"KDC" (space) message & send to 7575

تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں…

وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں آئین و قانون کے آرٹیکل 95 اور آرٹیکل 54 کے تحت جمع کرائی جا چکی ہے جس پر پیش رفت شروع ہو چکی ہے اور وزیر اعظم جارحانہ انداز میں اس تحریک کا مقابلہ کرنے کے لیے سیاسی میدانِ عمل میں کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ انہوں نے آصف علی زرداری، شہباز شریف، نواز شریف، مولانا فضل الرحمن اور بلاول زرداری کو جس غیر پارلیمانی انداز میں تنقید کا نشانہ بنایا‘ اس سے ان کی اپنی پارٹی کے اندر بھی اضطراب کی لہر دوڑ گئی ہے۔ انہوں نے تحریک کی ناکامی کے بعد اپنے مخالفین کے خلاف شدید کارروائی کرنے کا جو عندیہ دیا، اس سے ان کی پارٹی کے آزادانہ اور جمہوری سوچ رکھنے والوں کو احساس ہوتا جا رہا ہے کہ اب پارٹی میں اپنی بات منوانے کا رواج اسی انداز میں بڑھ رہا ہے جس طرح سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے مخالفین کے لیے مبینہ طور پر کیمپ بنا رکھے تھے۔ حکومت کے اتحادیوں میں بھی خوف کی لہر دوڑ گئی ہے کہ تحریک کی ناکامی کے بعد وہ بھی خان صاحب کے غیظ و غضب کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ ظاہر ہے مقتدر حلقوں میں بھی مثبت پیغام نہیں گیا ہو گا۔ شاید یہ اسی خوف کا نتیجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے بہت سے اراکین اسمبلی منحرف ہوتے جا رہے ہیں۔ اسکی ایک مثال سندھ ہائوس اسلام آباد میں مقیم وہ 12 اراکین ہیں جو حکومت سے شاکی ہیں۔ پی ٹی آئی کے ہی رکن اسمبلی راجہ ریاض نے انکشاف کیا ہے کہ 12 اور اراکین بھی یہاں موجود ہیں۔
خان صاحب کی حالیہ حکمت عملی کا موجد کون ہے، اور پس پردہ کون سے محرکات ہیں جن کی وجہ سے وہ تنہا ہوتے جا رہے ہیں اور اب خاموشی سے ان کے ارکان انہی کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کے لیے تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنا سکتے ہیں؟ دوسری جانب چوہدری شجاعت حسین شدید بیماری کے باوجود لاہور سے اسلام آباد آئے اور مولانا فضل الرحمن اور آصف علی زرداری سے ملاقات کی۔ اخباری اطلاعات کے مطابق انہوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے مابین سیاسی محاذ آرائی کو ختم کرنے کا عندیہ دیا۔ چوہدری شجاعت حسین اس سے پہلے بھی اہم مواقع اور انتہائی نازک مرحلوں پر خود چل کر جاتے اور بہترین مشوروں سے نوازتے رہے ہیں۔ وہ نواب اکبر بگٹی کے ہاں ڈیرہ بگٹی گئے تھے۔ اسی طرح لال مسجد کے سانحہ سے پیشتر وہ خود چل کر گئے تھے تاکہ کسی ممکنہ تصادم سے بچا جا سکے۔ اب وہ آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن سے ذاتی طور پر ملنے گئے اور سیاسی مفاہمت کی بات کی۔ اس پس منظر میں وزیر اعظم صاحب کو احساس ہونا چاہیے کہ تحریک عدم اعتماد کے دن پاکستان مسلم لیگ (ق) کہاں کھڑی ہو گی۔ سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کی باتوں میں بھی کئی اشارے چھپے ہوئے ہیں۔ اسی طرح متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) والے سندھ میں اپنے مستقبل کے سیاسی مفادات کو دیکھتے ہیں۔ انہوں نے بھی اپنی کوئی سیاسی حکمت عملی طے کی ہو گی جبکہ تحریک انصاف کا ووٹ بینک حکومت کی ناقص پالیسیوں اور پارٹی کی ہائی کمان میں ورکروں کو نظر انداز کرنے کی وجہ شاکی نظر آتا ہے۔ وہ سٹریٹ پاور سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک نچلی سطح پر کھڑا ہے اور حالیہ جلسے جلوسوں میں بلاول زرداری کو عوامی پذیرائی توقع کے مطابق حاصل نہیں ہو سکی ہے۔ جلسے، خطاب، ریلی، سب رات کو اختتام پذیر ہوتے رہے، عوامی حمایت کا سیلاب دیکھنے میں نہیں آیا، جبکہ سندھ میں شاہ محمود قریشی اور علی زیدی کا مارچ خلافِ توقع کامیاب نظر آیا۔
میڈیا پر بھی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ ماحول دیکھنے کو ملنے کی وجہ سے حالات کے رُخ کا اندازہ ہوتا جا رہا ہے۔ مجھے یوں نظر آ رہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد میں فیصلہ کن موڑ تحریک کی ووٹنگ کے دن نظر آئے گی۔ مجھے وزیر اعظم کی توقع کے خلاف ان کے اتحادی اپنے گھوڑے سمیت تحریک کی مہمان گیلری میں داخل ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے متحدہ اپوزیشن کو 10 سے 12 ارکان قومی اسمبلی کی معاونت درکار ہے اور میری اطلاع کے مطابق مطلوبہ نتائج حاصل ہو چکے ہیں کیونکہ ان کے اتحادیوں نے مستقبل کا سیاسی منظرنامہ دیکھ لیا ہے۔ سندھ ہائوس کے معاملے نے صورتحال مزید واضح کر دی ہے۔ اسی طرح جہانگیر ترین کا فعال اور مضبوط گروپ بھی تحریک عدم اعتماد میں اپنا وزن ڈالے گا اور یوں مجھے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی میں 180سے زائد ارکان قومی اسمبلی کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ اب اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو اسی لمحے ان کی کابینہ خود بخود تحلیل ہو جائے گی۔ کیبنٹ سیکرٹریٹ نے اسی رات حکومت کی تحلیل کا نوٹی فکیشن جاری کر دینا ہے اور جب تک نئے لیڈر آف دی پارٹی کا انتخاب عمل میں نہیں آ جاتا‘ تمام انتظامی اختیارات صدر مملکت کو منتقل ہو جائیں گے۔ بظاہر غیر اعلانیہ طور پر ملک میں صدارتی رولز نافذ ہو جائے گا، اور چند دنوں کے وقفے کے بعد ممکن ہے کہ تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی میں سے کسی غیر جانبدار ممبر قومی اسمبلی‘ جس کی ساڑھے تین برسوں میں کارکردگی بھی بہتر رہی ہو اور جو اپوزیشن کے تمام حلقوں میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہوں ‘ کو عبوری طور پر وزیر اعظم منتخب کر لیا جائے۔ میرے تجربے، تجزیے اور بیوروکریسی کے مشاہدات کو دیکھتے ہوئے نظر آ رہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے متبادل کا تعلق سندھ سے ہو گا، جس کا ماضی اور حال شاندار روایات پر کھڑا رہا ہے‘ اور وہ شخصیت مقتدر حلقوں میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے اور بین الاقوامی منظرنامے میں اس کا خاص مقام ہے اور امریکہ کے موجودہ صدر جوبائیڈن سے ان کے ذاتی مراسم رہے ہیں۔ منزل قریب آ رہی ہے۔ مارچ کے آخری ہفتے کا انتظار کریں۔
ایک اطلاع یہ ہے کہ اپوزیشن قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد چند روز میں قومی اسمبلی میں پیش کرنے جا رہی ہے۔ دستاویزات تیار ہو چکی ہیں۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ بادی النظر میں ان دونوں شخصیات نے اپنے حلف کا خیال نہیں رکھا اور پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی اور بے یقینی کی صورت حال کو فروغ دیا۔ سپیکر قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ضابطہ اخلاق‘ جو الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 233 اور 181 کے مطابق ہے‘ کی بھی خلاف ورزی کی‘ یوں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو نوٹسز جاری کرنا پڑے۔ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے خلاف انتخابی عذرداری کا مقدمہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں پہلے ہی زیر سماعت ہے۔ وہ تین سال سے حکم امتناعی کے تحت اپنے عہدے پر براجمان ہیں۔ اپوزیشن کا خیال ہے کہ ایسی شخصیات کو رضاکارانہ طور پر تحریک عدم اعتماد کے سیشن کی صدارت نہیں کرنی چاہیے‘ جن کی غیر جانبداری سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ عدم اعتماد سے ایک دن پیشتر عمران خان کا اسلام آباد میں دس لاکھ افراد کا عظیم الشان جلسہ کے انعقاد کے لیے پارٹی کو متحرک کرنا حساس اداروں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ایسے نازک موقع پر بھارتی تخریب کاروں نے را کی معاونت سے امن و امان میں گڑبڑ پیدا کی تو ملک کا سارا سسٹم ہی مفلوج ہو سکتا ہے۔ اس لیے سب کو زیادہ سے زیادہ محتاط رہنے کی تلقین کی جاتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں