"KDC" (space) message & send to 7575

سٹیٹ بینک ترمیمی بل کی منظوری

سوال یہ ہے کہ سٹیٹ بینک ترمیمی بل کی مخالفت کے حوالے سے اپوزیشن کے ارکان مسلسل بلند بانگ دعوے اورملکی معیشت آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھے جانے کے تناظر میں پاکستان کی سلامتی کے بارے خدشات کا اظہار کر رہے تھے تو پھر قومی اسمبلی کے ایوان میں اس ترمیمی بل کی منظوری کے موقع پر اپوزیشن کے 12 ارکان اور سینیٹ میں اسی مرحلے کے دوران آٹھ ارکان کیوں غیر حاضر تھے ؟ عام تاثر یہ ہے کہ یہ غیر حاضری بین الاقوامی اداروں کے دباؤ کے نتیجے میں تھی۔ اپوزیشن نے اپنے ارکان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 63 (1) کے تحت نااہلی کا ریفرنس بھی سپیکر قومی اسمبلی یا چیئرمین سینیٹ کو نہیں بھجوایا۔
قومی اسمبلی سے ترمیمی بل کی منظوری کے بعد قوم توقع کر رہی تھی کہ سینیٹ میں اس بل پر حکومت کو واضح شکست کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ ایوان بالا میں حزب اختلاف کو عددی اکثریت حاصل ہے‘ مگر یہ توقع ہر گز نہیں تھی کہ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف سید یوسف رضا گیلانی بھی اس اہم اجلاس سے غیر حاضر ہوں گے۔ ایسا کیوں ہوا؟ سید یوسف رضا گیلانی پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے نمائندہ ہیں جس کے چیئرمین آصف علی زرداری ہیں جبکہ بلاول بھٹو زرداری پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہیں‘ جس کی پارلیمنٹ میں کوئی نمائندگی نہیں۔ جمہوری طور پر سید یوسف رضا گیلانی آصف علی زرداری کے تابع ہیں اور انہی سے ہدایات لینے کے پابند بھی۔ اسی طرح مشاہد حسین سید پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نمائندہ نہیں ہیں‘ وہ آزاد حیثیت کے حامل ہیں۔ سینیٹ کے ریکارڈاور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مارچ 2018ء کے نوٹیفکیشن کے مطابق مشاہد حسین سید آزاد حیثیت کے تحت ہی سینیٹر منتخب ہوئے تھے ‘ ان کو صرف پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حمایت حاصل تھی۔ واضح رہے کہ جب چیف جسٹس (اب سابق) ثاقب نثار نے رولنگ دی تھی کہ نواز شریف چونکہ تاحیات نااہل ہیں‘ وہ پارٹی کے صدر نہیں رہے‘ لہٰذا ان کے دستخطوں سے سینیٹ کے جن امیدواروں کو نامزد کیا گیا تھا وہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 204 کے تحت ایسا کرنے کے مجاز نہیں ہیں‘ لیکن اُس وقت چونکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے کاغذات نامزدگی منظور ہو چکے تھے؛ چنانچہ نظریہ ضرورت کے تحت اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر سردار رضا نے ان تمام ارکان‘ جو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نامزد امیدوار تھے ‘ کی خواہش پر ان کو آزاد حیثیت سے انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دی تھی۔اسی نظریے کے تحت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پانچ کے لگ بھگ امیدوار سینیٹر منتخب ہو گئے تھے جن کی حیثیت آزاد ہی تصور کی گئی۔ بعد ازاں سینیٹر ہارون اختر اور سعدیہ عباسی کی سینیٹر شپ دہری شہریت پر کالعدم قرار دے دی گئی اور ان کی جگہ تحریک انصاف کے ارکان کامیاب ہو گئے جن میں ولید اقبال بھی شامل ہیں اور خواتین میں شاید عندلیب عباس کو منتخب کرایا گیا تھا۔
سینیٹ میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ترمیمی بل کی منظوری کی راہ جن ارکانِ سینیٹ نے ہموار کی انہوں نے یکم جولائی 1948ء کو سٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے وقت قائداعظم محمد علی جناح کے قوم سے خطاب کو نظر انداز کر دیا‘ جس میں بابائے قوم نے فرمایا تھا کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان معاشی معاملات میں ریاستِ پاکستان کی سلامتی کی علامت ہے۔ میری سوچ یہ ہے کہ ارکان‘ خواہ ان کا کسی بھی گروپ سے تعلق ہو‘کو زیب نہیں دیتا تھا کہ وہ قائداعظم کے فرمان کے برعکس سٹیٹ بینک آف پاکستان کو آئی ایم ایف کا ذیلی ادارہ بنانے میں ملک کے مفادات کو پس پشت ڈالتے۔ اس دوران سلام آباد کے اہم حلقوں میں یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ آصف علی زرداری نے جنوبی پنجاب کے طاقتور سیاسی رہنماؤں کی وساطت سے مقتدرہ سے معاملات طے کر لیے ہیں۔ چونکہ مسلم لیگ (ن) اندرونی طور پر منقسم ہے؛ چنانچہ آئندہ لاہور کے میئر شپ کی سیٹ پر بھی ممکن ہے کہ تحریک انصاف اپنا بندہ لانے میں کامیاب ہو جائے۔ پنجاب کے دوسرے اضلاع میں بھی مسلم لیگ (ن) کمزور ہو چکی ہے اور پیپلز پارٹی اس خلا سے فائدہ اٹھانے کیلئے پر تول رہی ہے ۔اس پس منظر میں آئندہ کی قومی سیاست نیا رُخ اختیار کر سکتی ہے۔
دوسری جانب تحریک انصاف کو فارن فنڈنگ کیس کا ریکارڈ خفیہ رکھنے کی پابندی ختم ہونے کا سیاسی طور پر نقصان پہنچنے کا احتمال ہے جبکہ میرے خیال میں وزیراعظم عمران خان کے قریبی ساتھی اس کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ سفارتی حلقوں کا بھی فارن فنڈنگ کیس پر فوکس ضرور ہوگا ۔ الیکشن کمیشن نے چونکہ ریکارڈ متعلقہ فریقوں کے حوالے کر دیا ہے لہٰذا ہو سکتا ہے کہ سفارتی حلقوں نے یہ مواد حاصل کرکے اپنے اپنے ممالک کورپورٹیں اور اس کیس کے مضمرات پر رائے بھجوا دی ہو۔ سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ سے منسلک تمام ریکارڈ‘ بشمول آٹھ جلدوں میں تحریک انصاف سے متعلق تمام ریکارڈ‘ موجود ہے۔ یہ ریکارڈ سٹیٹ بینک نے الیکشن کمیشن کے حکم پر ملک بھر کے مالیاتی اداروں اور بینکوں سے جمع کیا تھا ۔ اس سے تحریک انصاف کے بینک بیلنس‘رقوم کی آمد اور اخراج کی مصدقہ تفصیلات پہلی بار سامنے آئی ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ابھی تحریک انصاف کے کچھ انٹرنیشنل اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی سٹیٹ بینک سے حاصل کرنی ہیں۔ قیاس ہے کہ فارن فنڈنگ کیس کا مقدمہ سست روی سے چلتا ہوا ابھی کافی وقت لے گا لیکن میری رائے میں مقدمے کی سست روی سے تحریک انصاف کو ہی نقصان پہنچے گا اور ان کی خبریں میڈیا کی زینت بنتی رہیں گی۔
ادھرتحریک انصاف کچھ فیصلوں کی زد میں بھی آ رہی ہے۔ میری اطلاع کے مطابق سیرینا قاضی عیسیٰ نظرثانی کیس کے فیصلے میں جسٹس یحییٰ آفریدی کے اضافی نوٹ کی روشنی میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن وزیراعظم پاکستان‘ وفاقی وزیر انصاف و قانون اوروزیر اعظم کے سابق معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کیخلاف سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے کے بارے میں آئینی پہلوؤں پر غور کررہی ہے ۔ ملک کے ممتاز قانون دان اس بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں۔ بعض کا موقف ہے کہ اضافی نوٹ فیصلے کا حصہ نہیں ہوتا‘ مگر اس اہم قانونی نکتے کے بارے میں سپریم کورٹ ہی اپنی رائے دینے کی مجاز ہے‘ البتہ اس طرح کے مقدمات دائر ہونے سے حکومت یقینی طور پر کمزور ہوتی نظر آ رہی ہے۔
ملک کی معاشی صورتحال بھی خطرناک حد تک کمزور ہو رہی ہے۔ معاشی ماہرین کا ماننا ہے کہ تکنیکی طور پر پاکستان معاشی طور پر دیواالیہ ہو چکا ہے ۔ ممتاز معاشی ماہر ڈاکٹر قیصر بنگالی نے تو ایک ٹیلی ویژن ٹاک شو میں علانیہ کہہ دیا تھا کہ پاکستان معاشی طور پر قرضوں کے ایک ایسے جال میں پھنس چکا ہے کہ اب اگر حالات درست نہ کئے گئے تو ایسا وقت بھی آ سکتا ہے کہ معاشی تباہی کے تناظر میں ملک کے اہم اثاثوں پر بھی سوال اٹھائے جا سکتے ہیں۔ہوسکتا ہے کہ ایسا نہ ہو مگرہمیں اس پہلو کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے تاکہ انتہائی صورتحال سے بچاؤ کی حکمت عملی بنانے کے لیے ذہنی طور پر تیار رہا جائے۔ صدر مملکت پر ان حالات میں بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 232 کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک کی پارلیمانی پارٹیوں کو گول میز کانفرنس کی صورت میں مدعو کرتے ہوئے ان کی مشاورت سے معاشی ایمرجنسی کا نفاذ کر کے ملک کو سیاسی اورمعاشی اناپرستی کے بحران سے نکالنے کی آئینی ذمہ داری پوری کریں۔ بہرحال مجھے اُمید ہے کہ سٹیٹ بینک کی ماہر ٹیم ملک کو خطرناک صورتحال سے نکالنے میں کامیاب ہو جائے گی ۔ امید ہے گورنرسٹیٹ بینک پاکستان کے مفادات کو مدنظر رکھیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں