"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کمیشن کا اہم فیصلہ اور اس کے سیاسی اثرات

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل واوڈا کو آئین کے آرٹیکل(1) 62 ایف اور (1)63 سی کے تحت تاحیات نااہل قرار دے دیاہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ فیصل واوڈا نے دہری شہریت کے متعلق جھوٹا حلف نامہ جمع کرایا‘ جرم چھپانے کیلئے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دیا‘ امریکی شہریت چھوڑنے کی تاریخ نہیں بتائی‘ جائیدادوں کی خریداری کے ذرائع چھپائے‘ منی ٹریل دی نہ ٹیکس۔ اس فیصلے میں مزید ہدایت دیتے ہوئے قومی اسمبلی کے سیکرٹری کو احکامات دیے گئے ہیں کہ فیصل واوڈا سے تمام مالی فوائد اور مراعات واپس حاصل کئے جائیں اور دو ماہ کے بعد الیکشن کمیشن کو عملدرآمد کی رپورٹ پیش کی جائے۔
فیصل واوڈا کو اپیل کا حق ہے اور ان کی اپیل کے دوران مزید حقائق سامنے آئیں گے؛ تاہم قارئین اور دیگر سٹیک ہولڈرز کی آگاہی کے لیے میں آئین کے آرٹیکل (1) 62 ایف اور متعلقہ شقوں کے متعلق تحریر کر رہا ہوں۔ آئین کا آرٹیکل 62 پارلیمنٹ کے اراکین کی اہلیت سے متعلق ہے جس کی مختلف شقیں ہیں۔ آرٹیکل 62 کہتا ہے کہ کسی امیدوار کے پارلیمنٹ کا رکن ہونے کے لیے ان شقوں پر پورا اترنا ضروری ہے جو یہ ہیں: (ڈی) کوئی ایسا شخص پارلیمنٹ کا رکن بننے کا اہل نہیں جو پاکستان کا شہری نہ ہو۔ اسی طرح آرٹیکل (ای) کہتا ہے کہ ایسا شخص اچھے کردار کا حامل ہو اور اسلامی احکامات سے انحراف کے لیے مشہور نہ ہو۔ آرٹیکل میں لکھا ہے کہ ایسا شخص اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہو اور اسلام کے منشور کردہ فرائض کا پابند ہو نیز گناہِ کبیرہ سے اجتناب کرتا ہو۔ آئین کا آرٹیکل (1)62 ایف کہتا ہے کہ پارلیمنٹ کا رکن بننے کا خواہش مند شخص سمجھ دار ہو‘ پارسا‘ ایماندار ہو اور کسی عدالت کا فیصلہ اس کے خلاف نہ ہو۔ نیز ایسے شخص نے پاکستان بننے کے بعد ملک کی سالمیت کے خلاف کوئی کام نہ کیا ہو اور نظریہ پاکستان کی مخالفت نہ کی ہو۔
آئین کا آرٹیکل (1)62 آٹھویں ترمیم کا حصہ ہے جسے جنرل ضیاالحق نے مارچ 1978ء میں مارشل لاء آرڈر کے ذریعے عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 99 میں ترمیم کرکے شامل کروایا اور بعد ازاں آٹھویں ترمیم کے ذریعے اسے دستورِ پاکستان کا حصہ بنا دیا گیا۔ نومبر 1984ء میں ریفرنڈم سے پہلے بھی اسی قسم کی ترامیم کرا کے پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے دشواریاں کھڑی کی گئی تھیں۔ چونکہ عمومی تاثر یہی پایا جاتا تھا کہ پیپلز پارٹی کے ارکان اسلامی شعائر سے زیادہ واقف نہیں‘ لہٰذا آئین کے آرٹیکل (1)62 میں ترامیم کرا کے اس آرٹیکل کو آئین کے آرٹیکل 2 (اے) کو مدنظر رکھتے ہوئے‘ جو قراردادِ مقاصد سے منسوب ہے‘ امیدواروں پر لازمی قرار دیا گیا کہ وہ صادق اور امین ہوں۔ آئین کے آرٹیکل (1)62 ایف کے تحت نواز شریف اور جہانگیر ترین کو بھی حقائق چھپانے کے جرم میں تاحیات نااہل قرار دیا گیا تھا۔
فیصل واوڈا کی نااہلیت کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل دائر کی جائے گی تو معزز عدالت عظمیٰ اس اہم کیس کے بارے میں جو فیصلہ دے گی اس سے آئندہ کے لیے آئین کے آرٹیکل (1)62 کی تشریح ہو جائے گی۔ اسی پس منظر میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت اپیل دائر کر رکھی ہے اور رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے بعد اب چیف جسٹس آف پاکستان کے چیمبر میں اس اپیل کی سماعت کے بارے میں فیصلہ ہونا باقی ہے۔ میری رائے کے مطابق یہ اپیل پانچ رکنی بینچ میں پیش کی جانی چاہیے۔
دوسری جانب متحدہ اپوزیشن وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے 2020ء سے کوشاں ہے لیکن عمومی حالات اس کیلئے موافق نہیں ہیں کیونکہ حکومت کے اتحادی ناقص پالیسیوں کے باوجود وزیر اعظم ان کے ساتھ کھڑے ہیں‘ اور ان کے مفادات تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اب چونکہ 2023ء کے انتخابات قریب ہیں اور لوکل گورنمنٹ کے انتخابات بھی اسی سال منعقد ہورہے ہیں‘ لہٰذا حکمران جماعت کے اتحادیوں کو اپنے مستقبل کی فکر ہے اور اس ضمن میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی اعلیٰ قیادت بھی اتحادیوں سے مشاورت کررہی ہے اور سابق صدر آصف علی زرداری حکومت کے اہم اتحادی پاکستان مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین سے بھی مل چکے ہیں۔ چونکہ چوہدری پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی کے سپیکر ہیں اور ان کی خواہش کے مطابق غیر علانیہ طور پر پنجاب کے اہم اضلاع میں انہیں کچھ چھوٹ دی گئی ہے تو میرا خیال ہے کہ آصف علی زرداری‘ مولانا فضل الرحمن اور میاں شہباز شریف چوہدری برادران کو قائل کرنے میں ناکام رہیں گے۔ اسی طرح متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور پیر پگاڑا کی جماعت کو وفاق میں اہم پوزیشن حاصل ہے اور وہ تحریک انصاف کے ساتھ اپنے اتحاد کو برقرار رکھیں گی۔
وزیر اعظم عمران خان کو اپوزیشن سے خطرہ نہیں ہے لیکن اندرونی طور پر تحریک انصاف کے قدآور وزرا کارکردگی جانچنے کے طریقہ کار پر تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی ارباب شہزاد کی سربراہی میں کمیٹی نے جن وزرا کو کارکردگی پر ایوارڈ دیے ان کی پالیسی سے شاہ محمود قریشی‘ پرویز خٹک اور حماد اظہر کی دل آزاری ہوئی ہے اور ان کو نظرانداز کرنے سے ان کی شخصیات پر گہرا اثر پڑا ہے۔ جہاں تک فواد چوہدری کا تعلق ہے انہوں نے اس معاملے سے اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھا ہوا ہے۔ جن وزرا کو نظرانداز کیا گیا ہے ان کے اُترے چہرے دیکھ کر آئندہ کے حالات کا ادراک ہو سکتا ہے۔ میرے خیال میں وزیراعظم کو ایوارڈ دینے کے معاملے کا حصہ نہیں بننا چاہیے تھا۔ وزرا کی کارکردگی کا جائزہ اِن کیمرا کیبنٹ میٹنگ میں ہونا چاہیے تھا۔ جن وزرا کو اعلیٰ کارکردگی پر ایوارڈ سے نوازا گیا ہے ان میں بعض وزرا کی کارکردگی صفر کے برابر رہی ہے۔ وزیراعظم کو آزاد ذرائع سے ان کی کارکردگی کے بارے میں رائے حاصل کرنی چاہے تھی۔ موجودہ حالات میں وزیراعظم اپنے ساتھیوں کی ناراضی مول لینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ شاہ محمود قریشی ممکن ہے کہ وزارتِ خارجہ سے مستعفی ہو جائیں کیونکہ وہ اصول پرست سیاستدان ہیں۔ انہوں نے صدر آصف علی زرداری سے بھی اختلاف کرتے ہوئے وزارت خارجہ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اسی طرح پرویز خٹک بھی کابینہ اجلاس اور کور کمیٹی میں کھل کر اظہار کر چکے ہیں کہ وزارتِ عظمیٰ ان کے رحم و کرم پر ہے۔ جہانگیر ترین کے مصاحبوں کی تعداد بھی 20 کے لگ بھگ ہے اور آزاد امیدوار جنہوں نے مخصوص حالات میں پانچ اگست 2018ء کو تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی‘ بھی اپنی آزاد حیثیت پر واپس آنے کا سوچ رہے ہیں۔ حکومت اپنے ذرائع سے یہ خبریں پھیلا رہی ہے کہ اگر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں ان کی پارٹی کے ارکان نے ان کے خلاف ووٹ دیا تو سپیکر ان کے ووٹ مسترد کر دیں گے۔ ایسا قانونی طور پر بھی ناممکن ہے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 63 (اے) سب سیکشن بی (ii) کے تحت اگر کوئی رکنِ قومی اسمبلی مخالفت میں ووٹ کاسٹ کرتا ہے تو اس کے خلاف پارلیمانی لیڈر کی سفارش پر سپیکر قومی اسمبلی الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھجوانے کا پابند ہے۔ الیکشن کمیشن نے اس ریفرنس پر نوے روز کے اندر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ اب اگر وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں اُن کی پارٹی کے ارکان ان کے خلاف ووٹ دیتے ہیں تو ان کی حیثیت کا تعین الیکشن کمیشن نے کرنا ہے۔ اس میں سپیکر کا کوئی کردار نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں