"KDC" (space) message & send to 7575

تحریکِ عدم اعتماد سے دھرنوں اور مارچوں تک

آج میرے پیشِ نظر متنوع اور متفرق ایشو ہیں۔ سب سے پہلے فیصل واوڈا کیس۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو آئین کے آرٹیکل (1) 63 سی‘ آرٹیکل 62 اے اور آرٹیکل (3) 218 کی روشنی میں مضبوط اور مستحکم بناتے ہوئے فیصل واوڈا کی نااہلی برقرار رکھی‘ فیصلے کے خلاف درخواست مسترد کر دی اور اس درخواست کو ناقابلِ سماعت قرار دے کر خارج کرتے ہوئے فیصلے میں قرار دیا کہ فیصل واوڈا نے امریکی شہریت چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ جمع کرانے سے انکار کیا‘ طویل عرصہ تک الیکشن کمیشن اور عدالت کے سامنے اس معاملے میں تاخیر کا مظاہرہ کرتے رہے‘ اور التوا لیتے رہے‘ الیکشن کمیشن کی تحقیقات اور فیصل واوڈا کے طرزِ عمل سے ثابت ہوا کہ جمع کرایا گیا حلف نامہ جھوٹا تھا‘ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں مداخلت کی کوئی وجہ موجود نہیں۔
اس فیصلے کو سامنے رکھیں تو دھیان فوراً فارن فنڈنگ کیس کی جانب مبذول ہو جاتا ہے۔ فارن فنڈنگ کیس میں تحریک انصاف التوا لیتی رہی۔ علاوہ ازیں تاخیری حربے استعمال کئے گئے اورکورٹس سے سٹے آرڈر لیتے ہوئے معاملے کو سات سال سے مؤخر کیا جا رہا ہے۔ فیصل واوڈا کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ریمارکس بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ الیکشن کمیشن کی تحقیقات اور فیصل واوڈا کے طرزِ عمل کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے‘ اسی پس منظر میں تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس میں سکروٹنی کمیٹی کی تحقیقات‘ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی انکوائری رپورٹ اور خفیہ اکاؤنٹس و ممنوعہ فارن اکاؤنٹس کے حوالہ جات بڑی اہمیت کے حامل معاملات ہیں‘ جن کا سامنا تحریک انصاف کو کرنا پڑ سکتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکومتی وزرا‘ شہزاد اکبر کی طرح‘ اپنی سکورنگ کے لیے وزیر اعظم صاحب کو 'سب اچھا‘ کی رپورٹ پیش کر رہے ہیں۔
اور اب کچھ بات تحریکِ عدم اعتماد پر کہ آج کل ملک میں یہی ہاٹ ایشو ہے۔ اپوزیشن مارچ کے پہلے ہفتے میں تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا عندیہ دے رہی ہے۔ قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کی حقیقی طاقت 155 ارکانِ کی صورت میں موجود ہے اور حکومت کا وجود اتحادیوں کے تعاون کا مرہونِ منت ہے۔ اتحادیوں کے ارکان کی علیحدگی سے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت تحلیل ہو سکتی ہے۔ ان کے ہمراہ چند ارکان‘ جو جہانگیر ترین کے قریبی ساتھی ہیں‘ اور تحریکِ انصاف کے وہ ارکان جو خان صاحب کی حکومت سے نالاں ہیں‘ کے ووٹ بھی تحریک عدم اعتماد میں شامل ہو سکتے ہیں۔ اس طرح اپوزیشن کے ارکان کی تعداد 172 کے لگ بھگ ہو سکتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) فی الحال اقتدار کے مزے لُوٹ رہی ہے‘ مگر میرا تجزیہ یہ ہے کہ اس نے عوامی مزاج اور پاکستان کی سیاست کا گہرا ادراک نہ کیا تو پنجاب میں اس کا مستقبل گہنا سکتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) کی پانچ نشستیں ہیں جو اسے جولائی 2018ء کے الیکشن میں پی ٹی آئی کی مدد سے حاصل ہوئی تھیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) کا جولائی 2018ء کے انتخاب میں بظاہر نام و نشان مٹ چکا تھا مگر عمران خان کا ہاتھ تھام کر انہوں نے یہ نشستیں حاصل کر لیں‘ لیکن میرا مشاہدہ یہ ہے کہ پنجاب کے عوام چوہدری پرویز الٰہی میں چوہدری ظہور الٰہی والی سیاسی دانش دیکھنا چاہتے ہیں۔ اب دیکھیں وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ میرے خیال میں اپوزیشن کو مستحکم اور متحد کرنے کی خود حکومت ذمہ دار ہے۔ وزیر اعظم عمران خان سیاسی فلاسفی اور پولیٹیکل انجینئرنگ سے واقفیت نہیں رکھتے ہیں جبکہ ان کے ارد گرد جن مشیروں کا ہجوم ہے‘ وہ انہیں صحیح گائیڈ نہیں کر رہے۔ اس بے ہنگم پالیسی کی وجہ سے ہی اپوزیشن زندہ رہی اور اس نے اربوں ڈالرز کی کرپشن کے الزامات کے باوجود خود کو لائم لائٹ میں رکھا۔ اگر وزیراعظم اپنی 26 جولائی 2018ء والی تقریر پر قائم رہتے تو اپوزیشن کرپشن کی وجہ سے بکھر جاتی اور عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرتی رہتی لیکن وزیر اعظم‘ ان کے وزرا‘ سیاسی مشیروں اور ترجمانوں نے ملک کی ترقی کے بجائے اپوزیشن کو ہی موضوع بنائے رکھا۔ نتائج قوم کے سامنے ہیں۔
شفاف انتخابات کا معاملہ بھی ان دنوں ایک بار پھر زیرِ بحث ہے۔ میری تجویز یہ ہے کہ شفاف انتخابات‘ آئندہ کی پالیسی‘ الیکشن کمیشن کے معاملات چلانے‘ سیاسی جماعتوں کو مطمئن کرنے اور ملک میں حقیقی جمہوریت لانے کیلئے بنگلہ دیش کی اس پالیسی پر غور کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں جو وہاں 2007ء اور 2008ء میں وہاں اپنائی گئی۔ بنگلہ دیش میں 30 دسمبر 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت نے معاشی اور سیاسی استحکام کے بعد اس فارمولے کو ترک کر دیا تھا‘ لیکن پاکستان سیاسی استحکام لانے کیلئے اس پالیسی پر غور کر سکتا ہے جس کا محور شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات‘ اور الیکشن کے قوانین اور ضابطہ اخلاق پر حقیقی عمل درآمد تھا۔
آخر میں مختصر سی بات محسن بیگ کی گرفتاری کے حوالے سے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ انہیںگرفتار کرنے کے لئے جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ مناسب نہ تھا۔ ان کو ایف آئی اے کے حکام نوٹس بھجوا کر ایف آئی اے کے ہیڈ کوارٹر طلب کر کے حراست میں لے سکتے تھے۔ اس غلطی کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اب اس معاملے کو پولیٹیکل انجینئرنگ کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ وزیر اعظم عمران خان حقیقی معنوں میں اور بجا طور پر دُکھی ہیں کہ ان کی خانگی زندگی میں تلاطم پیدا کرنے کے لیے بلا وجہ ایسی کتاب کا حوالہ دیا جا رہا ہے جو عوام کے ذہنوں سے محو ہو چکی تھی۔ یہ کتاب کن حالات میں اور کیسے شائع ہوئی اس بارے میں میرے پاس بھی کچھ معلومات ہیں۔ جب مجھ جیسا عام شہری اس کتاب کی ترتیب و تدوین کے بارے میں کسی حد تک معلومات رکھتا ہے تو کیا جناب وزیر اعظم‘ ان کے ماتحت ادارے‘ وزرا‘ مشیران کو علم نہیں ہو گا؟ اس معاملے کو اچھالنے والوں کو ادراک ہونا چاہیے کہ مذکورہ کتاب کے مندرجات کس نے تحریر کئے تھے اور یہ کہ یہ مفروضہ‘ اور دشنام طرازی کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ دوسری جانب میرا یہ بھی خیال ہے کہ حکومت کو بھی مراد سعید کی ذاتی حیثیت میں شکایت پر فریق نہیں بننا چاہیے تھا اور ایڈیشنل سیشن جج کے فیصلے کے بارے میں وزیر اعظم اور وفاقی وزرا کو ریمارکس نہیں دینے چاہئیں تھے۔ اٹارنی جنرل کی وساطت سے ایڈیشنل سیشن جج کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا حق بھی مراد سعید کو ہی تھا۔ محسن بیگ اپنے دفاع میں پنڈورا بکس کھولنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان کی گرفتاری نے اپوزیشن کو وزیر اعظم عمران خان پر تنقید کا ایک اور راستہ دکھا دیا اور ریحام خان کی متنازع کتاب کا چرچا ہر جگہ پر ہو رہا ہے۔
بہرحال اس ساری بحث کا مقصد یہ عرض کرنا ہے کہ پاکستان موجودہ حالات میں ہنگامہ آرائی‘ گھیراؤ‘ دھرنوں اور لانگ مارچوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بین الاقوامی طور پر پاکستان اپنے قریبی دوستوں میں اپنا مقام برقرار رکھنے میں ناکام ہو رہا ہے۔ آئندہ انتخابات میں ہنگامہ آرائی کے خدشات بھی ہیں۔ میرے خیال میں سیاسی جماعتوں کے فرمائشی سروے کی رائے کو مکمل طور پر نظر انداز کر دینا چاہیے کہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہوتے ہیں۔ حکومت کو عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام بنانے کے لیے اپنے ساتھیوں پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ اتحادی جماعتوں کے اپنے مفادات ہیں‘ لیکن حکومت کے ناراض ارکان اسمبلی عدم اعتماد کی تحریک میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں