"KDC" (space) message & send to 7575

بلدیاتی انتخابات اور آگے کی حکمت عملی

سیاسی رواداری‘ برداشت اور بقائے باہمی کا جمہوری عمل پاکستان کو آگے بڑھانے کے لیے لازم ہے۔ سیاسی اور نظریاتی اختلافات کے باوجود ہم آہنگی جمہوری عمل کا حصہ ہے۔اب جبکہ آرمی چیف نے بھی عندیہ دے دیا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کا وقت آ گیا ہے تو میرے خیال میں وزیراعظم عمران خان کو اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار کرنا چاہیے۔ انہیں اپنے حالیہ دورہ ٔچین سے بھی ادراک ہو چکا ہوگا کہ عوامی جمہوریہ چین کے صدر شی جن پنگ نے روسی صدرپوتن‘ ازبکستان کے صدر شوکت میرضیایف ‘تاجکستان کے صدر امام علی رحمان‘ قازقستان کے صدر قاسم جمرات توکایف اورترکمانستان کے صدر قربان قلی بردی محمدوف یہاں تک کہ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی سے ملاقات کے بعد وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی تھی اور وزیراعظم کے سرکاری دورے میں شی جن پنگ سے ملاقات کا شیڈول شامل نہیں کیا گیا تھا۔ اس میں پاکستان کی وزارت ِ خارجہ کی عدم دلچسپی صاف نظر آ رہی ہے۔ اطلاع کے مطابق وزارت ِ خارجہ کے حکام نے وزیراعظم عمران خان کے اہم ترین دورۂ چین کے موقع پر انہیں زمینی حقائق کے مطابق بریف بھی نہیں کیا تھا؛ چنانچہ مجھے لگتا ہے کہ دورۂ چین سے واپسی کے بعد اب وزیراعظم کو وزارت ِ خارجہ میں اہم تبدیلی کرنا چاہیے ‘جس طرح وزیراعظم نے ستمبر2020ء میں امریکہ سے واپسی پر امریکہ میں اُس وقت کی پاکستانی سفیر کوبرطرف کر دیا تھا کیونکہ انکی امریکہ اور بالخصوص اقوامِ متحدہ میں کارکردگی نہ ہونے کے برابر تھی۔اسی طرح عوامی جمہوریہ چین میں پاکستان کے سفیر نے بھی وزیراعظم پاکستان کے چین کے دورے کے موقع پر پاکستان کی صحیح معنوں میں نمائندگی نہیں کی۔خارجہ حکمت عملی ہر دور میں حساسیت کی حامل رہی ہے اور آج کی بدلتی دنیا میں زیادہ احتیاط کی متقاضی ہے‘ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سرد جنگ جیسے پولرائزیشن کے ماحول میں بعض ممالک باہمی معاملات کیلئے ہمہ جہت پالیسی اختیار کرتے رہے ہیں کیونکہ قرض‘ امداد اورمشترکہ مقاصد کے لیے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔
عوامی جمہوریہ چین سے پاکستان کے تعلقات 1949ء سے چلے آ رہے ہیں ۔ پاکستان 1947ء میں قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں آزاد ہوا جبکہ چین 1949ء میں چیئرمین مائوزے تنگ کی قیادت میں اور اُن کے لانگ مارچ کے ثمرات کے نتیجے میں آزاد ہوا۔ 1949ء میں چین کی آزادی کے ساتھ ہی پاکستان اور چین کے تعلقات بہتری کی طرف گامزن ہونا شروع ہو گئے تھے۔ پاکستان نے چین کی آزادی کو جلد ہی تسلیم کر لیا اورغیر کمیونسٹ ملکوں میں پاکستان پہلا ملک تھا جس نے چین کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے۔ یہ پاکستان اور چین کی دوستی کا نقطۂ آغاز تھا یا اسے اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ پاکستان اور چین کی دوستی کی ابتدا تھی۔ 1962ء میں چین اور بھارت کے سرحدی تنازع کا آغاز ہوا‘ دونوں ملکوں کی فوجیں آمنے سامنے آ کھڑی ہوئیں اور سرحدی جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ اُس وقت چین عالمی برادری سے کٹا ہوا تھا لیکن پاکستان نے اس موقع پر بھی چین کا بھرپور ساتھ دیا جس کی وجہ سے چین کی نظر میں پاکستان کا وقار مزید بلند ہوا اور پاکستان اور چین کے تعلقات زیادہ بہتری کی طرف گامزن ہوئے اور دونوں ملکوں کے تعلقات مضبوط رشتے میں بندھنا شروع ہو گئے۔ پاکستان اور چین نے اپنے سرحدی مسائل احسن طریقے سے حل کرلیے جو کہ پاکستان اور چین کی دوستی کا کامیابی کی طرف سفر کا اہم سنگ میل تھا۔ستمبر1965ء میں پاک بھارت جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ میں چین نے پاکستان کا ہر طرح ساتھ دیا اور پاکستان کی بھرپور مدد کی۔اس جنگ میں چین نے پاکستان کی حمایت میں جو کردار ادا کیا وہ مثالی تھا‘ یوں پاکستان اور چین کی دوستی ایک مثالی دوستی میں تبدیل ہو گئی۔ستمبر 1965ء کی جنگ کے دوران فیلڈ مارشل ایوب خان نے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور ایئر مارشل اصغر خان کے ہمراہ چین کا دورہ کیا اور اس ملاقات کے نتیجے میں ہی بھارت نے 15 ستمبر 1965ء کو اقوامِ متحدہ سے جنگ بندی کی اپیل کی۔گویا بھارت نے اپنی شکست کو تسلیم کر لیا اور یہ پاکستان کی عظیم سفارتی فتح تھی جو صدر ایوب خان اور چین کے مردِ آہن ماؤزے تنگ کی ملاقات کا نتیجہ تھا۔1971ء کے نازک اور مشکل مرحلے میں چین نے ایک بار پھر اپنی دوستی کا حق ادا کیا اور پاکستان کی بھرپور مدد کی جس کی وجہ سے پاکستان اور چین ایک دوسرے کے اور قریب آ گئے۔تعلقات کا جو سلسلہ دونوں ممالک کے قیام کے ساتھ شروع ہوا وہ بدستور جاری ہے اور اس میں روز افزوں ترقی ہورہی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے چین کا حالیہ دورہ ان حالات میں کیا جب ملک شدید مالی بحران کا سامنا کر رہا ہے اور آئی ایم ایف سے ناقابلِ برداشت شرائط پر قرض لینا پڑا ہے تا کہ مالی توازن قائم کیا جاسکے ؛چنانچہ اس پہلو کو وزیر اعظم کے دورے میں بطور ِخاص دیکھاجارہا تھا۔چاہیے تو یہ تھا کہ پاکستانی وفد اس موقع کو سنجیدگی سے لیتا مگر کیا کہیں کہ وزیر اعظم کے ہمراہی وزرا کو چین میں بھی اپوزیشن کی فکر دامن گیر تھی۔ یہ شاید واحد سربراہ حکومت کے اعلیٰ سطحی دورے کے شرکا تھے جو مہمان ملک میں بھی اپنی سیاست چمکاتے رہے اوراہم مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کر پاکستان میں اپوزیشن کی ملاقات پر تبصرے کرتے نظر آ ئے۔دوسری جانب وزیر خزانہ شوکت ترین برملا کہہ رہے تھے کہ چین سے مالی مدد مانگیں گے تو آئی ایم ایف پروگرام کی ضرورت نہیں رہے گی۔ وزیر خزانہ کی گفتگو سے یوں لگتا ہے کہ کچھ وزرا میں سوجھ بوجھ کا فقدان ہے۔ اسی پس منظر میں وزیراعظم کو دورۂ چین سے واپسی پر اپنی وزرا کی ٹیم سے جواب طلب کرنا چاہیے۔اگر ہو سکے تو ناقص کارکردگی کے حامل وزرا کو تبدیل کر کے‘ آئندہ بلدیاتی الیکشن اور عام انتخابات کی تیاری کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسے وزرا کی ٹیم تشکیل دی جائے جن کا عوام کے ساتھ تعلق ہو۔
اب کچھ ذکر ان انتخابات کا جن پر عوام کی گہری نظر ہے اور لوگ بے طرح اپنے حق رائے دہی کے منتظر ہیں مگر بلدیاتی انتخابات ہیں کہ آگے ہی بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔صوبہ خیبر پختونخوا میں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو دوسرے مرحلے کے انتخاب کو ملتوی کرنا پڑا‘ اب دوسرے مرحلے کے انتخابات مئی میں ہوں گے۔اسی طرح پنجاب کے لوکل گورنمنٹ کے انتخابات بھی دو مراحل میں کروانے کی حکمت عملی ہے اور پنجاب حکومت نے پہلے مرحلے میں جنوبی پنجاب کے ساتھ گوجرانوالہ اورجہلم میں انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان علاقوں میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج آنے پر ہی لاہور کے میئر شپ کا انتخاب کروایا جائے گا۔ اگر ان علاقوں میں تحریک انصاف کو کامیابی مل جاتی ہے تو پھر خیال کیا جاسکتا ہے کہ لاہور کا میئر بھی تحریک انصاف سے ہی ہو گا۔ بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے ہی قومی انتخابات اکتوبر 2023ء کے بارے میں صحیح صورتحال سامنے آ سکے گی۔
دوسری جانب اسلام آباد کے حلقوں میں یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ اگر تحریک انصاف خیبر پختونخوا اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات میں خاطر خواہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی تو وزیر اعظم مستعفی ہونے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں؛ تاہم وہ اقتدار کے کسی اور ستون کے طور پر پھر آگے آ سکتے ہیں۔ یوں خان صاحب کے دو خواب پورے ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں‘ یعنی وزیر اعظم پاکستان اور بعد ازاں پانچ سال کے لیے کسی اور اعلیٰ عہدے پر خدمات کی انجام دہی۔ ایسی صورت میں ممکن ہے اکتوبر 2023ء کے انتخابات ان کی نگرانی میں ہی ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں