"KDC" (space) message & send to 7575

منی بجٹ اجلاس سے غیر حاضری کے مضمرات

پاکستان کے سینئر سیاستدان شیخ رشید احمد نے دعویٰ کیا ہے کہ چاروں شریف پاکستانی سیاست سے مائنس ہیں۔بقول ان کے '' وہ چاہتے ہیں کہ جو ہاتھ عمران خان کے سر پر ہے وہ ان کے سر پر رکھا جائے لیکن وہ ہاتھ ان کی گردن پر تو آئے گا سر پر نہیں آئے گا‘‘۔ شیخ صاحب کی گفتگو مقتدرہ کی غیر جانبدارانہ پالیسی سے انحراف ہے۔ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر ایک سے زائد مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔ وہ واضح کر چکے ہیں کہ بغیر شواہد اور تحقیق بات کرنا کسی کو بھی سوٹ نہیں کرتا‘ قیاس آرائیوں کو بند ہونا چاہیے‘ کمنٹس کرنے والوں کے پاس کوئی ثبوت ہے تو سامنے لے کر آئیں۔ حیرت ہے کہ وفاقی وزیر کس کی ایما پر ایسی ذومعنی گفتگو کر کے مقتدرہ کی غیر جانبدارانہ پالیسی پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں۔ میرے خیال میں اپوزیشن کو ان کے بیان پر پارلیمنٹ میں تحریک استحقاق پیش کرنی چاہیے کیونکہ ان کا بیان پارلیمنٹ کی بے توقیری کے ضمن میں آتا ہے ‘ وزیراعظم پاکستان کو بھی اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ جہاں تک ہاتھ رکھنے کی بات ہے تو پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں وزیر دفاع پرویز خٹک کے وزیراعظم عمران خان سے سخت سوالات کی روشنی میں اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی نورعالم کا قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومتی بنچوں کی اگلی قطاروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ کہنا کہ پہلی تین قطاروں میں براجمان افراد ہی ملک میں افراتفری کے اصل مجرم ہیں لہٰذا ان کے نام ای سی ایل میں ڈالیں‘ پاکستان بچ جائے گا‘اس سے تو یوں محسوس ہو رہا ہے کہ معاشی بدحالی اور ملک کے دیوالیہ پن کی طرف بڑھتے ہوئے حالات کی وجہ سے‘ اگر کوئی ہاتھ تھا بھی تو وہ اب آہستہ آہستہ سرک رہا ہے ۔ اسلام آباد میں پارلیمانی راہداری میں بھی اس کا احساس پایا جاتا ہے ‘ جہاں ایسی اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ فروری کے پہلے ہفتے میں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے اندرونی طور پر ہوم ورک کیا جا رہا ہے اور تحریک انصاف کے دو درجن سے زائد ارکان قومی اسمبلی‘ جن میں زیادہ تر کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا سے ہے‘ تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے مشن پر ہیں۔
اب ذکر قرضے اور اس کی منظوری کے لیے منی بجٹ کا۔ آئی ایم ایف سے حکومت کو ایک ارب ڈالر کا قرضہ تو مل جائے گا لیکن منی بجٹ کے سارے خدوخال کو مدِنظر رکھا جائے تو یہ واضح ہے کہ اس قرضے کے عوض لوگوں پر بے پناہ بوجھ پڑے گا۔ لوگوں کی قوتِ خرید پہلے ہی جواب دے چکی ہے‘ منی بجٹ کی صورت میں مہنگائی کے ایک نئے طوفان کا وہ کیونکر مقابلہ کرپائیں گے ‘ اس پس منظر میں 27 فروری اور 23 مارچ کو ممکنہ طور پر جو لانگ مارچ ہونے والے ہیں‘ ان سے حکومت کے لیے نئے خطرات پیدا ہونے جا رہے ہیں۔ اگرچہ 13 جنوری کو حکومت منی بجٹ منظور کروانے میں کامیاب ہو گئی‘ اس کے حق میں 163 ووٹ پڑے جبکہ مخالفت میں 146 ووٹ ڈالے گئے‘ مگر یہاں قوم کو احساس ہی نہیں ہوا کہ اپوزیشن کے 12 ووٹ کہاں غائب ہو گئے ۔اپوزیشن کے یہ ارکانِ قومی اسمبلی پراسرار طریقے سے کیسے لاپتہ ہو گئے؟ اسی طرح 12 کے لگ بھگ سرکاری ارکان اسمبلی کی غیر حاضری سے حکومتی سرکل کوبھی نقصان پہنچا۔تاہم میری نظر میں غیر جانبدارانہ حلقوں کو اپوزیشن کے 12 ارکان کی غیر حاضری کا نوٹس لینا چاہیے اور قومی اسمبلی کے ریکارڈ کی روشنی میں ان ارکان کو بے نقاب کیا جانا چاہیے۔ 17 نومبر 2021ء کے مشترکہ اجلاس ‘ جس میں الیکشن ایکٹ میں ترامیم کی جا رہی تھیں‘ اپوزیشن کے 14 ارکان منظر سے غائب ہو گئے تھے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف نے یہ چیلنج بھی کیا تھا کہ وہ اس ایکٹ کی منظوری کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت پٹیشن داخل کریں گے ۔ ان رہنماؤں نے قوم کی ترجمانی کے برعکس مصلحت کے تحت خاموشی اختیار کیے رکھی اور لامحالہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان کو الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے متعلق اپنا روڈ میپ پیش کر دیا ۔ وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی تجاویز کے مطابق اسلام آباد میں لوکل گورنمنٹ کے انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات کرانے پر رضامندی کا اظہار کر دیا۔اطلاعات کے مطابق اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات میں صرف میئر کی نشست کے انتخاب میں ای وی ایم استعمال کی جائے گی۔ الیکشن کمیشن نے ای وی ایم کی فراہمی کے لیے وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو خط لکھ کر3900 الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں مانگی ہیں۔ میئر کے انتخاب کے لیے الیکشن کمیشن 800 پولنگ سٹیشنز کے تمام پولنگ بوتھوں پر ای وی ایم استعمال کرے گا‘ تمام پولنگ بوتھوں کے لیے 3100 الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں درکار ہوں گی جبکہ الیکشن کمیشن 800 الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں بیک اَپ کے رکھے گا۔ الیکشن کمیشن نے وزارت سائنس سے ای وی ایم کے علاوہ تکنیکی سپورٹ بھی مانگی ہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ وزارت سائنس رسک مینجمنٹ‘ سکیورٹی میکنزم سرٹیفکیشن سمیت پولنگ سٹاف کو تربیت دے۔
اپوزیشن کے سینئر رہنما حکومت پر تنقید کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے لیکن اپنی پارٹیوں کی گروہ بندی کی طرف ان کی نظر نہیں جاتی اور جب بھی عوامی مفاد کا وقت آتا ہے تو اپوزیشن کے اکثر ارکان پارٹی رہنماؤں کے برعکس راستہ اختیار کرتے ہیں‘ مگر ان کے خلاف کارروائی کے بجائے بہانے تراش لئے جاتے ہیں اور ان تنظیمی کمزوریوں پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے جو اس وقت اپوزیشن کی تقریباً سبھی جماعتوں میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔قومی اسمبلی کے جو ارکان منی بجٹ کے اہم اجلاس سے فرار ہوئے ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 63 (1) کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے۔ یہ ارکان اسمبلی آئین کے آرٹیکل 63 (1) کی زد میں آتے ہیں‘ان کے خلاف ریفرنس قومی اسمبلی کے سپیکر کو بھجوائے جا سکتے ہیں کیونکہ اس شق میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ بجٹ کے موقع پر اسمبلی اجلاس سے غیر حاضر ہونے پر ان کی نااہلیت ہو سکتی ہے۔اب اپوزیشن کے لیے کڑا امتحان ہے کہ وہ اپنے ارکان اسمبلی کے خلاف کارروائی کرتی ہے یا حسب ِ معمول مصلحت کا شکار ہو جائے گی۔ میری اطلاع کے مطابق منی بجٹ منظوری کے لیے اپوزیشن اور حکومت کے درمیان سیکرٹ معاہدہ ہوا تھا جس کے ذریعے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے لیے راہ ہموار کی گئی ۔ اب منی بجٹ کی شکل میں مہنگائی کی وجہ سے عوام کی حالت غیر ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں رہ گیا۔ مجھے حیرانی ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کیسے خاموشی اختیار کرتے ہوئے ‘منی بجٹ کی کامیابی پر مبارکبادیں سمیٹ رہے ہیں جبکہ ان کے والد محترم کرنل جمشید ترین قائداعظم کے قریبی ساتھی اور تحریک پاکستان کے کارکن تھے جو ہمیشہ غریبوں کے ساتھ کھڑے رہے جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے وزیر دفاع پرویز خٹک اور چند دیگر ارکانِ قومی اسمبلی نے پارلیمانی اجلاس میں عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے وزیراعظم سے دو ٹوک الفاظ میں اپنے تحفظ کا اظہار کر دیا۔میری اطلاع کے مطابق فروری میں اہم فیصلے بھی ہونے جا رہے ہیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ پاکستان کی انتخابی‘ سیاسی تاریخ کو تبدیل کرنے کی پوزیشن میں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں