"KDC" (space) message & send to 7575

تحریکِ عدم اعتماد کے پسِ پردہ عوامل

وزیر اعظم عمران خان نے اہم قومی مسائل پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے 18ویں آئینی ترمیم پر عدم اعتماد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ترمیم کے نتیجے میں حکومت کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ملک میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ وزیر اعظم نے تحریک انصاف کے منشور پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجوہات بتاتے ہوئے 18ویں ترمیم کو ہی رکاوٹ قرار دیا اور کہا کہ ملک کو جو شدید بحرانی کیفیت کا سامنا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت میں اصلاحات اور قانونی بل منظور کرانے کے لیے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت ضروری ہوتی ہے۔ وزیر اعظم نے بین السطور اپنی حکومت کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے 18ویں ترمیم کا سہارا لیا ہے‘ لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب 25 جولائی 2018ء کے انتخابات کے بعد حکومت سازی کا مرحلہ درپیش تھا تو کیا ان کو ادراک نہیں تھا کہ ان کی جماعت نے انتخابات میں قومی اسمبلی کی 115 کے لگ بھگ نشستیں حاصل کی ہیں‘ اور بعد ازاں آزاد امیدواروں نے الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت اپنی پسند کی جماعتوں میں شمولیت اختیار کی جس کے نتیجے میں تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں (بشمول خواتین کی مخصوص نشستوں کے) 160 کے لگ بھگ نشستیں حاصل ہو سکیں اور پاکستان مسلم لیگ (ق)‘ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان‘ بلوچستان نیشنل پارٹی (اختر مینگل) بلوچستان عوامی پارٹی‘ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس‘ جمہوری وطن پارٹی اور عوامی مسلم لیگ نے اپنی حمایت و تائید سے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو وزیر اعظم کے منصب تک پہنچایا اور اس حمایت کے نتیجے میں ہی قومی اسمبلی میں ان کو اعتماد کے 180 ووٹ ملے۔ اس طرح آٹھ ووٹوں کی اکثریت سے ہی وزیر اعظم عمران خان 18 اگست 2018ء سے اب تک حکومت کر رہے ہیں۔
میرے خیال میں عمران خان صاحب کو 18 اگست 2018ء کو وزارت عظمیٰ کا حلف لیتے ہوئے احساس ہونا چاہیے تھا کہ ان کی پارٹی کو اتحادیوں کے ووٹوں کے باوجود قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت ہی حاصل ہے اور سینیٹ میں اپوزیشن کا تسلط ہے یعنی اپوزیشن کے ارکان زیادہ ہیں‘ لہٰذا انہیں حکومت کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ میری سوچ تو یہ کہتی ہے کہ انہیں دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت سازی کا حصہ نہیں بننا چاہیے تھا اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین‘ پاکستان مسلم لیگ (ن)‘ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور دیگر آزاد امیدواروںکو حکومت سازی کی پیش کش کر کے مضبوط اپوزیشن کی بنیاد کھڑی کرنی چاہیے تھی۔ بعد ازاں کسی معاملے پر وہ حکومت اگر تحلیل ہو جاتی تو عمران خان اپنے حامیوں میں اضافہ کر کے دو تہائی اکثریت سے حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتے اور اپنی مرضی کی قانون سازی کرتے۔ جہاں تک 18ویں ترمیم کے مضمرات کا تعلق ہے تو ملک کے کچھ دانشور حلقوں کی شروع ہی سے یہ رائے تھی کہ اس ترمیم سے ملک میں فیڈریشن سے کنفیڈریشن کے لیے راہ ہموار کی گئی‘ لہٰذا میری دانست میں 18ویں ترمیم کے حوالے سے وزیر اعظم کا موقف موجودہ حالات میں شکست تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ میرا یہ بھی خیال ہے کہ اپوزیشن کے سرکردہ رہنماؤں نے اپنی مخصوص حکمت عملی کے تحت احتساب کے تمام مقدمات کو التوا میں ڈال کر عمران خان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے اور میرا اندازہ ہے کہ اس کے ثمرات آئندہ انتخابات میں اپوزیشن ہی حاصل کرے گی جبکہ بلدیاتی انتخابات میں بھی تحریک انصاف کو خاطر خواہ نتائج حاصل ہونے کے امکانات نہیں ہیں۔ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے نتائج نے اس حوالے سے بہت کچھ واضح کر دیا ہے‘ حکومت پر بھی اور اپوزیشن پر بھی۔
اس ٹھوس حقیقت سے کسی طور انکار ممکن نہیں کہ اصلاحات لانے کے لیے سیاسی ہم آہنگی ضروری ہے جو سیاسی شعبے میں کشیدگی کے موجودہ ماحول میں ممکن نظر نہیں آتی۔ وزیر اعظم عمران خان ان معروضی حالات میں عدم اعتماد کی تحریک کی زد میں ہیں۔ روز خبریں آ رہی ہیں کہ اپوزیشن کے اہم رہنماؤں نے اتحادی گروپس سے رابطے رکھے ہوئے ہیں اور حکومت کو خوش فہمی ہے کہ اتحادی اس کے ساتھ کھڑے ہیں مگر میرا تجزیہ یہ ہے کہ اندرونی طور پر معاملات اپوزیشن کے منصوبے کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں‘ وزیر اعظم عمران خان ہٹانے کا منصوبہ رازداری میں طے کیا جا رہا ہے اور اتحادیوں میں بھی مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ بظاہر اتحادی وزیر اعظم صاحب کو یقین دہانی کرا رہے ہیں لیکن ماضی گواہ ہے کہ جب ہوا کا رُخ تبدیل ہوتا ہے تو سب سے پہلے یہی اتحادی عوامی مفاد کی آڑ لے کر ان کے خلاف صف آرا ہو جائیں گے‘ جو فی الوقت ساتھ رہنے کی یقین دہانیاں کرا رہے ہیں۔
ان سارے حالات و واقعات پر گہری نظر ڈالیں تو تحریک انصاف مجھے اس وقت پاکستان مسلم لیگ کنونشن کا روپ دھارتی محسوس ہوتی ہے‘ جس کے سربراہ فیلڈ مارشل ایوب خان تھے۔ جب تک وہ برسر اقتدار رہے یہ لیگ بھی توانا رہی لیکن جونہی اُن کا اقتدار گردشوں کی زد میں آیا تو ان کی جماعت منتشر ہو گئی اور جب 25 مارچ 1969ء کو صدر ایوب خان اقتدار سے علیحدہ ہوئے تو ان کے تمام ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ چکے تھے۔ میری نظر میں عمران خان سیاست کے رموز سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ میری اطلاعات کے مطابق ان کی جماعت کے ناراض گروپ کی تعداد اتنی بڑھ چکی ہے کہ اب اپوزیشن کو اتحادیوں کے ووٹ حاصل کرنے کی قطعی ضرورت نہیں؛ اگرچہ بظاہر اپوزیشن کو حکومتی اتحادیوں سے گرین سگنل نہیں ملا لیکن اپوزیشن سگنل کے انتظار میں ہے۔ معاملے میں تاخیر اسی بنا پر ہو رہی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی متبادل کوئی قد آور شخصیت نظر نہیں آ رہی جو بیک وقت اپوزیشن اور تحریک انصاف کی اکثریت کے لیے قابلِ قبول ہو۔ ان حالات میں ایک اہم شخصیت کی سربراہ مملکت سے ملاقات اہمیت کی حامل ہے۔ آئین کا آرٹیکل 232 اور 234 بڑی اہمیت کا حامل ہے اور آئینی ماہرین کو آئین کے آرٹیکل 267 اور 268 کے ساتھ ساتھ آرٹیکل)(7)91 پر بھی نظر رکھنا ہو گی۔ ان حالات میں آئندہ چند ہفتے بہت اہم ہیں اور تحریک انصاف کے 30 کے لگ بھگ ناراض ارکان ہی پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کو ملکی تاریخ کو مد نظر رکھتے ہوئے ادراک ہونا چاہیے کہ جو لوگ ان کی شان میں قصیدے پڑھ رہے ہیں ان پر گہری نظر رکھیں‘ کیونکہ اسی طرح کے بلند بانگ دعوے ہوتے مسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے بھی دیکھے اور سنے تھے‘ لیکن جب ان پر برا وقت آیا تو کوئی بھی ان کے ہمراہ موجود نہیں تھا۔ سننے میں آیا ہے کہ وزیر اعظم ماحول کا جائزہ لیتے ہوئے الرٹ ہیں اور انہوں نے اہم معاملات پر صدر مملکت کو اعتماد میں لیا ہے۔ توقع کی جاتی ہے کہ وہ جلد حالات پر قابو پا لیں گے اور وطنِ عزیز میں جمہوریت کا سفر تسلسل کے ساتھ جاری رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں