"KDC" (space) message & send to 7575

کیا ضابطہ اخلاق مفلوج ہو چکا؟

الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 181 میں ترمیم کرتے ہوئے انتخابی مہم میں وزیر اعظم، وزرا، قومی و صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان اور لوکل گورنمنٹ کے نمائندگان کو جلسے جلوسوں سے خطاب کرنے اور مہم کا حصہ بنانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ الیکشن شفاف، غیر جانب دارانہ طریقے سے کرانے کے لیے یہ دفعہ بڑی اہمیت کی حامل ہے جس کے ذریعے حکومتی وزرا کے ساتھ منتخب ارکان اسمبلی کے الیکشن مہم میں حصہ لینے کی ممانعت کی گئی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنا آئینی، قانونی موقف اٹارنی جنرل آف پاکستان کو سرکاری طور پر پہنچایا کہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے الیکشن کمیشن کے اختیارات‘ جو اس کو دفعہ 181 اور 233 نے تفویض کیے، معدوم ہو گئے ہیں۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان نے الیکشن کے موقف کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اسے ملکی مفاد میں بہتر قرار دیا۔
میرے علم کے مطابق الیکشن کمیشن الیکشن ایکٹ کی دفعہ 233 کے تحت تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے ضابطہ اخلاق تیار کرنے کا پابند ہے۔ وہ اسی کے تحت میڈیا، پولنگ ایجنٹس، الیکشن ایجنٹس اور سکیورٹی حکام کے لیے بھی ضابطہ اخلاق تیار کرتا ہے۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ مذکورہ آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کر کے الیکشن مہم میں سرکاری وسائل کے استعمال کا دروازے کھول دیا گیا ہے۔ اگرچہ اس ترمیم کے تحت اپوزیشن کے منتخب نمائندگان بھی انتخابی مہم میں حصہ لینے کے مجاز ہوں گے‘ لیکن ووٹرز کو ترغیب دینا، ترقیاتی فنڈز کے اعلانات کرنا تو حکومت اور ریاست کے وسائل استعمال کرنے کے ہی مترادف ہے‘ جس سے اندیشہ ہے کہ الیکشن کی شفافیت پر حرف آئے گا۔ اسی طرح اس حوالے سے مشاورت کرنے والے آئینی و قانونی ماہرین نے آئین کے آرٹیکل 222 کو پیشِ نظر نہیں رکھا جس کے تحت چیف الیکشن کمشنر یا الیکشن کمیشن کے اختیارات پر قدغن لگانے کی اجازت نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی اس حوالے سے فیصلہ اور رولنگ دے رکھی ہے کہ الیکشن کمیشن کے اختیارات کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ بادی النظر میں صدارتی آرڈیننس سے ضابطہ اخلاق میں ترمیم کر کے الیکشن کمیشن کے اختیارات میں مداخلت کی گئی ہے اور اب الیکشن کمیشن نے اپنی خود مختارانہ، غیر جانب دارانہ حیثیت اور اپنے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے آرڈیننس کو تسلیم کرنے یا تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ کرنا ہے، کیونکہ سیاسی جماعتوں کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ وہ اس آرڈیننس کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں اپیل دائر نہیں کریں گی؛ چنانچہ الیکشن کمیشن اس وقت ایک لحاظ سے دوراہے پر کھڑا ہے۔ اب اگر حکومتی وزرا الیکشن مہم میں ریاستی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے ووٹرز کو ترغیب، لالچ اور دیگر کارڈز استعمال، احساس پروگرام کے تحت رقوم کی تقسیم کرتے ہیں تو وہ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعات167 تا 171 کی زد میں آتے ہیں اور الیکشن کمیشن ان دفعات کے تحت کارروائی کرتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو حکومت اور الیکشن کمیشن آمنے سامنے آ جائیں گے‘ اور ملک میں انتخابی بحران پیدا ہو جائے گا کیونکہ الیکشن کمیشن نے آئین کے آرٹیکل 218 کے تحت کرپٹ پریکٹسز کو بھی روکنا ہوتا ہے۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا‘ الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق دفعہ 181 اور 233 کی روشنی میں مرتب کرنا ہوتے ہیں۔ اپوزیشن نے مشترکہ اجلاس کے سیشن میں قوم سے وعدہ کیا تھا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 103 میں ترامیم کے خلاف وہ سپریم کورٹ جائے گی تاکہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بارے میں جو خدشات پائے جاتے ہیں ان کا ازالہ ہو جائے‘ لیکن اپوزیشن نے اعلیٰ عدالت سے رجوع نہیں کیا۔ اس وقت اپوزیشن کی نگاہیں تحریک عدم اعتماد پر لگی ہوئی ہیں اور آرڈیننس‘ جو الیکشن ایکٹ سے متعلق ہے‘ کے خلاف کسی نے اعلیٰ عدالت سے رجوع نہیں کیا۔ نئے پی ای سی اے آرڈیننس 2022 کے سیکشن 20 پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمل درآمد معطل کر دیا۔ ایف آئی اے فی الحال آرڈیننس کے تحت کسی کو گرفتار نہیں کر سکتی اور باقاعدہ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان دلائل دیں گے۔ یہ واضح ہے کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات میں شفافیت کو برقرار رکھنے کے لیے ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کرانے کے سلسلے میں متحرک اور سرگرم کردار ادا کیا‘ انتخابی مہم کے لیے ریاست کے وسائل استعمال کرنے اور انتخابی مہم میں وزرا کی مداخلت روکنے کے لیے ضابطہ اخلاق کی شقوںکو مدنظر رکھا اور اپنے اختیارات کو الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعات 9 اور 10 کے مطابق رکھنے کا بھی اہتمام کیا۔
حکومت اس ترمیم پر شاید اس لیے آگے بڑھی کہ وفاقی اور صوبائی وزرا اور کابینہ کے دیگر ارکان اور پارلیمنٹ کے منتخب نمائندوں کو اجازت دی جا سکے کہ وہ خیبر پختونخوا اور پنجاب کے لوکل الیکشن کے آئندہ انتخابات میں مہم چلا سکیں اور حکمران جماعت کی کامیابی کی راہ ہموار کر سکیں۔ یہ آرڈیننس 120 روز تک قابلِ عمل رہے گا۔ میری نظر میں قلیل مدتی ترامیم کے ذریعے بادی النظر میں حکومتی عہدیداران کو سیاسی مہم چلانے کے لیے قانونی راستہ فراہم کیا گیا ہے۔ ان ترامیم کی مدد سے ارکان پارلیمنٹ، صوبائی اور لوکل گورنمنٹ کے ارکان انتخابی جلسوں میں بلا روک ٹوک جا سکیں گے۔
اب کچھ ذکر تحریکِ عدم اعتماد کا۔ تحریک عدم اعتماد کی لہر نے ملک کے سیاسی منظر کو لپیٹ میں لے رکھا ہے‘ جس کے نتائج اپوزیشن کی توقعات کے برعکس آنے کے امکانات ہیں‘ لیکن اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کے معاملے کو ایسے موڑ پر لے آئی ہے کہ اگر متوقع نتائج نہیں ملتے تو اس کی سیاسی ساکھ تباہ ہو جائے گی۔ قوم اپوزیشن کی حکمت عملی کا منظر 17 نومبر اور 17 دسمبر کو اور اب چند روز پیشتر پارلیمنٹ میں دیکھ چکی ہے جب اپوزیشن کے دو درجن سے زائد ارکان پارلیمنٹ نے غیرحاضری کو ہی فوقیت دی۔ چونکہ وزیر اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کا فیصلہ قومی اسمبلی میں ڈویژن کے ذریعے کیا جائے گا‘ لہٰذا تحریک انصاف کے ناراض ارکان قومی اسمبلی کے لیے بڑا مشکل مرحلہ آئے گا۔ سیاسی حلقوں میں سپیکر قومی اسمبلی کے بارے میں خبریں گردش کر رہی ہیں کہ وہ ناراض ارکان اسمبلی کے ڈویژن کے مرحلہ میں تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ کے استعمال پر پابندی لگا دیں گے۔ اس کا آئین و قانون اور پارلیمنٹ ایکٹ میں ذکر نہیں ہے‘ لیکن جب نومبر 1989ء میں بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی تو حکومتی ارکان‘ جن میں رانا چندر سنگھ بھی شامل تھے‘ نے قومی اسمبلی میں نشست پر براجمان رہنے کو ترجیح دی اور اس طرح ان کا ووٹ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف تصور کیا گیا تھا۔
بہرحال الیکشن کمیشن نے صدارتی آرڈیننس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے سامنے اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے اور چیف الیکشن کمشنر مسٹر سکندر سلطان راجہ الیکشن کمیشن کے دیگر دو معزز ارکان کے فیصلے کی روشنی میں حکومت کو آگاہ کریں گے کہ الیکشن ایکٹ ترمیم میں آئین اور قانون کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 234 کے تحت سیاسی جماعتوں سے بھی مشاورت کی جائے گی اور ضابطہ اخلاق پر نظرِثانی کرانے کے لیے سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کا اجلاس طلب کئے جانے کا امکان ہے۔
میرے خیال میں وزیر اعظم صاحب کے آئینی و قانونی ماہرین نے ضابطہ اخلاق کی دفعہ 183 کی افادیت کا احساس ہی نہیں کیا کہ اس دفعہ میں ترمیم سے ملک 7 مارچ 1977 کے روح فرسا مقام پر پہنچ سکتا ہے‘ جب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ضابطہ اخلاق سے بالاتر ہو کر انتخابی مہم شروع کی تو ملک انتشار کا شکار ہو گیا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں