"KDC" (space) message & send to 7575

آئینی بحران

قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ اور وزیراعظم عمران خان کی ایڈوائس پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 58 (1) کے تحت قومی اسمبلی تحلیل کئے جانے کے بعد ملک عملاً ایک آئینی اور انتظامی بحران کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ ڈپٹی سپیکر نے آئین کے آرٹیکل پانچ کے پہلے پیراگراف کو تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کا جواز بنایا۔آرٹیکل پانچ کی شق اول میں مملکت سے وفاداری کو ہر شہری کا بنیادی فرض قرار دیا گیا ہے جبکہ شق دو میں دستوراور قانون کی اطاعت ہر شہری خواہ وہ کہیں بھی ہو اور ہر اس شخص کی جو فی الوقت پاکستان میں ہو‘ کی واجب التعمیل ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی 25 مارچ اور 31 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کے لیے اپنی رولنگ دے چکے تھے اور آئین کے آرٹیکل95 کے تحت اور اس کے ساتھ قومی اسمبلی کے رولز 37 کے تحت تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے تین اپریل کو ساڑھے گیارہ بجے کا وقت متعین کیا جاچکا تھا اور شیڈول بھی جاری کر دیا گیا تھا‘ لہٰذا میرا تجزیہ یہ ہے کہ ڈپٹی سپیکر آئین کے آرٹیکل 5 (1) کا سہارا لیتے ہوئے تحریک عدم اعتماد مسترد کر کے آئین سے انحراف کے مرتکب ہوئے ہیں۔ آئینی، قانونی ماہرین اور سیاسی دانشوروں کا کہنا ہے کہ ڈپٹی سپیکر کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ درج کرایا جا سکتا ہے، ویسے بھی ڈپٹی سپیکر انتخابی بدعنوانیوں کے مجرم قرار دیے جا چکے تھے اور الیکشن ٹربیونل بلوچستان نے تین سال قبل ان کو نااہل قرار دے دیا تھا اور موصوف اسمبلی کی تحلیل تک سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم امتناع پر ڈپٹی سپیکر کے عہدے پر براجمان رہے۔ اب اگر سپریم کورٹ ان کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے بلوچستان الیکشن ٹربیونل کے فیصلہ کو برقرار رکھتی ہے تو موصوف نے اس دوران جتنے بھی فیصلے کیے وہ بھی سوالیہ نشان بن جائیں گے چونکہ ہمارے قوانین میں کچھ ابہام ہے‘ لہٰذا یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے فیصلے برقرار رہیں۔ دیکھئے آگے کیا ہوتا ہے۔ ملک میںسیاسی حوالوں سے جو صورت حال پیدا ہو چکی ہے‘ ان کا تقاضا ہے کہ معاملات کو جلد از جلد سلجھایا جائے تاکہ روٹین کے معاملات شروع ہو سکیں۔
میری رائے میں فواد چوہدری قومی اسمبلی کے فلور پر قرارداد کا متن پڑھتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 5(1) پڑھنے کے بعد اسی آرٹیکل کا پارٹ 2 نہ پڑھ کر عوام کو گمراہ کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں جبکہ سپیکر اسد قیصر کی رولنگ غیر قانونی طور پر ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے پڑھ کر سنائی، اگرچہ ڈپٹی سپیکر کے اختیارات وہی ہیں جو سپیکر قومی اسمبلی کے ہوتے ہیں۔ بہرحال تحریک عدم اعتماد اور حکومت کے خاتمے کے فیصلے کے معاملات چونکہ عدالت میں زیر غور ہیں ‘ اس لئے احتراماً اس پر زیادہ بات سے گریز کر رہا ہوں۔
آئین کے تحت جب قومی اسمبلی اپنی مدت پوری کرتی ہے اور حکومت ختم ہو جاتی ہے تو نگران حکومت قائم کی جاتی ہے جو 60 دنوں میں عام انتخابات کراتی ہے۔ نگران حکومت کا قیام آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت عمل میں آتا ہے جس کی ذیلی شقوں کے مطابق اگر آئین کے آرٹیکل 58 کے تحت اسمبلی تحلیل ہو جائے تو صدر مملکت وزیر اعظم اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے نگران وزیر اعظم تعینات کرتے ہیں؛ تاہم یہ تعیناتی صدر مملکت کا اختیار نہیں بلکہ یہ قائد حزب اختلاف اور وزیر اعظم کے اتفاق کے بعد عمل میں آتی ہے اور اس کام کے لیے ان کے پاس اسمبلی کے تحلیل کئے جانے سے لے کر صرف تین دن کا وقت ہوتا ہے۔ ایک بار نگران وزیر اعظم کے نام پر اتفاق رائے ہو جائے تو صدر پاکستان اس نام کی منظوری دیتے ہیں اور جب تک نگران وزیر اعظم نہ آ جائے اس وقت تک موجودہ وزیر اعظم ہی اپنی ذمہ داریاں جاری رکھتے ہیں‘ لیکن ان کے پاس کسی قسم کے انتظامی اختیارات نہیں ہوتے۔ موجودہ حالات میں اگر عمران خان اور شہباز شریف کسی نام پر متفق نہیں ہوتے تو پھر معاملہ ایک پارلیمانی کمیٹی کے پاس جائے گا جو آٹھ ارکان پر مشتمل ہو گی۔ قانونی مسئلہ یہ ہے کہ جب قومی اسمبلی تحلیل ہو چکی ہے تو پھر یہ پارلیمانی کمیٹی کیسے قائم ہو گی اور اس میں کون لوگ شامل ہوں گے؟ بہرحال اگر ایسی کوئی کمیٹی قائم ہو جاتی ہے اور یہ بھی اگر کسی نتیجہ پر نہ پہنچ سکی تو آئین میں اس بات کی گنجائش ہے کہ یہ کمیٹی قومی اسمبلی کے ارکان کے علاوہ سینیٹ کے ارکان پر بھی مشتمل ہو گی۔ اس کمیٹی میں اپوزیشن سے چار اور حکومت سے چار ارکان کی شمولیت ضروری ہوتی ہے اور تحلیل ہو چکی قومی اسمبلی کے سپیکر ہی اس کمیٹی کا قیام عمل میں لاتے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 53 کے تحت جب تک نئی اسمبلی میں نئے سپیکر کا انتخاب عمل میں نہ آ جائے تب تک موجودہ سپیکر اپنے عہدے پر رہیں گے۔
وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر اس کمیٹی کے لیے چار چار ارکان نامزد کرتے ہیں پھر کمیٹی کے پاس اس معاملے پر فیصلہ کرنے کے لیے تین دن ہوتے ہیں اور آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت اگر یہ کمیٹی بھی اپنی حد تک معاملہ تین روز تک طے نہ کر سکے تو پھر یہ معاملہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس جاتا ہے جس نے دو دن کے اندر نگران وزیر اعظم کے نام کا اعلان کرنا ہوتا ہے۔ دراصل آئین کے آرٹیکل 224 میں ابہام پایا جاتا ہے۔ اگر نگران وزیر اعظم کے تقرر کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی آئینی اختیارات دے دیے جاتے تو غیر جانبدارانہ طریقے سے نگران وزیر اعظم کا تقرر ہو جاتا۔ وزیر اعظم اور متحدہ اپوزیشن لیڈر کی رضا مندی سے نگران سیٹ اپ کا عمل مکمل کرنا غیر جانبداری کے زمرے میں نہیں آتا۔ موجودہ سنگین سیاسی بحران میں سپیکر اور ڈپٹی سپیکر متنازع ہو چکے ہیں جبکہ اپوزیشن نے سپیکر قومی اسمبلی پر عدم اعتماد کرتے ہوئے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی ہوئی ہے اور قومی اسمبلی تحلیل کئے جانے کے بعد یہ تحریک غیر مؤثر ہو چکی ہے، سپیکر خود بھی فارن فنڈنگ کیس میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق فریق ہیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے معاملات بھی زیر غور ہیں۔ دیکھئے اس مسئلے کا کیا حل نکالا جاتا ہے۔
اگرچہ کیبنٹ ڈویژن نے تین اپریل کی رات کو وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے تحلیل ہونے کا نوٹیفیکیشن جاری کرتے ہوئے اعلامیہ میں کہا کہ عمران خان وزیر اعظم نہیں رہے لیکن حیرانی ہے کہ عمران خان بطور وزیر اعظم ٹیلی ویژن پر ''آپ کا وزیر اعظم عوام کے ساتھ‘‘ کے پروگرام کر رہے ہیں۔ اصولی طور پر ان کو یہ اختیار نہیں ہے اور متعلقہ ادارے کو اس کا نوٹس لینا چاہیے تھا اور جو پروگرام وہ ٹیلی ویژن چینلز سے حاصل کر رہے ہیں اس کے تمام اخراجات تحریک انصاف اپنے پارٹی فنڈز سے ادا کرے۔
اسلام آباد میں خبریں گردش کر رہی ہیں کہ اگر چوہدری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ منتخب ہو جاتے ہیں تو وہ پنجاب اسمبلی تحلیل کر دیں گے اور اسی طرح صوبہ خیبر پختونخوا کی اسمبلی بھی تحلیل کی جا رہی ہے اور ایسا نہ ہوا تو پھر نگران سیٹ اپ کے بعد چاروں صوبائی اسمبلیاں بھی تحلیل ہو جائیں گی۔ دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان ان کی کابینہ کے بعض وزرا نے ملک کے ماحول کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے خلاف اب بھی نفرت انگیز مہم چلائی جا رہی ہے۔ اس کے ازالہ کے بغیر شفاف انتخاب کا تصور محال ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں