"KDC" (space) message & send to 7575

تحریک عدم اعتماد: آئینی قواعدوضوابط

تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے نمبر گیم جاری ہے۔ اپوزیشن اور حکومت کی جانب سے متضاد دعوے کئے جا رہے ہیں۔ دونوں جانب ہوم ورک مکمل ہونے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے پس منظر سے وزیر اعظم عمران خان پوری طرح آگاہ نہیں جبکہ ان کے وزرا ان کی طبیعت کو دیکھتے ہوئے بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں۔ دوسری جانب جہانگیر ترین کی لندن میں نواز شریف سے ملاقات کی خبریں بھی سننے میں آئیں اور یہ بھی پتا چلا کہ اس ملاقات میں ہی وزیراعظم عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے سبکدوش کرنے کی منصوبہ بندی ہوئی۔
بلوچستان کے ممتاز سیاستدان سردار یار محمد رند نے اپنے ایک انٹرویو میں خان صاحب کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کسی کی نہیں سنتے اور یہ بھی پسند نہیں کرتے کہ کوئی ان کی مخالفت کرے۔ اسی انٹرویو میں سردار یار محمد رند نے بلوچستان حکومت کے بارے میں بھی کچھ انکشاف بھی کئے‘ جن کے بارے میں فی الحال وثوق کے ساتھ تو کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اگر یہ انکشافات درست ہیں تو اس پر وزیر اعظم کو فوری طور پر ایک با اختیار جے آئی ٹی کی تشکیل دینی چاہیے‘ لیکن چونکہ وزیر اعظم تحریک عدم اعتماد کے گرداب میں گھرے ہوئے ہیں لہٰذا لگتا ہے کہ سردار یار محمد رند کے انکشافات اس عدم اعتماد کی لہر میں کہیں پس منظر میں چلے جائیں گے۔ ان انکشافات کی صحت کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا‘ لیکن اگر یہ درست ہیں تو ایسے معاملات عوام کا پارلیمانی نظامِ حکومت پر سے اعتماد اُٹھ جانے کا سبب بن سکتے ہیں۔
تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت گرانے اور بچانے کے بلند بانگ دعووں کا سلسلہ کئی ہفتے جاری رہا ۔بادی النظر میں یوں محسوس ہوتا تھا کہ تحریک عدم اعتماد ابھی نہیں لائی جا رہی ‘ لیکن جب حتمی فیصلہ ہو جائے گا تو اپوزیشن نے یکے بعد دیگرے عدم اعتماد کی کئی تحریکوں کو آگے بڑھانا ہے۔ یہ سننے میں آیا تھا کہ پہلے مرحلے میں سپیکر قومی اسمبلی اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے گی کیونکہ اس میں خفیہ رازداری سے رائے شماری ہوتی ہے اور جو ارکان اسمبلی سپیکر قومی اسمبلی کے روّیے اور جانب دارانہ طرزِ عمل سے نالاں ہیں وہ ان کے خلاف جائیں گے‘ اور جہانگیر ترین کا گروپ بھی ان کے خلاف ووٹ کاسٹ کرے گا۔ اپوزیشن کا خیال تھا کہ اس مرحلے پر اسے حکومت کے اتحادیوں کے ووٹ حاصل کرنے کی چنداں ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ یہ فارمولا بھی اپوزیشن کے حلقوں میں زیر غور تھا کہ اگر اس گیم میں قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر اپنے اپنے عہدوں سے فارغ ہو جاتے ہیں تو دوسرے مرحلے میں چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے اور چونکہ سینیٹ میں اپوزیشن کو برتری حاصل ہے لہٰذا چیئرمین سینیٹ کو ہٹانا بھی مشکل نہ ہو گا۔ اس طرح وزیر اعظم عمران خان کو تنہا کر کے ان کے خلاف آگے بڑھا جائے۔ لیکن یہ ساری قیاس آرائیاں غلط ثابت ہوئیں اور اپوزیشن نے سیدھا وزیر اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کر دی۔ یقیناً کوئی منصوبہ بندی کی ہی ہو گی‘ جو اتنے اعتماد سے آگے بڑھ رہی ہے۔
جہانگیر ترین دانش ور سیاست دان ہیں۔ ان کی بیوروکریسی اور مقتدر حلقوں میں مثبت اپروچ ہے۔ اب اگر وہ تا حیات نا اہل نہ قرار پا چکے ہوتے تو عمران خان صاحب کا متبادل ہو سکتے تھے۔ جب تک جہانگیر ترین کا اثر رہا، انہوں نے اپنی حکمت عملی سے عمران خان کو گرم ہواؤں سے محفوظ رکھا‘ لیکن اب معاملات اور حالات تبدیل ہو چکے ہیں۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف اب بھی لگتا ہے کہ غصے میں ہیں اور عمران خان کو تنہا کر دینا چاہتے ہیں۔ اس تناظر میں ممکن ہے چند وفاقی وزرا جلد ہی اپنا رُخ تبدیل کر لیں۔
آئینی و قانونی ماہرین کی رہنمائی کے لیے کوئی بھی تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا ایک الگ طریقہ بتانے جا رہا ہوں جو ابھی تک وزیر اعظم کے آئینی و قانونی ماہرین اور اپوزیشن کے سرکردہ رہنماؤں سے اوجھل ہے۔ دستورِ پاکستان‘ جو 14 اگست 1973 کو نافذ کیا گیا تھا‘ کے آرٹیکل 59‘ 59 اے اور 69 کے مطابق وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں ارکان قومی اسمبلی‘ جن کا تعلق حکمران جماعت سے ہو‘ وہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں ووٹ دینے کے مجاز نہیں تھے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کو دس سال کے لیے نااہل قرار دیا جا سکتا تھا۔ اِسی طرح اگر کسی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور نہیں ہوتی تو پھر وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد دوبارہ پیش نہیں کی جا سکتی تھی۔ اِس آرٹیکل کے تحت وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرتے وقت اپوزیشن کو متبادل وزیر اعظم کا نام بھی پیش کرنا ہوتا تھا۔ اِسی طرح اگر کوئی وزیر اعظم اپنے عہدے سے مستعفی ہوتا ہے تو صدر مملکت اس کو اس وقت تک وزیر اعظم کے منصب پر برقرار رکھنے کے مجاز تھے جب تک نیا وزیر اعظم حلف نہیں اُٹھا لیتا۔ یہی طریقہ برطانیہ میں رائج ہے، برطانوی ملکہ جب وزیر اعظم کا استعفیٰ منظور کرتی ہے تو مستعفی وزیر اعظم خود کار طریقے سے اس وقت تک اپنے منصب پر برقرار رہتا ہے جب تک نئے قائد ایوان کا انتخاب نہیں ہو جاتا۔ اِسی طرح پاکستان کے حقیقی دستور میں واضح تھا کہ کسی وزیر اعظم کی اچانک وفات پر کابینہ کے سینئر ترین وزیر کو قائم مقام وزیر اعظم بنایا جا سکتا تھا‘ لیکن جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں آٹھویں ترمیم میں یہ ترمیم کر کے طریقہ کار تبدیل کر دیا گیا۔ دستور کے شیڈول 2 اور رولز 3 میں بھی تبدیلی کر دی گئی جس کے تحت وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی نا منظوری کے بعد جلد ہی پھر وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جا سکتی ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی قید نہیں ہے۔ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں فلور کراسنگ کو آئین کے آرٹیکل 36(1)(3) کا حصہ بنایا گیا جس کا طریقہ کار انتہائی پیچیدہ ہے اور اس حوالے سے حتمی فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ہی کرنا ہوتا ہے۔ ایک اور اہم حقیقت ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے لیے کسی قسم کی شرط نہیں ہے سوائے اس کے کہ اس وقت تحریک عدم اعتماد پیش نہیں کی جا سکتی جب قومی اسمبلی میں بجٹ وغیرہ کا معاملہ چل رہا ہو۔ تحریک عدم اعتماد کا نوٹس پیش کرنے میں کوئی اور قانونی رکاوٹ نہیں ہوتی۔ آئینی و قانونی ماہرین کو ان آرٹیکلز کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے جن کا میں نے ذکر کیا ہے اور وہ پرانے دستور کی تمام ترامیم کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ اسی طرح رولز 63‘ جو آئین کے شیڈول II کا حصہ ہے‘ پر بھی غور کریں۔ آئین کے آرٹیکل 59 اور شیڈول II کے رولز 73 کے تحت قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران قرار داد پیش کی جائے گی۔ آرڈر آف دی ڈے کے تحت تحریک عدم اعتماد پر کارروائی کرنے کے لیے سات دن ہوتے ہیں۔ بہرحال اپوزیشن تحریکِ عدم اعتماد پیش کر چکی۔ ایک عمل شروع ہو چکا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ اس کے کیا نتائج سامنے آتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں