"KDC" (space) message & send to 7575

سندھ میں حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے

سندھ میں نیا بلدیاتی قانون سید مراد علی شاہ کی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے ساتھ تصادم کے نتیجے میں صوبائی حکومت خطرے کی زد میں نظر آتی ہے۔ ایم کیو ایم اپنی بقا کی خاطر اور آئندہ بلدیاتی انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے اب بھی کراچی میں روزمرہ کی سرگرمیوں کو مفلوج کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جبکہ جماعت اسلامی کے کارکنوں نے بھی بلدیاتی قانون کے خلاف سندھ اسمبلی کے سامنے 29 روز دھرنا دیا۔ دو روز پہلے جماعت اسلامی اور سندھ حکومت کے مابین مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد جماعت اسلامی نے یہ دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا۔
سندھ کے بلدیاتی قانون کو تمام اپوزیشن جماعتوںنے مسترد کیا ہے۔ بادی النظر میں یہ قانون آئین کے آرٹیکل (A) 140 سے متصادم ہے اور بلدیاتی اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ اس قانون کے ذریعے صوبائی حکومت نے تمام اہم ادارے اپنی تحویل میں رکھ کر آئین کے آرٹیکل (A) 140 کی خلاف ورزی کی۔ اسلام آباد میں یورپی یونین کے حلقے بھی سندھ کے بلدیاتی قوانین پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اگر متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کارکن اور اس کے صوبائی اسمبلی کے ارکان وزیر اعلیٰ ہاؤس پہنچ جاتے تو کیا ہو جانا تھا؟ وزیر اعلیٰ ہائوس ایسی جگہ نہیں کہ عوام کی رسائی سے باہر ہو مگر ان پر جو تشدد کرایا گیا وہ کسی طرح بھی مناسب نہ تھا۔ اس طرح کے اقدامات کی سیاسی قیمت بھی ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے بین السطور اگلے تین ماہ کو اہم قرار دیتے ہوئے اشارہ دیا ہے کہ اس دوران بڑا واقعہ پیش آ سکتا ہے۔ میری رائے میں مراد علی شاہ کی حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں۔ اگر سندھ میں ہنگامے‘ احتجاج‘ سندھ اسمبلی میں ہلڑ بازی اور پہیہ جام ہڑتالوں کا سلسلہ جاری رہا تو وفاقی حکومت آئین کے آرٹیکل 145 کے تحت سندھ میں گورنر راج نافذ کرتے ہوئے صوبے پیپلز پارٹی کی حکومت معطل کر سکتی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 145 کی تشریح وفاقی وزیر قانون پہلے ہی کر چکے ہیں۔ آئین کے اس آرٹیکل کے تحت صدرِ مملکت کو اختیار ہے کہ صوبے کی بگڑتی صورتحال کو دیکھتے ہوئے گورنر کو صوبہ کے انتظامی اختیارات سنبھالنے کا حکم دے سکتے ہیں۔ مجھے نظر آ رہا ہے کہ سندھ میں 27 فروری سے پہلے گورنر راج نافذ ہو سکتا ہے۔ گزشتہ دنوں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے ساتھ بلاوجہ محاذ آرائی کرکے مراد علی شاہ نے سندھ میں گورنر راج آئین کے آرٹیکل 145 کے تحت نافذ کرنے کی راہ ہموار کر دی ہے۔ مزید برآں سندھ حکومت گڈ گورننس قائم کرنے میں کامیاب نظر نہیں آتی۔ کرپشن‘ معمولی اہل کاروں کے گھروں سے کروڑوں روپوں کی برآمدگی‘ نام نہاد اشرافیہ کے مجرموں کو تحفظ دینا‘ سندھ کے پانچ ہزار سے زائد سکولوں کا بند کر دیا جانا اور آئے دن مختلف اداروں کے ملازمین کا وزیراعلیٰ ہاؤس کو گھیرے میں لینا صوبائی حکومت کی ناقص کارکردگی کو ظاہر کرتا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ ان معاملات کو سلجھانے میں کامیاب نہیں ہو رہے اور بلاول بھٹو زرداری جو قومی سطح کے لیڈر کے طور پر اپنی شناخت بنانے کی کوشش کر رہے ہیں سید مراد علی شاہ کی حکومت کی کارکردگی پر کوئی توجہ نہیں دے رہے۔ بلاول بھٹو زرداری پنجاب کے ووٹروں میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے دن رات کوشش کررہے ہیں مگر سندھ ان کی توجہ سے محروم ہے۔
اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات مارچ میں اور پنجاب کے مئی میں متوقع ہیں‘ لیکن اپوزیشن جماعتیں بلدیاتی انتخابات کے لیے ہوم ورک نہیں کر رہیں اور ان کے پالیسی ساز اور اہم رہنما آئے دن بھاشن دے کر چلے جاتے ہیں جس سے عوام کو ریلیف نہیں مل رہا بلکہ ان کے بھاشنوں سے حکومت مضبوط ہوتی نظر آ رہی ہے۔ دوسری جانب شیخ رشید صاحب کی منطق بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ عسکری قیادت وزیراعظم عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے۔ آئینی و قانونی طور پر عسکری قیادت ہمیشہ جمہوری حکومتوں کے ساتھ آئین کے آرٹیکل پانچ کی دفعہ دو کے تحت کھڑی ہوئی نظر آتی ہے بشرطیکہ حکومت 12 اکتوبر 99ء کی طرز پرکوئی بڑی غلطی نہ کر بیٹھے۔ اس طرح شوکت ترین کی معاشی فلاسفی سے بھی وزیراعظم عمران خان عوام سے دور ہو رہے ہیں۔ ان کی تمام پالیسیاں حکومت کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین نے بھی وزیر اعظم کو اپنے مشیروں سے محتاط رہنے کا مشورہ دیا ہے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں یہ صائب مشورہ ہے۔ انہی مشیروں کی وجہ سے وزیر اعظم اپنے ساڑھے تین سال کے دور میں عوام کی نظروں میں وہ مقام حاصل نہ کر سکے جس کی توقع حکومت نے 2018ء کے انتخابات میں کی تھی۔
اپوزیشن حقیقی معنوں میں جولائی 2018ء کے نتائج کو قبول کر چکی تھی لیکن حکومت کے مشیروں کی کارکردگی نے وزیر اعظم کو دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا۔ وزیر اعظم کی خوش قسمتی ہے کہ اپوزیشن ان کے دورِ حکومت میں اپوزیشن منتشر رہی‘ کسی ایک نکتے پر جمع نہ ہو سکی‘ نہ عوام کو متحرک کر سکی اور نہ ہی وزیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے میں کامیاب ہو سکی۔ اپوزیشن اپنی ناکام حکمت عملی کو ''اشاروں‘‘ سے منسوب کرکے پسپائی اختیار کرتی رہی ہیں۔ قوم کی نظریں اب 27 فروری اور 23 مارچ کے احتجاجی لانگ مارچ پر لگی ہیں ۔ بظاہرامکان یہی ہے کہ اپوزیشن کا جو رنگ تین‘ ساڑھے تین سال سے دیکھنے میں آ رہا ہے وہ اسی کو برقرار رکھے گی۔ ان حالات میں وزیراعظم ملکی مفادات میں انتخابی و عدالتی اصلاحات اور الیکشن کمیشن کے دو ارکان کے تقرر کے لیے سنجیدہ گفتگو کرنا چاہتے ہیں تو قومی اسمبلی کے سپیکر اور چیئرمین سینیٹ کی وساطت سے زیتون کی شاخ بڑھا سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ غیر منتخب مشیروں سے محتاط رہنا ہو گا کیونکہ ان کا مطمح نظر ہی وزیراعظم کو سب سے دور کرنا ہے۔ انہوں نے منتخب ارکان اسمبلی کے لیے وزیر اعظم کے دروازے بند کروا دیے ہیں۔
الیکشن کمیشن اسلام آباد‘ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بلدیاتی اداروں کے انتخابات کی تیاری میں مصروف ہے اور مئی جون تک ہر دو صوبوں اور اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات مکمل ہو جائیں گے اور ان انتخابات کے نتائج کو دیکھ کر مستقبل کے قومی انتخابات کے بارے میں صحیح رائے قائم کی جا سکے گی۔ اس دوران الیکشن کمیشن نے فارن فنڈنگ کیس کے بارے میں اپنا تاریخی فیصلہ بھی سنانا ہے اور جن جماعتوں کے فنڈنگ کے معاملات الیکشن کمیشن میں جانچ پڑتال کے مراحل سے گزر رہے ہیں اس پر بھی فیصلہ آ جانا چاہیے۔ فارن فنڈنگ کیس کا معاملہ جوں جوں آگے بڑھے گا نئے حقائق سامنے آتے جائیں گے اور صحیح حقیقت کھل کر سامنے آ جائے گی۔ جہاں تک ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کا تعلق ہے وہ ایک تحقیقی رپورٹ ہے جس سے حکومت کی کارکردگی کا اندازہ لگانا مناسب نہیں؛ البتہ اس رپورٹ کی روشنی میں حکومت کو اپنے اداروں کی کارکردگی کا نوٹس لینا اور خرابیوں‘ کرپشن‘ بدعنوانی اور مالی بے قاعدگیوں پر گرفت کرنے کے لیے پاکستان کے آڈٹ جنرل کی سربراہی میں کمیشن مقرر کرنا چاہیے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کی بنیاد پر بدعنوان عمال کے خلاف قومی احتساب بیورو کے ذریعے مقدمات درج کرائے جانے چاہئیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں