"KDC" (space) message & send to 7575

حریکِ عدم اعتماد اور وزیر اعظم کے آپشن

سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے قبل حکومت اور اپوزیشن کے اعلانات کے خلاف سپریم کورٹ بار کی درخواست کی سماعت کے دوران سندھ ہاؤس کو نقصان پہنچانے‘ سندھ ہاؤس پر حملہ میں کون لوگ ملوث تھے، ذمہ داروں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی، ان معاملات پر رپورٹ طلب کرتے ہوئے 6 پارلیمانی جماعتوں کو نوٹس جاری کر دیئے ہیں۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو آئین کے آرٹیکل 63 (اے) کی وضاحت سے متعلق صدارتی ریفرنس آنے کے بعد غور کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اس حوالے سے تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر کر دیا گیا ہے جس کی سماعت کے لئے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا گیا ہے۔ ریفرنس پر سماعت 24 مارچ کو ہو گی جس میں تمام سیاسی جماعتیں وکلا کے ذریعے پیش ہو سکتی ہیں۔
تحریک انصاف کے تین درجن سے زائد ورکروں نے ممبر قومی اسمبلی فہیم خان اور عطا اللہ نیازی کی قیادت میں سندھ ہاؤس پر حملہ کر کے وزیر اعظم عمران خان کے لیے مشکلات کھڑی کر دی ہیں اور حیرانی یہ ہے کہ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے ابھی چند روز پیشتر جذباتی انداز میں کہا تھا کہ قانون شکنی کرنے والوں کو وہ کچل دیں گے۔ انہوں نے دس بار کہا کہ وہ سختی سے کچل دیں گے اور کسی بھی بااثر شخصیت کا لحاظ نہیں کریں گے۔ یہ غیر ذمہ دارانہ ریمارکس بھی دیئے کہ وہ ایسی عبرت ناک سزا دیں گے کہ ان کی نسلیں یاد کریں گی۔ وفاقی وزیر کے یہ ریمارکس عدالتی امور میں مداخلت کے مرتکب ہونے کا برملا اظہار ہے‘ کیونکہ کوئی بھی سزا خود نہیں دے سکتا‘ اس کے لیے عدالتوں کا سہارا لینا پڑے گا۔ فردِ واحد کے پاس اختیارات نہیں کہ کسی کو کچل دے۔ پھر جب تحریک انصاف کے ورکروں نے دو ارکان قومی اسمبلی کی قیادت میں سندھ ہاؤس پر حملہ کیا اور گیٹ توڑ کر اندر داخل ہو گئے تو ان کے حکم پر دو ارکان قومی اسمبلی کو گرفتار کیا گیا لیکن چند منٹوں میں وزیرداخلہ کی منظوری کے بغیر وزیراعظم ہاؤس کے ایک ترجمان نے ان کو رہا کروا دیا اور وفاقی وزیر نے اس ترجمان سے بازپرس تک نہیں کی۔ تحریک لبیک کے بارے میں ان کے اسی قسم کے ریمارکس تھے لیکن جب معاہدہ طے پایا تو وفاقی وزیر داخلہ کو معاہدہ کے امور سے الگ تھلگ کر دیا گیا تھا۔ اس ساری صورت حال سب دیکھ رہے ہیں؛ چنانچہ ممکن ہے کہ انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد کی رپورٹ آنے کے بعد وفاقی وزیر داخلہ کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا جا سکتا ہے۔
میرا ذاتی اندازہ اور تجزیہ یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے بعض وزرا اور مشیر ان کے لیے مشکلات کھڑی کر رہے ہیں۔ فہم و بصیرت سے عاری یہ سیاست دان حکومت کے مسائل بڑھا رہے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانا حکومت کے لیے بادی النظر میں ناممکن محسوس ہوتا ہے۔ میری رائے میں تحریک کے پیش ہو جانے کے بعد قومی اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کی راہ ہموار کرنے کا اختیار بھی قانونی طور پر وزیراعظم کو حاصل نہیں رہا۔
بعض اداروں نے ایسے 28 اراکین کی فہرست وزیر اعظم کو پیش کی تھی جن کے بارے میں خدشہ تھا کہ وہ تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کو ووٹ دے سکتے ہیں، ان میں اکثریت ان اراکین کی ہے جو دوسری جماعتوں سے تحریک انصاف میں جولائی 2018ء کے الیکشن سے پہلے آئے تھے۔ اب بحرانی کیفیت میں نادان مہم جو مشیر وزیر اعظم کو جارحانہ پالیسی پر آمادہ کر کے تصادم کی طرف لے جا رہے ہیں اور وزیر اعظم صاحب نے بھی اتحادیوں سے وہ تعاون نہیں مانگا اور اپنے ناراض ارکان اسمبلی کو منانے کے لیے ویسی سنجیدہ کوشش نہیں کی جیسی کرنی چاہئے تھی۔ وزیر اعظم نے رسمی کارروائی کرتے ہوئے 14 ارکان اسمبلی کو شوکاز نوٹس جاری کر کے ایک طرح سے یہ اعتراف کر لیا کہ وزیر اعظم ایوان کی اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ یہ 14 ارکان قومی اسمبلی اعلانیہ طور پر انحراف کر چکے ہیں۔ اور کچھ حلقوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ ابھی کئی ممبران عین موقع پر بغاوت کریں گے۔
جہاں یہ معاملات چل رہے ہیں‘ وہیں حکومت اور اداروں کی توجہ او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس کی طرف لگی ہوئی ہے۔ میری رائے میں اپوزیشن کو اس نازک موقع پر تحریک عدم اعتماد کا نوٹس 24 مارچ کو پیش کرنا چاہیے تھا اور ابتدائی طور پر سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف قرارداد آنی چاہیے تھی جن کی جانبداری پر اپوزیشن کی جانب سے سوالیہ نشان اٹھائے جا رہے ہیں۔
بہرحال 24 مارچ کو حکومت کے اتحادی گروپ کی پالیسی کھل کر سامنے آ جائے گی اور اس دوران تحریک انصاف کا مفاہمتی یا ہم خیال گروپ سامنے آنے کا امکان ہے۔ ممکن ہے اسے ڈیموکریٹک گروپ کا نام دیا جائے۔ عطا محمد مانیکا کی طرز پر یونین بلاک کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب ترین صاحب‘ جنہوں نے 2014ء کے بعد عمران خان کو سیاسی اُفق پر نمایاں کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا‘ ایسا گروپ تشکیل دے رہے ہیں جس سے عدم اعتماد کامیابی سے ہمکنار ہو جائے گی۔ میری اطلاع کے مطابق قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی سے ڈیموکریٹک گروپ یا یونین بلاک سامنے آنے والا ہے‘ جو قومی اسمبلی کے سپیکر سے علیحدہ نشستیں حاصل کرنے کا مطالبہ کرے گا۔
وزیر اعظم بلا شبہ تحریکِ عدم اعتماد کی زد میں آ چکے ہیں۔ اتحادی جماعتیں بھی ان سے لا تعلقی کا اعلان کرنے والی ہیں اور تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی‘ جو انحراف کی راہ پر ہیں‘ کی تعداد بھی 30 کے لگ بھگ ہے۔ ان حالات میں وزیر اعظم عمران خان دانش مندی سے 27 مارچ کے جلسہ عام میں مستعفی ہونے کا اعلان کر کے اپنی ہی حکومت کے ارکان میں کسی کو قائد ایوان کا بھی اعلان کر سکتے ہیں۔ وزیر اعظم کو اپنی مقبولیت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ انہیں چاہئے کہ بطور چیئرمین تحریک انصاف اپنی پارٹی کو ازسرِ نو منظم کریں‘ آئندہ انتخابات کی تیاری کے لیے حکمت عملی بنائیں اور مقامی حکومتوں کے انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کریں۔ جونہی نئے قائدِ ایوان کا فیصلہ کیا جائے گا‘ تحریک عدم اعتماد غیر موثر ہو جائے گی‘ یوں اپوزیشن آئندہ سپیکر کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد لانے میں کامیاب نہیں ہو گی اور پنجاب حکومت بھی محفوظ ہو جائے گی۔
وزیر اعظم عمران خان کے پاس ترپ کے پتہ یہی کارڈ ہے کہ وہ وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہو کر اپنی پارٹی کو اور کلیدی عہدوں پر فائز اہم شخصیات کو بھی تحریک عدم اعتماد کی نذر ہونے سے بچائیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا اور تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو وہ پھر یکے بعد دیگرے سپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین سینیٹ اور صدر مملکت کے خلاف مواخذے کی صورت میں سامنے آ سکتی ہے‘ اور پنجاب میں بھی وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد فوری طور پر آ جائے گی‘ جہاں پر جہانگیر ترین کے 40 کے لگ بھگ صوبائی اسمبلی کے ارکان عثمان بزدار کو چند لمحوں میں فارغ کرا دیں گے۔ اس طرح ملک سنگین سیاسی صورت حال کی لپیٹ میں آ جائے گا اور آخر میں وزیر اعظم کو فارن فنڈنگ کیس کا اہم فیصلے کا بھی سامنا ہے۔ اگر ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہو جاتی ہے تو پھر تحریک انصاف کا انتخابی نشان واپس لیے جانے کا قانونی اختیار الیکشن کمیشن آف پاکستان کو حاصل ہے اور اس کے نتیجہ میں تحریک انصاف کی رجسٹریشن بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔ فارن فنڈنگ کیس کی سماعت جس انداز سے آگے بڑھ رہی ہے تو یہ نتیجہ اخد کیا جا سکتا ہے کہ فیصلہ اپریل کے اوائل میں آ جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں