٹیشن کے ذریعے ہی طے ہوسکتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے نواز شریف کو ریلیف دیے جانے کی قیاس آرائیوں پرجو ریمارکس دیے یہ ان کیلئے بدگمانی پیدا کریں گے۔ نواز شریف کی واپسی کی پراسرار حقائق پر مبنی کہانی میں نے اپنے کالم میں بیان کر دی تھی کہ نواز شریف کے ویزے کی توسیع برطانوی عدالت نے مسترد کر دی ہے اور برطانیہ ان کو بے دخل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ بہرحال نواز شریف فی الحال برطانیہ میں ہی قیام کریں گے اور عدالت کو باور کرائیں گے کہ ان کی نااہلی کے بارے میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر ہو رہی ہے ۔ ان کی رہائی کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی اپیل زیر سماعت ہے۔ ایوان فیلڈ اپارٹمنٹس کے جس مقدمے میں نواز شریف اور مریم نواز کو سزا دی گئی تھی‘ اس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے چالیس سے زائد صفحات پر مشتمل ضمانت کے فیصلے کا ریکارڈ نواز شریف کے لندن کے وکلا نے برطانوی عدالت میں بطور ریکارڈ پیش کیا ہوا ہے۔شنید ہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے عہدیدار نے مزید آئینی و قانونی اور عدالتی فیصلے کا ریکارڈ تیار کر کے نواز شریف کو دو ہفتے قبل لندن میں پیش کر دیا تھا۔بادی النظر میں اس ریکارڈ کی روشنی میں برطانوی عدالت نے ابھی تک کوئی فیصلہ ان کی بے دخلی کے بارے میں نہیں کرنا۔
حاصل کلام یہ ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے تحریک انصاف کے تنظیمی ڈھانچے کو زمین بوس کر کے لوکل گورنمنٹ کے الیکشن میں پارٹی کی شکست کی بنیاد رکھ دی ہے اور نواز شریف کو ریلیف دینے کی صورت میں جیلوں کے دروازے کھولنے کی دھمکی دے کر وہ اپنی اصل طاقت سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں