"KDC" (space) message & send to 7575

تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی اور مستقبل کے تقاضے

سپریم کورٹ آف پاکستان نے وحدت ِپاکستان اور سا لمیتِ پاکستان کو مد نظر رکھتے ہوئے تاریخی فیصلے سے جمہوریت مضبوط اور آئین کی بالادستی قائم کر دی ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے بعد تحریک عدم اعتماد منطقی انجام اور فیصلہ کن نتائج تک پہنچ چکی ہے۔ عمران خان ‘ ان کے قانونی ماہرین ‘ وزرا اورسپیکر قومی اسمبلی کے تمام غیر آئینی حربے ناکام ہوئے اور عمران خان رات کے اندھیر ے میں وزیراعظم ہاؤس سے چلے گئے۔ اجلا س‘ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کی روشنی میں 9اپریل کو صبح ساڑھے دس بجے شروع ہوا تھا‘ لیکن بار بار التوا‘ حکومت کے بعض وزرا کی بے معنی اور حقائق کے برعکس لمبی لمبی تقریروں کا سہارا لے کر سپریم کورٹ کے حکم کی عدم تعمیل کی کوشش کی گئی اور اسد عمر‘ شاہ محمود قریشی اور دیگر اراکین قومی اسمبلی نے‘ جن کا تعلق حکومت سے تھا‘ فیصلے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور اسے تنقید کی زد میں لانے کی کوشش کی۔ حیرانی اور حالات کی سنگینی اس وقت سامنے آئی جب سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے عمران خان کی ہدایت پر فیصلے کے سلسلے میں آئین کے آرٹیکل 169 کا بار بار حوالہ دیا جس کے مطابق قومی اسمبلی کی کارروائی کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا‘ لہٰذا خطرے کی گھنٹی یوں بج رہی تھی کہ سپیکر قومی اسمبلی آخری لمحے میں آئین کے آرٹیکل 169 کا سہارا لیتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کی کارروائی کو غیر آئینی قرار دے سکتے تھے۔
اگر سپیکر صاحب اس منصوبے میں کامیاب ہو جاتے تو ملک شدید آئینی اور قانونی بحران کی لپیٹ میں آ جاتا اور سپریم کورٹ کو آئین کے آرٹیکل 190 کے تحت کارروائی کرتے ہوئے مقتدر حلقوں کو اپنی مدد اور معاونت کے لیے لکھنا پڑتا۔ اصولی طور پر عدالتی فیصلہ آ جائے تو اس کی روح کے مطابق عمل کرنا حکومت کی آئینی اور قانونی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق عمران خان عسکری قیادت کو پیغامات پہنچاتے رہے کہ اپوزیشن کو 90 روز میں انتخابات کرانے کیلئے رضا مند کریں جس پہ جواب ملا کہ یہ معاملات عمران خان خود اپوزیشن سے طے کریں اور واضح کیا کہ وہ سیاسی معاملات میں دخل اندازی نہیں کر سکتے۔ اسلام آباد کے حلقوں میں یہ خبریں بھی گردش کر رہی تھیں کہ عمران خان نے عسکری قیادت سے استدعا کی تھی کہ وہ مستعفی ہو جانے کو تیار ہیں‘ اگر اپوزیشن قومی اسمبلی کی تحلیل پر رضا مند ہو جائے۔ عمران خان فارن فنڈنگ کیس کے بارے میں بہت رنجیدہ‘ پریشان ہیں اور اضطراب کی کیفیت سے گزر رہے ہیں کیونکہ ساڑھے سات سال پرانے اس کیس کے فیصلے کا مرحلہ بھی جلد آنے والا ہے۔ فیصلہ کیا ہو گا؟ ظاہر ہے اس بارے میں کوئی قیاس آرائی نہیں کی جا سکتی؛ تاہم جو شواہد اکٹھے کئے گئے تھے ان کو سامنے رکھیں تو عمران خان کے لیے نئی آزمائش کھڑی ہوتی ہے۔
میرا خیال ہے کہ اسمبلی کے فلور پر غیر ضروری طور پر معاملات کو التوا میں ڈالنے کے لیے شاہ محمود قریشی نے بلا وجہ الیکشن کمیشن پر تنقید کی کہ سید یوسف رضا گیلانی کے سینیٹ کے الیکشن کے حوالے سے مبینہ ویڈیو کا کیس الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہے‘ اس کا ایک سال سے فیصلہ نہیں کیا گیا۔ اُن کو صحیح ادراک نہیں یا ان تک معلومات نہیں پہنچائی گئیں کہ الیکشن کمیشن نے اس کیس کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے اور جو اس کا محرک ہے اُس کو الیکشن کمیشن نے بار بار اپنا بیان درج کروانے کیلئے طلب کیا‘ لیکن وہ آٹھ مہینے سے الیکشن کمیشن کے بار بار نوٹس بھجوانے کے باوجود نہیں آئے۔ اب ان کا بیان ریکارڈ کر لیا گیا ہے اور غالباً پانچ اپریل سے یہ فیصلہ محفوظ ہے اور یہ کسی وقت بھی آ سکتا ہے۔ غلطی تو اُس ممبر کی ہے جس نے اس ویڈیو میں اہم کردار ادا کیا تھا اور وہ الیکشن کمیشن کی بار بار طلبی پر بھی اپنا ریکارڈ دینے کے لیے نہیں آیا‘ لہٰذا غلطی‘ کوتاہی‘ سستی اور لاپروائی تو حکومت کے مذکورہ رکن قومی اسمبلی کی ہے۔ یہ موصوف وہی ہیں جنہوں نے ابھی چند ہفتے پہلے سندھ ہاؤس پر حملہ کیا تھا اور جن کی گرفتاری کے لیے غالباً حکم بھی جاری کیا گیا ہے۔
اسی طرح حکومتی اراکین اسمبلی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان پر بھی بار بار تنقید کی کہ الیکشن کمیشن 90 روز میں انتخابات کرانے کی صلاحیت اور اہلیت نہیں رکھتا۔ اس کے بارے میں بھی چیف الیکشن کمشنر‘ چیف جسٹس آف پاکستان کو سات اپریل کو اپنا بیان جمع کروا چکے ہیں اور صدر پاکستان کو بھی اس کا جواب دیا گیا ہے کہ انہوں نے قانون سازی اور انتظامی معاملات میں معاونت حاصل کرنے کیلئے وزیراعظم پاکستان کو 16 خطوط لکھے لیکن 20 مئی 2020ء سے لے کر غالباً جنوری 2022ء تک لکھے گئے چیف الیکشن کمشنر کے کسی خط کا جواب نہیں دیا گیا۔ ممکن ہے انہیں اس تاخیر پر بھی جواب دہ ہونا پڑے کہ انہوں نے ایک نہایت اہمیت کے حامل اور فوری توجہ کے متقاضی معاملے پر توجہ کیوں نہیں دی۔
آخر میں‘ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ کرانے کیلئے عمران خان اور ان کے آئینی اور قانونی ماہرین کی ٹیم نے مبینہ طور پر ایک پراسرار منصوبہ بندی کر رکھی تھی جس کے تحت حکومتی اراکین کو طویل تقریر کی اجازت دی گئی اور شاہ محمود قریشی کو تین گھنٹے تک خطاب جاری رکھنے کا کہا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ اپوزیشن اراکین مشتعل ہو کر ہنگامہ آرائی پر اتر آئیں اور مبینہ طور پر بعض ارکان قومی اسمبلی کو ہدایت کی گئی تھی کہ جونہی وہ ہنگامہ آرائی کریں تو ایسا ماحول پیدا کر دیں جس سے سپیکر اور اپوزیشن کے پانچ‘ چھ اراکین کی رکنیت معطل کر کے انہیں ووٹنگ میں شریک ہونے سے روک دیا جائے تاکہ تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے اپوزیشن کے پاس مطلوبہ تعداد باقی نہ رہے۔ اسی پس منظر میں سابق وزیراعظم عمران خان نے آٹھ اپریل کی رات کو ٹیلی وژن پر قوم سے خطاب میں غیر ملکی سازش کا بار بار ذکر کیا تھا اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کو مایوس کن قرار دیا تھا۔
تحریک انصاف نے رات گئے اپنے 20 منحرف اراکین اسمبلی کے خلاف ریفرنس سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو پیش کیے اور آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت کارروائی کرتے ہوئے ان ریفرنسز کو الیکشن کمیشن کو بھجوانے پر زور دیا۔ چونکہ ان اراکین نے تحریک عدم اعتماد کے حق میں اپنا ووٹ کاسٹ ہی نہیں کیا‘ لہٰذا یہ ریفرنس غیر مؤثر ہیں۔ آج نئے وزیر اعظم کا انتخاب ہو رہا ہے‘ تو میرے خیال میں نئے وزیر اعظم کو آئندہ آزادانہ‘ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کو وہی اختیارات دینے چاہئیں جو انڈین الیکشن کمیشن کو حاصل ہیں اور اس مقصد کے لیے قانون سازی کرتے وقت الیکشن کمیشن سے مشاورت کریں۔ سب سے آخر میں یہ ہے کہ 10 اپریل 1973ء کو پاکستان کا دستور منظور ہوا جس کی حتمی منظوری 14 اگست 1973ء کو قومی اسمبلی میں دی گئی اور آپ حیران ہوں گے کہ صدر ذوالفقار علی بھٹو نے 14 اگست 1973ء کے دستور کی منظوری کے فوراً بعد اس کی دعا کروانے کے لیے برصغیر کی انتہائی اہم روحانی شخصیت حضرت بابا ذہین شاہ تاجی کو مدعو کیا تھا اور قومی اسمبلی میں جونہی دستور پاکستان منظور ہوا تو انہوں نے دعا کروائی۔ اس دعا کا ریکارڈ آج بھی قومی اسمبلی میں موجود ہے۔ اُس موقع پر میں وہاں موجود تھا کیونکہ وزارت اطلاعات میں سینئر افسر ہونے کی حیثیت سے مجھے ہی کہا گیا تھا کہ حضرت بابا ذہین شاہ تاجی کے تمام پروٹوکول کے معاملات کو دیکھوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں