"KDC" (space) message & send to 7575

فارن فنڈنگ کا گرداب

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے فارن فنڈنگ کیس‘ جو نومبر 2014ء سے زیر التوا تھا‘ میں پاکستان تحریک انصاف کے خلاف غیرملکی فنڈنگ کے الزامات کی سماعت شروع کر دی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ‘ جس کے اختیارات ہائی کورٹ کے مساوی ہیں‘ نے کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران چیف الیکشن کمشنر نے سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ فریقین کو دی۔
تحرک انصاف فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کی قائم کردہ سکروٹنی کمیٹی کی 225 صفحات پر مشتمل رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف نے 12 بینک اکاؤنٹس ظاہر کیے ہیں جبکہ 53 اکاؤنٹس کو چھپائے رکھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سٹیٹ بینک نے انکشاف کیا ہے کہ ریکارڈ کے مطابق تحریک انصاف کے 65 بینک اکاؤنٹس ہیں۔ 2008ء‘ 2009ء‘ 2012ء اور 2013ء میں تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے سامنے ایک ارب 33 کروڑ روپے کے عطیات ظاہر کیے تھے۔ رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن میں عطیات سے متعلق غلط معلومات فراہم کی گئیں‘ سٹیٹ بینک کے گوشوارے سے ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کو ایک ارب 64 کروڑ روپے کے عطیات موصول ہوئے۔ اس نے 31 کروڑ روپے سے زائد رقم الیکشن کمیشن میں ظاہر نہیں کی۔ بینک آف پنجاب‘ بینک آف خیبر اور ایم سی بی کے 2008ء سے 2012ء تک کے اکاؤنٹس کی تفصیلات اثاثوں میں ظاہر نہیں کی گئیں جبکہ نیوزی لینڈ کے بینک سٹیٹمنٹ تک رسائی بھی نہیں ملی۔
سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ میں ممنوعہ فنڈنگ سے متعلق‘ بھارت فرانس اور آسٹریلیا کے قوانین کا حوالہ دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بیرون ملک تحریک انصاف کی فنڈنگ کی نشاندہی کی گئی ہے مگر کمیٹی کو فنڈنگ کے ذرائع معلوم نہیں ہو سکے جبکہ الیکشن کمیشن کو دی گئی تفصیلات میں تضادات سامنے آئے ہیں۔ سکروٹنی کمیٹی کو تحریک انصاف کے امریکی بینک اکاؤنٹس تک بھی رسائی حاصل نہیں ہو سکی۔ سٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق فارن فنڈنگ کرنے والوں میں 230 فارن کمپنیز تھیں۔ سٹیٹ بینک کے ڈیٹا کے مطابق تحریک انصاف کو امریکہ‘ دبئی‘ برطانیہ‘ یورپ‘ ڈنمارک‘ جاپان‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا اور دیگر ممالک سے فنڈز ملے۔ سکروٹنی کمیٹی کے مطابق دبئی سے تحریک انصاف کو ملنے والے 22 لاکھ ڈالرز کی تفصیلات یو بی ایل نے سٹیٹ بینک کو فراہم کیں‘ تاہم الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی کو متحدہ عرب امارات‘ برطانیہ اور یورپ سے ملنے والے فنڈز کی مکمل تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں جس کی وجہ سے سورس آف فنڈنگ پر سکروٹنی کمیٹی تبصرہ نہیں کر سکتی جبکہ جاپان‘ آسٹریلیا اور ڈنمارک سے ملنے والے فنڈز کی معلو مات کی عدم فراہمی کی بنیاد پر سورس آف فنڈنگ پر رائے دینا ممکن نہیں۔
سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق پانچ سال تک تحریک انصاف کی آڈیٹر فرم ایک جیسی رپورٹ جاری کرتی رہی۔ تحریک انصاف نے آخری سال میں آڈیٹر فرم تبدیل کی مگر آڈٹ رپورٹ وہی رہی۔ سکروٹنی کمیٹی اس نتیجہ پر پہنچی کہ آڈٹ رپورٹس اور تحریک انصاف کے بینک گوشوارے میں تضاد ہے۔ رپورٹ کے مطابق کمیٹی نے قرار دیا ہے کہ پی ٹی آئی کی آڈٹ رپورٹ اکاؤنٹنگ کے معیار پر پورا نہیں اترتی نہ ہی پارٹی کی جانب سے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے ڈیکلریشن میں بینک اکاؤنٹس ظاہر کیے گئے۔ رپورٹ کے مطابق سال 2012ء اور 2013ء کی آڈٹ رپورٹ پر کوئی تاریخ درج نہیں جبکہ آڈٹ فرم کی فراہم کردہ کیش رسیدیں بھی بینک اکاؤنٹس سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ واضح ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ نے مذکورہ وقت کے دوران پی ٹی آئی اکاؤنٹس کی بینک سٹیٹمنٹ کو ری کنسائل نہیں کیا۔
الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے بادی النظر میں تحریک انصاف پر غیرملکی فنڈنگ کا ثبوت قانونی حقائق اور الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 204 کے دائرے میں آتا ہے تو پارٹی کا ممنوعہ فنڈ بحق سرکار ضبط ہونے کے ساتھ ساتھ پارٹی کا انتخابی نشان بھی الیکشن ایکٹ کی دفعہ 215 کے تحت واپس لیا جا سکتا ہے اور پارٹی کی رجسٹریشن تحلیل ہو سکتی ہے۔ فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کسی پارٹی کو کالعدم قرار دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ کسی سیاسی پارٹی کو کالعدم قرار دینے کے اختیارات وفاقی حکومت کو حاصل ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے الیکشن ایکٹ کی دفعہ 210 کے تحت پارٹی کے گوشوارے اورچارٹرڈ اکاؤنٹنٹ فرم کی رپورٹ اور تصدیقی سرٹیفکیٹ پر دستخط کیے ہیں۔ تصدیقی سرٹیفکیٹ اور بیانِ حلفی میں فرق ہوتا ہے۔ بیانِ حلفی غلط ثابت ہو جائے تو آرٹیکل 62 استعمال ہو سکتا ہے‘ سرٹیفکیٹ کی صورت میں آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ عمران خان نے بیانِ حلفی نہیں دیا۔ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کا سرٹیفکیٹ جمع کرایا اور اس کی تصدیق کی ہے۔ الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کا جائزہ لیا جائے تو بادی النظر میں تحریک انصاف کے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی عدم دلچسپی یا قوانین سے نابلد ہونے کی وجہ سے پارٹی کے اثاثے جمع کراتے وقت الیکشن ایکٹ کی دفعہ 210 اور پرانے قوانین ''پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء‘‘ کی دفعات 12 اور 13کو مدنظر نہیں رکھا گیا اور چارٹر اکاؤنٹنٹ مسلسل پانچ سال تک ایک ہی طرح کی رپورٹ الیکشن کمیشن میں جمع کراتا رہا۔ اسی طرح 226 غیرملکی کمپنیوں کے ذریعے جو فنڈز جمع ہوتے رہے اگر وہ غیرملکی ممنوعہ فنڈز ثابت ہوتے ہیں تو تحریک انصاف الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 215کی زد میں آ سکتی ہے۔
سیاسی جماعتوں کے لیے بیرونی عطیات اور فنڈز لینے پر پابندی ہے‘ بین الاقوامی طور پر عطیات حاصل کرنے کی ممانعت ہے۔ واشنگٹن میں قائم غیرمنافع بخش تنظیم انٹرنیشنل فاؤنڈیشن فار الیکٹورل سسٹم‘ جس کے سربراہ کا تقرر صدر امریکہ کرتا ہے‘ کی رائے میں دنیا بھر کی جمہوریتوں میں سیاسی فنڈنگ کا کردار متنازع اور انتشار پھیلانے میں اہم رہا ہے۔ کوئی بھی فنڈز دینے والا اس کے بدلے میں مالی یا سیاسی فوائد کا خواہش مند ہوتا ہے۔ پاکستان کے سابق چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) قاضی محمد فاروق کے ہمراہ میں نے دسمبر 2008 میں انٹرنیشنل فائونڈیشن فار الیکٹورل سسٹم کے صدر‘ جو کینیڈا کے چیف الیکشن کمشنر بھی رہے تھے‘ واشنگٹن میں ملاقات کی تھی۔ انہوں نے پاکستان کے الیکٹورل سسٹم میں گہری دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا تھا کہ پاکستان میں 18 فروری 2008ء کے انتخابات بین الاقوامی جمہوری اصولوں کے مطابق تھے۔ انہوں نے بھی یہی رائے دی تھی کہ سیاسی جماعتوں کو فارن فنڈنگ سے گریز کرنا چاہیے۔ جب میں نے پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002ء کی متعلقہ دفعات سے ان کو بریف کیا تو انہوں نے اسے خوش آئند قرار دیا تھا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ پر سماعت کاآغاز کر دیا ہے‘ اب دونوں فریقوں کو اپنے اپنے موقف پر دلائل دینا ہوں گے؛چنانچہ وزرا اور حکومتی ترجمان اور اپوزیشن جماعتوں کے سیاسی رہنما الیکشن کمیشن کی سماعت کے دوران غیر ضروری ریمارکس سے گریز کریں۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ خان صاحب کو ان کے وزرا غلط حقائق پیش کر کے مس گائیڈ کر رہے ہیں۔ سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کا جائزہ لینے کے لیے وزیراعظم پاکستان کو آئینی و قانونی ماہرین کی ٹیم تشکیل دے کر اپنے دفاع میں مضبوط موقف اختیار کرنا چاہیے۔ ان کے وزرا ان کو بندگلی میں لے جا رہے ہیں۔ وزیراعظم کو ادراک ہونا چاہیے کہ سکروٹنی رپورٹ آنے کے بعد ان کی پارٹی کے خاموش ارکانِ اسمبلی حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں