"KDC" (space) message & send to 7575

عدم اعتماد کی تحریک میں سپیکر کی رولنگ، آئین کیا کہتا ہے؟

صدارتی ریفرنس‘ جو آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت اٹارنی جنرل آف پاکستان نے سپریم کورٹ میں داخل کیا ہوا ہے اور جس کی باقاعدہ سماعت شروع ہو چکی ہے‘ انتہائی حساس موقع پر آیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں یقین دہانی کرائی ہے کہ ووٹنگ وقت پر ہو گی‘ ہر رکن اسمبلی کو اپنی مرضی سے ووٹ ڈالنے کا حق ہو گا‘ کسی رکن اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جائے گا اور سپیکر کو اپنے اختیارات سے متعلق کوئی ایسی غلط فہمی نہیں کہ وہ جو چاہے رولنگ دے سکتے ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی کا ایک آئینی کردار ہے۔ نیز یہ کہ ایوان کی کارروائی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکتی اور آئین کا جو بنیادی ڈھانچہ ہے وہ آئین میں ترمیم کر کے بھی تبدیل نہیں کیا جا سکتا‘ تاہم بادی النظر میں اٹارنی جنرل نے عدم اعتماد کی تحریک میں پارٹی سے انحراف اور ارکان قومی اسمبلی کے ووٹ کو مسترد کرنے کے اختیارات قومی اسمبلی کے سپیکر کو تفویض کرنے کی بات کر کے گویا یہ قرار دیا ہے کہ وہ آئین کے شیڈول ٹو کے برعکس رولنگ دینے کا مجاز ہے۔ بین السطور میں حکومت نے عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام بنانے کے لیے آئینی راستہ تلاش کر کے قومی اسمبلی کے سپیکر کو اختیار دے دیا ہے کہ جو ارکان حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں اور پارٹی پالیسی کے برعکس اپنا ووٹ کاسٹ کرنا چاہتے ہیں ایسے ارکان کا ووٹ شمار نہیں کیا جائے گا۔ ان حالات میں اپوزیشن کو عدم اعتماد کی تحریک کامیاب بنانے کے لیے حکومتی اتحادیوں کی حمایت حاصل کرنا ہو گی۔ اپوزیشن کو سپیکر قومی اسمبلی کے بظاہر جانبدارانہ رویے کا ادراک ہے؛ چنانچہ یہ بھی مانا جاتا ہے کہ ان کو وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے سے پہلے قومی اسمبلی کے سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا نوٹس دینا چاہیے تھا۔
سپریم کورٹ کو بھیجے گئے صدارتی ریفرنس میں اہم نکتہ یہ ہے کہ پارٹی کے خلاف ووٹ کاسٹ ہو تو اسے تسلیم کرنا ہے یا مسترد کرنا ہے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 63 اے کے مطابق جب تک پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ نہ دیا جائے یہ آرٹیکل لاگو نہیں ہو سکتا۔ دوسری جانب تحریک انصاف سے انحراف کرنے والے ارکان قومی اسمبلی کا موقف سامنے آیا ہے کہ وزیر اعظم ارکان اسمبلی کو اختلافِ رائے رکھنے پر شرمندہ کرتے ہیں اور وزیر اعظم آفس میں براجمان اہم مشیران اور عہدیداران تک بدعنوانی پھیلی ہوئی ہے۔ اسی بیڈ گورننس کی وجہ سے وہ عدم اعتماد کی تحریک میں اپنے حق رائے دہی کا استعمال آزادانہ طور پر کرنے کے لیے پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ کاسٹ کریں گے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز جج جسٹس منیب اختر کے ریمارکس بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 95 کے تحت ووٹ کا حق سیاسی جماعت کا ہوتا ہے‘ آرٹیکل(2) 95کے تحت رکن کے انفرادی ووٹ کی حیثیت نہیں۔ دراصل اسی اہم شق پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنی مشاورتی رائے دینی ہے۔ میری رائے کے مطابق پاکستان میں انتخابات چونکہ امیدواروں کی ذاتی شہرت اور پارٹی کے نام پر ہی ہوتے ہیں اور چونکہ پاکستان میں پارٹی سسٹم کے تحت انتخابات نہیں ہوتے‘ جن میں پارٹی کو ووٹ ڈالے جاتے ہیں اور پارٹی اپنے ووٹوں کے کوٹے سے اسمبلی کی نشستیں حاصل کرتی ہے‘ جیسا کہ جرمنی میں ہوتا ہے کہ متناسب نمائندگی کے تحت اور پارٹی سسٹم کے تحت انتخابات ہوتے ہیں۔ پاکستان میں امیدوار بے شک پارٹی کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑتا ہے لیکن ووٹ اسے عموماً ذاتی شہرت کی بنیاد پر ملتے ہیں‘ جبکہ پارٹیاں ایسے امیدواروں ہی کو ٹکٹ دیتی ہیں جن کے کامیاب ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
میری نظر میں وزیر اعظم آئینی‘ قانونی اور سیاسی و اخلاقی طور پر ایوان قومی اسمبلی میں اکثریت سے محروم ہو چکے ہیں کیونکہ ان کے چند وزرا اور مشیران نے حکومت کے کیس کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کا عوامی طاقت سے مقابلہ کرنا کسی بھی طرح جمہوری طریقہ نہیں ہے۔ سیاسی جماعتیں عوامی طاقت کا مظاہرہ کریں گی تو ملک سیاسی تصادم کی طرف بڑھے گا‘ جس کے نتائج ملک اور جمہوری نظام کے لیے خطرناک ہوں گے۔ یہ جواز پیش کرنا بھی درست نہیں کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے اور اس تحریک کے حق میں ووٹ دینے والے ارکانِ اسمبلی کرپٹ ہیں‘ لہٰذا عوامی طاقت کے ذریعے آئینی عمل مکمل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ایسا تاثر دینے والوں کے خلاف اپوزیشن اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کو ایف آئی آر درج کرانی چاہیے تھی‘ لیکن ملک میں سول سوسائٹی کے ادارے چونکہ مضبوط اور فعال نہیں ہیں اس لیے کسی نے وزرا کے ان بیانات پر دھیان نہیں دیا۔ پاکستان میں ایسی سول سوسائٹیاں بھی موجود ہیں جو ڈیموکریسی کے فروغ کے لیے بیرونی ممالک سے امداد حاصل کرتی ہیں اور وزارتِ اقتصادی امور کے پاس ان کا مکمل ریکارڈ موجود ہے۔ حیرت ہے کہ ان تنظیموں نے بھی ایسے غیرجمہوری رویوں کے خلاف آواز بلند نہیں کی۔
ان حالات میں حکومت اور اپوزیشن کو سیاسی بصیرت اور معاملہ فہمی سے کام لیتے ہوئے حالات کو مزید بگڑنے سے بچانا ہوگا اور اقتدار کے بجائے ملک کی فکر کرنا ہو گی۔ دیگر جمہوری ملکوں خصوصاً مغربی ممالک میں حکومتوں کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکیں کسی بڑی سیاسی جنگ کے بغیر منتخب ایوانوں میں آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے ٹھوس دلائل پر مبنی بحث مباحثے کے ذریعے خوش اسلوبی سے منطقی انجام تک پہنچ جاتی ہیں‘ لیکن پاکستان میں وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی جو تحریک پیش کی گئی ہے اس کے نتیجے میں تمام آئینی روایات پامال ہوتی دکھائی دے رہی ہیں اور سپیکر آئین کی جو تشریح ازخود کر رہے ہیں اس سے ملک میں اور پارلیمنٹ کے اندر محاذ آرائی کا اندیشہ ہے۔ اب سپریم کورٹ ہی اپنی رائے کے ذریعے اس کا حل نکالے گی۔
تحریک عدم اعتماد کی اس جنگ میں قومی اداروں کے خلاف سوشل میڈیا پر کردار کشی کی مہم بھی چلائی جا رہی ہے اور تحریک انصاف کی ایک خاتون رکن قومی اسمبلی اور سوشل میڈیا ٹیم نے مسلسل دو دن اداروں کے سربراہان کے خلاف کردار کشی کی مہم چلائی۔ اس رکن قومی اسمبلی کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت جاری ہے اور میرا خیال ہے کہ آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت کارروائی کرتے ہوئے انہیں ان کی اسمبلی نشست سے نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ چونکہ ہماری سیاسی جماعتوں میں تھنک ٹینک ‘باقاعدہ دفاتر اور ماہرین کا فقدان ہے لہٰذا انہیں ادراک ہی نہیں کہ آئین کے کس آرٹیکل کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے اور اس نوعیت کے مسائل کا سارا بوجھ معزز عدالتوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا یہ آئینی فرض تھا کہ وہ اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے ریفرنس الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوا دیتے۔ ایسا ہو جاتا تو یہ ایک خوش آئند قدم قرار دیا جاتا‘ مگر وزیر اعظم یہ بھی نہیں کر سکے۔ میری نظر میں وزیر اعظم الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ضابطہ اخلاق کی مسلسل خلاف ورزی کر رہے ہیں اور الیکشن کمیشن کے نوٹسز کو نظر انداز کرتے ہوئے قانونی طور پر وضاحت بھی پیش نہیں کر رہے‘ یوں الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 181‘ 233 اور 234 کی زد میں آ رہے ہیں۔ ان دفعات کی روشنی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان سخت قدم اٹھانے کا مجاز ہے‘ لہٰذا وزیر اعظم کو اپنی غیر سرکاری قانونی ٹیم کے ذریعے تحریک انصاف کی طرف سے ان نوٹسز کا جواب دینا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں