"KDC" (space) message & send to 7575

نظامِ حکومت کی بحث

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریک انصاف فارن فنڈنگ کیس کی رپورٹ پبلک نہ کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے پاکستان کی انتخابی تاریخ میں نیا باب رقم کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ تحریک انصاف کے وکیل‘ سابق اٹارنی جنرل‘ جسٹس (ر) انور منصور نے سٹیٹ بینک کی آٹھ جلدوں پر مشتمل رپورٹ کو پبلک نہ کرنے پر اصرار کیا تھا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی سکروٹنی کمیٹی نے بھی فارن فنڈنگ کیس کی رپورٹ کو پبلک نہ کرنے کی سفارش کی تھی‘ تاہم زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے‘ آئین کے آرٹیکل 19(A) کے تحت چیف الیکشن کمشنر اور ارکان الیکشن کمیشن نے اس سفارش کو مسترد کر دیا۔
میرا خیال ہے کہ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے بعد وزیر اعظم عمران خان سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کے صفحہ 83 سے حیران ہو رہے ہوں گے کہ ان کے وزرا اور آئینی و قانونی ماہرین نے انہیں اس پر بریف نہیں کیا‘ جبکہ ان کے وکلا الیکشن کمیشن کی کارروائیوں کے دوران اس صفحے کو خفیہ رکھنے کی درخواست کیا کرتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اس صفحے میں ایسی کیا معلومات ہیں جن کے ظاہر ہونے سے پی ٹی آئی اپنی ساکھ مجروح ہونے کا خوف محسوس کرتی ہے۔ فارن فنڈنگ کیس کے اس اہم مقدمے کی جب الیکشن کمیشن میں 18 جنوری کو سماعت شروع ہوئی اور اس جماعت کے مالی معاملات کے بارے میں انکشافات شروع ہوئے تو ایک اہم پیش رفت ہوئی اور الیکشن کمیشن نے سٹیٹ بینک کو لکھا کہ تحریک انصاف کے تمام اکاؤنٹس کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔ الیکشن کمیشن کی ہدایت پر سٹیٹ بینک نے تحقیقات کر کے تحریک انصاف کے تمام اکاؤنٹس کا کھوج لگا لیا۔ یہ وہی اکاؤنٹس تھے جو الیکشن کمیشن سے خفیہ رکھے گئے تھے۔ تحریک انصاف کے یہ اکاؤنٹس سامنے آنے پر یہ معاملہ سامنے آیا کہ تحریک انصاف نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈ حاصل کئے‘ مگر قانون کے مطابق اس کا حتمی فیصلہ الیکشن کمیشن نے ہی کرنا ہے‘ لہٰذا تحریک انصاف بادی النظر میں فارن فنڈنگ کیس میں دباؤ میں آتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ پارٹی کے چیئرمین کو اندرونی طور پر حقائق کا پتہ لگانا چاہیے کہ ان کی پارٹی کے نا اہل آڈٹ افسروں اور مالی امور کے نگرانوں نے کیوں انہیں اندھیرے میں رکھا اور ان کی جماعت کے اہم عہدیداران ان حقائق کو چھپانے کی کوششوں میں کیوں مصروف رہے؟ دراصل تحریک انصاف کے مالیاتی امور کے نگرانوں نے فارن فنڈنگ کیس پر خان صاحب کو حقائق سے لا علم رکھا جبکہ میں ان کو میڈیا کے ذریعے خبردار کرتا رہا ہوں کہ فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے معاملات بگڑتے جا رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں پارٹی کی رجسٹریشن تحلیل بھی ہو سکتی ہے۔ اس کیس پہ میری رائے یہ رہی ہے کہ اگر پی ٹی آئی الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 204 اور 210 کی زد میں آ گئی تو دفعہ 215 کے تحت انتخابی نشان سے محروم ہو سکتی ہے۔ نعیم الحق (مرحوم) نے اپنی وفات سے ایک ہفتہ قبل مجھ سے ملاقات کی تھی اور میں نے انہیں بھی اس سنگین صورت حال سے آگاہ کر دیا تھا۔ اس ملاقات کے دوران نعیم الحق مرحوم نے میری موجودگی میں وزیر اعظم عمران خان کو فون کر کے فارن فنڈنگ کیس سنجیدگی سے حل کرنے پر زور دیا اور وزیر اعظم عمران خان کو انہوں نے بتایا کہ ان کے قانونی ماہرین کیس کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ نعیم الحق نے ان کے نام بھی بتائے لیکن ان کے ناموں کا انکشاف نہیں کر رہا ہوں۔
میرا تاثر ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو ایک مخصوص گروپ نے انتظامی طور پر یرغمال بنائے رکھا ہے‘ جس طرح 1968ء اور 1969ء کے درمیانی عرصے میں فیلڈ مارشل ایوب خان کو ان کے پرنسپل سیکرٹری این اے فاروقی نے مفلوج کرکے باہر کے حالات سے بے خبر رکھا تھا۔ ملک میں بے چینی‘ ہنگامہ آرائی‘ گھیراؤ جلاؤ کی تحریک چل رہی تھی اور صدر ایوب خان کو ٹرسٹ کے اخبارات پیش کئے جا رہے تھے‘ مگر جب پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر زیڈ اے سلہری نے دو جنوری 1969ء کو صدر ایوب خان سے ملاقات کر کے سنگین بحران کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے جنرل آغا محمد یحییٰ خان کی سازشی تھیوری سے مطلع کیا تو صدر ایوب خان نے فوری طور پر گول میز کانفرنس بلانے کا اعلامیہ جاری کرتے ہوئے نوابزادہ نصراللہ خان کو مذاکرات کی دعوت دی‘ پھر اس کے نتیجہ میں صدر ایوب خان 25 مارچ 1969ء کو صدارت سے مستعفی ہو گئے۔ اس سے پیشتر 14 مارچ 1958ء کو گول میز کانفرنس ہوئی تھی اور ملک میں صدارتی نظامِ حکومت سے پارلیمانی طرزِ حکومت پر اتفاقِ رائے ہو ا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان کو اپنی صفوں میں زیڈ اے سلہری کو تلاش کرنا چاہیے۔
ادھر ملک میں ایمرجنسی لگانے اور ریفرنڈم کے حوالے سے ایک پراسرار مہم چلائی جا رہی ہے۔ ان کے محرکین کو آئین کے آرٹیکل 233 کا گہرائی سے مطالعہ کرنا چاہیے جس کے تحت آئین کے آرٹیکل 15‘ 16‘ 17‘ 18‘ 19 اور 24 معطل ہو جائیں گے اور آئین کے آرٹیکل سات کے تحت صدر مملکت انتظامیہ کے مکمل بااختیار صدر مملکت ہوں گے۔ اس طرح آئین کے آرٹیکل 232 اور آئین کے آرٹیکل 234 کو ملا کر پڑھا جائے تو ایمرجنسی کی صورت میں آئین فوری طور پر مفلوج ہو جائے گا اور جو مقدمات وفاقی حکومت یا حکمران پارٹی کے خلاف کمیشن کی صورت میں زیر سماعت ہیں وہ بھی معطل ہو جائیں گے۔
آئین کا آرٹیکل سات طرزِ حکومت کے حوالے سے آئینی ڈھانچے کی حیثیت رکھتا ہے جس میں پارلیمانی نظامِ حکومت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے‘ لہٰذا ملک کے ممتاز آئینی‘ قانونی ماہرین اور اپوزیشن رہنما اور حکومت کے ترجمانوں کو احساس ہونا چاہیے کہ صدارتی نظامِ حکومت اپنانے کے حوالے سے ریفرنڈم کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے۔ اگرچہ صدر مملکت آئین کے آرٹیکل 48 کی شق 16 کے تحت ایک ایجنڈے پر ''ہاں‘‘ اور ''ناں‘‘ کے سوال سے ہر ریفرنڈم کرانے کے مجاز ہیں لیکن ریفرنڈم کرانے کی آئینی منظوری پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے حاصل کرنا ہو گی۔ اگر حکومت اپنی سابقہ اور حالیہ حکمت عملی کے تحت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے ریفرنڈم کی قرارداد منظور کرا لیتی ہے تو پھر ساڑھے بارہ کروڑ ووٹروں سے رضا مندی حاصل کرنے کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ریفرنڈم کرانے کے انتظامات کرانا ہوں گے جس کے لیے تقریباً 60 روز درکار ہوں گے اور ملک گیر پیمانے پر ایک لاکھ سے زائد پولنگ سٹیشن قائم کرنا ہوں گے اور 15 لاکھ افراد پر مشتمل الیکشن عملہ درکار ہوگا‘ جس کے اخراجات 50 ارب روپے کے قریب ہوں گے۔
ریفرنڈم میں صدارتی نظامِ حکومت کے بارے میں حکومت کو مثبت ووٹ حاصل ہو جاتے ہیں تو پھر آئین کے آرٹیکل ایک‘ چار اور سات میں ترامیم کرانے کیلئے دو تہائی حمایت حاصل کرنا لازمی ہوگا جو موجودہ بحرانی صورتحال میں ناممکن نظر آتا ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی 1973ء کے آئین کی بانی ہونے کی حیثیت سے اپنے مرحوم قائد ذوالفقار علی بھٹو کی پالیسی سے انحراف نہیں کرے گی۔ اب دیکھئے پارلیمانی اور صدارتی نظاموں کے بارے میں جاری بحث کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ اگر صدارتی نظام لانے کا فیصلہ کر لیا گیا تو صدر مملکت کو خاصے اختیارات مل جائیں گے جن میں بیڈ گورننس‘ معاشی بحران‘ امن و امان کی صورتحال اور اندرونی اور بیرونی خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی اسمبلی اور حکومت کو تحلیل کرنے کے اختیارات بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ اس شق کی بحالی سے صدر مملکت کو حکومتی کارکردگی پر گہری نظر رکھنے کے آئینی‘ قانونی اختیارات حاصل ہو جائیں گے۔ اسی طرح چیف جسٹس آف پاکستان اور عسکری قیادت کے سربراہان کے تقرر کے لیے بھی صدر مملکت بااختیار ہو جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں