"KDC" (space) message & send to 7575

تحریکِ عدم اعتماد آخری مراحل میں

وزیراعظم عمران خان نے ذوالفقار علی بھٹو کی طرز پر جلسے میں خط لہرا کر اپریل 1977ء کی یاد تازہ کروا دی۔ انہوں نے قوم کو سرپرائز دینے اور اپنے محفوظ کارڈز دکھانے کا قوم سے وعدہ کیا تھالیکن اس کے برعکس اپنی طویل تقریر کے خاتمے سے کچھ پہلے انہوں نے ایک دھمکی آمیز خط کا تذکرہ کر کے اس صورتحال کو مسٹر بھٹو کی طرز پر ڈرامائی رنگ دینے کی کوشش کی اور اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کو بیرونی سازش قرار دیا‘ جو اُن کی اپنی حالیہ تقاریر کے برعکس اور متضاد بات معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے کہا تھا کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے پر انہوںنے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے دو نوافل پڑھے۔ بہرکیف وزیراعظم نے دھمکی آمیز خط کی بات جلسہ عام میں کر کے سفارتی حلقوںکو حیران کر دیا اور مقتدر حلقوں میں بھی اضطراب کی لہر دوڑا دی۔ ایسے حساس معاملات کو انٹیلی جنس کے اداروں سے مشاورت کر کے دھمکی آمیز خط بھیجنے والے ملک کے خلاف بین الاقوامی سطح پر اٹھانا چاہیے جبکہ اس حساس معاملے کو عوامی جلسے میں اُچھالنے کے بجائے وزیر اعظم کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے اس پر مختصراً قوم کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔
وزیر اعظم عمران خان کی 27مارچ والی تقریر کا آخری حصہ شاید ان کے حلف کے برعکس بھی تھا۔ وزیر اعظم کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے تھا کہ اپنے داخلی معاملات میں دوسرے ممالک کی سازش کے منصوبے کا سنسنی خیز اندازسے ذکر کرنا اور اس میں سفارتی تقاضوں اور باریکیوں کو ملحوظ نہ رکھنا خارجہ امور میں کئی دشواریاں پیدا کر سکتا ہے ۔ وزیراعظم نے وہ خط جو عام سے کاغذ کا لیٹرپیڈ بھی نہیں معلوم ہوتا تھا‘پڑھا نہیں ‘ محض لہرا کر اپنی جیب میں رکھ لیا لیکن اس کا لب لباب جلسے میں ضرور بیان کر دیا ۔
ذوالفقار علی بھٹو کا معاملہ ذرا مختلف تھا۔ انہوں نے امریکی وزیر خارجہ سائرس وینس کا خط لہرانے سے پہلے وزارت اطلاعات و نشریات کا اجلاس بلایا تھا اور خط کو دکھانے کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے وزارت اطلاعات کے درجنوں اہل کاروں کو طے شدہ منصوبے کے تحت راجہ بازار‘ فوارہ چوک اور صدر میں ہاتھی چوک کے علاقے میں بھجوا دیا تھا‘ اور پھر ذوالفقار علی بھٹو طے شدہ پروگرام کے تحت بغیر کسی پروٹوکول کے ادھر آ نکلے اور وزارت اطلاعات کے اہل کاروں کو عام شہری کے روپ میں گاڑی کے اردگرد کھڑا کروا کے کار کی چھت پر کھڑے ہو کر مسٹر بھٹو نے خط لہرایا ‘ اور کہا کہ ان کے خلاف سازش کی جا رہی ہے۔
اسی طرح 1962ء میں بھارت چین جنگ کے نتیجے میں جب صدر کینیڈی نے بھارت کو اسلحہ اور دیگر ساز و سامان دینا شروع کیا تو صدر ایوب خان نے شدید احتجاج کرتے ہوئے جو اہم خط صدر کینیڈی کو اپنے سفیر عزیز احمد کے ذریعے بھجوایا اس سے صدر کینیڈی کے ہوش اُڑ گئے اور اُنہوں نے صدر ایوب خان کا خط سو سال کے لیے کلاسیفائیڈ کر دیا۔ میں ماضی کے تاریخی حوالے پڑھنے والوں اور حکومت کی رہنمائی کے لیے دیئے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آخری مراحل سے گزر رہی ہے۔ ارکانِ اسمبلی کی آگاہی اور رہنمائی کے لیے میں آئین و قانون کی روشنی میں یہ لکھ رہا ہوں کہ تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے آئین کا آرٹیکل 95 اور پھر اس کی پیروی میں قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط کا ضابطہ37 جبکہ دوسری طرف آئین کا آرٹیکل63 (اے) اہم ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد ملک بھر میں آئین و قانون اور اسمبلی ضوابط کو لے کر قدرے دلچسپ لیکن ساتھ ہی ساتھ دیدہ و دانستہ گمراہ کن بحث شروع کی گئی ہے اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے آئین میں درج سیدھے سادے اور عام فہم الفاظ کو نت نئے معنی پہنائے جا رہے ہیں۔ پورے موضوع پر فقط اپنی پسند کے جملے بیان کئے جا رہے ہیں اورجو راہ آئین نے متعین کر رکھی ہے اسی سے انحراف کر کے انوکھی راہیں دریافت کی جا رہی ہیں۔ حکومت کے قانونی ماہرین اور وزراکی جانب سے ضابطہ 22 کا حوالہ دیا جا رہا ہے جو عمومی حالات میں اسمبلی اجلاس کو معطل یا برخاست کرنے کا اختیار سپیکر کو دیتا ہے‘ لیکن ضابطہ 37 جو وزیراعظم کے عدم اعتماد کی خاص صورت حال میں سپیکر کے تمام اقدامات کو ایک ایک دن اور لمحے لمحے کے حساب سے پابند کر تا ہے‘ نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ایک وفاقی پارلیمانی اور جمہوری پاکستان کی بقا کے خاطر میں بتانا چاہتا ہوں کہ پہلا نکتہ تو خود سپیکر کے منصب ہی کو پارلیمانی عدالت میں کھڑا کر رہا ہے۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ آئین اور اسمبلی قواعد کے مطابق حزب ِ اختلاف کی جانب سے درخواست کیے جانے پر سپیکر اجلاس بلانے کا پابند ہے۔ سپیکر اس معاملے میں محدود اختیار رکھتاہے۔ دوسرا نکتہ حقِ اظہارِ رائے کی تشریح کا ہے جو آئین کے آرٹیکل 19 (اے) میں واضح ہے۔کیا پارلیمانی جمہوریت میں جماعتیں اور تنظیمیں جمہوری فکر‘ مشاورت اور اختلافات رائے کے احترام کی بنیاد پر قائم ہوں گی یا وہ فردِ واحد کی بلاشرکت غیرے ملکیت اورمحض ایک فرد کا نام ہیں؟پارلیمانی پارٹی اگرجماعتی ملکیت ہے تو پھر انتخابات میں امیدوار کھڑے کرنے کے بجائے پارٹی بنیاد پر ہی انتخابات کروانے کے لیے آئین میں ترمیم کر کے متناسب نمائندگی کا سسٹم نافذ کیا جائے۔موجودہ سسٹم میں آئین کا آرٹیکل 17 آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہے‘ جسے موجودہ قانون ساز اسمبلی ترمیم کرنے کی مجاز نہیں۔ قانون ساز اسمبلی کے ارکان کی توجہ اس طرف مبذول کرانا بھی ضروری ہے کہ نہ تو آئین اور نہ ہی قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط میں '' کسٹوڈین‘‘ کا لفظ موجود ہے‘ لیکن یہ سپیکر کے منصب سے غیر سرکاری طور پر منسلک کر دیا گیا ہے۔ اسمبلی کے رولز 104 اور 106 بڑی اہمیت کے حامل ہیں‘ ان رولز کے تحت کسی عدالتی حکم کی تعمیل بھی سپیکر کی پیشگی اجازت کے بغیر اسمبلی حدود میں نہیں ہو سکتی۔ گزشتہ دنوں پارلیمانی لاجز میں پولیس کی آمد اور گرفتاریاں قومی اسمبلی کے سپیکر کی اجازت کے بغیرکی گئیں۔ سپیکر قومی اسمبلی کو اس پر وزیر داخلہ کو طلب کر کے وضاحت لینی چاہیے تھی۔
1973ء کے آئین کے تحت اور پرانے آئین کے آرٹیکل 96 کی ذیلی شق 2کے تحت وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد تب تک پیش نہیں ہو سکتی تھی جب تک خود تحریک میں کسی دوسرے رکن اسمبلی کا نام بطور متبادل وزیراعظم کے تجویز نہ کیا گیا ہو۔
ایک اور دلچسپ امر یہ بھی تھا کہ مذکورہ آرٹیکل کی شق 5 کے تحت اس آئین کی منظوری کے دس سال تک اسمبلی ارکان پابند تھے کہ وہ اپنی جماعت کے فیصلے کے برخلاف وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ نہیں دے سکتے تھے اور اگر وہ ایسا کرتے تو ان کا ووٹ شمار ہی نہیں کیا جا سکتا تھا جبکہ شق 6 کے تحت اگر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جاتی تو پھر چھ ماہ تک یہ تحریک دوبارہ پیش نہیں ہو سکتی تھی۔ صدر ضیا الحق کی آٹھویں ترمیم نے یہ تمام آئینی تحفظات ختم کر دیے اور اٹھارہویں ترمیم میں بھی انہیں بحال نہیں کیا گیا۔ آٹھویں ترمیم کے ذریعے پارلیمانی نظام میں وزیراعظم کو اس ایوان اور اس کے ارکان کی رائے کا احترام کرنا ہے اور اس کے عہدے کے تسلسل کی حفاظت مشترکہ فیصلہ سازی کے پارلیمانی نظام ہی کے ذریعے کی جا سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں