"KDC" (space) message & send to 7575

اجتماعی استعفے قابلِ قبول ہوں گے؟

تحریک انصاف نے عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی اور محمد شہباز شریف کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد اپنے ارکانِ قومی اسمبلی سے استعفے لینے کے بعد قائم مقام سپیکر قومی اسمبلی سے استعفے منظور کرانے کا اعلان کیا۔ جمہوری روایات کے تحت عمران خان صاحب کا یہ فیصلہ ان کی اپنی پالیسی کا مظہر ہے۔ 10 اپریل کی رات کو احتجاجی تحریک کا اداروں نے سختی سے نوٹس لیا اور اسے فوج اور عوام میں تقسیم کی سازش کا سلسلہ قرار دیا۔ واضح پیغام دیا گیا کہ قومی سلامتی سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ آئین اور قانون کی حکمرانی کے لیے سول قیادت کے بہترین فیصلوں کا ہر قیمت پر ساتھ دیا جائے گا۔ بین السطور میں ان کا عزم آئین کے آرٹیکل پانچ کا حقیقی عکس ہے۔ 9 اپریل کو تحریک عدم اعتماد کو عمران خان اور ان کے گروپ نے روکنے کی کوشش کی؛ تاہم تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے انہیں نفسیاتی طور پر شدید دھچکا پہنچا۔ اس کے بعد اُنہوں نے ملک بھر میں اپنے حامیوں کو الرٹ کر دیا اور پورے ملک میں احتجاج کی لہر دوڑ گئی۔ کئی دیگر ممالک میں بھی یہی منظر دیکھنے میں آیا۔ حکومتی سطح پر غیر ملکی خط کو اس انداز میں پیش کیا گیا کہ اس کی حقیقت کو عوام نے اپنی انا اور خود مختاری پر آنچ آنے کا سبب سمجھ کر عمران خان کے موقف کی بھر پور تائید کر دی۔
عمران خان نے موجودہ حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کا آغاز کر دیا ہے اور عوام کو یہ باور کرانے کی مہم شروع کر رکھی ہے کہ ایک سازش کے تحت یہ حکومت ان پر مسلط کی گئی ہے۔ بہرحال احتجاجی تحریک کا آغاز ہر سیاسی جماعت کا آئینی و قانونی حق ہے اور اب موجودہ حکومت کے وزرا اور ترجمان وہی طریقہ اختیار کریں گے جو سابق حکومت ان کے بارے میں کرتی رہی ہے، لیکن وزیر اعظم شہباز شریف نے ملکی معیشت، خارجہ پالیسی، اندرون ملک امن و امان کی صورت حال اور گڈ گورننس کے لیے بیوروکریسی کو کنٹرول کرنے کے جو اقدامات کئے ہیں اور سرکاری ملازمین اور ریٹائرڈ ملازمین کے لیے جس ریلیف کا اعلان کیا گیا ہے اس سے عوامی جوش و خروش کسی حد تک کم ہو سکتا ہے‘ البتہ میرے خیال میں وزیر اعظم کو اپنی ٹیم کے انتخاب میں ان بیوروکریٹس سے لا تعلقی اختیار کرنی چاہیے جو قومی احتساب بیورو کے مقدمات میں ملوث رہے ہیں‘ اسی طرح ڈان لیکس کے محرکین سے بھی فاصلہ رکھنا ہو گا۔ میڈیا کے حلقوں میں ان لوگوں سے بھی دوری رکھنی ہو گی جو ان سے خلوت میں ملاقات پر فخر کرتے ہیں کیونکہ شہباز شریف کے حکومت میں آ جانے کے بعد ان سے ملنے والے میڈیا پرسنز کی غیر جانبداری متاثر ہو رہی ہے اور وہ واضح طور پر حکومت کی طرف مائل نظر آ رہے ہیں۔
سیاسی جماعتیں انتخابی اصلاحات کو بطور سلوگن استعمال کرتی رہتی ہیں مگر اس کی اصل روح سے وہ نابلد ہیں۔ سابق حکومت نے نام نہاد انتخابی اصلاحات کے ذریعے الیکشن کمیشن کو بھی دباؤ میں رکھا اور بظاہر غیر آئینی تجاویز کو انتخابی اصلاحات میں مدغم کرنے کی کوشش کی گئی مگر چیف الیکشن کمیشن نے ان کی کوششوں کو آئین و قانون کے ذریعے ناکام بنا دیا۔ سابق حکومت نے ڈسکہ کے حلقہ این اے 75 کے ضمنی انتخاب میں جو روش اختیار کی اور الیکشن کے نظام کو جس طرح نقصان پہنچایا اور چیف الیکشن کمشنر کے اختیارات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان کے احکامات کو تسلیم نہ کرنے کی جو روش اختیار کی گئی، اس حقیقت کو جاننے کے لیے اس وقت کے چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس کے آف دی ریکارڈ بیان پر انکوائری کرائی جائے تو ممکن ہے کہ ملک کی بعض ممتاز سیاسی شخصیات اس کی زد میں آ جائیں اور وزیر اعظم ہاؤس کے اہم بیوروکریٹ بھی قانون شکنی کے مرتکب قرار پائیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف کو چاہیے کہ ڈسکہ کی رپورٹ کا مطالعہ کریں‘ انتخابی اصلاحات کے راز خود بخود کھلتے جائیں گے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کے حلف اٹھانے کی رسم میں جو طریقہ صدر مملکت نے اپنایا وہ ناپسندیدگی کے زمرے میں آتا ہے۔ صدر، گورنر اور سپیکر حلف اُٹھاتے ہیں کہ وہ جماعتی وابستگی سے بالا تر ہو کر آئین اور قانون کے پاسدار ہوں گے اور غیر جانب داری سے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں گے مگر صدر مملکت، گورنر اور سپیکر قومی اسمبلی نے جس رویے کا اظہار کیا‘ اس کا بین مطلب یہ ہے کہ ان کے پارٹی لیڈر کی ذات ان کے نزدیک ان کے لیے اپنے منصب سے بڑھ کر ہے۔ انہوں نے بادی النظر میں اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے اور اس پر ان کے خلاف ریفرنس بھی دائر کیا جا سکتا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے قومی اسمبلی سے استعفے دیے جانے کی صورت میں اقدامات کی حکمتِ عملی بنائی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن نے انتظامی فیصلہ کیا ہے کہ خالی ہونے والے حلقوں میں ضمنی انتخابات کرائے جائیں گے۔ بعض اطلاعات کے مطابق تحریک انصاف کی جانب سے استعفے ابھی تک سپیکر چیمبر میں جمع نہیں کرائے گئے جبکہ عمران خان صاحب کا دعویٰ ہے کہ سپیکر سمیت 135 ارکان قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو چکے ہیں۔ تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت نے پارلیمانی پارٹی کے آخری اجلاس میں اپنے ارکان کو تحریک انصاف کے لیٹر پیڈ پر ایک پروفارما دیا تھا جسے پُر کر کے پارٹی کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل عامر کیانی کے حوالے کیا گیا۔ اندرونی طور پر یہ بات گردش کر رہی تھی کہ اس جماعت کے 135 ارکان مستعفی ہو گئے ہیں جبکہ آئین کے آرٹیکل 64 اور قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط کے رولز 43‘ جو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور جسٹس (ر) آصف سعید کھوسہ کے فیصلے کی روشنی میں استعفیٰ کا مکمل طریق کار وضع کرتا ہے‘ میں بتایا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 64 (چار) کے تحت کوئی رکن اپنی دستخط شدہ تحریر کے ذریعے استعفیٰ دے سکتا ہے جس کے بعد سپیکر متعلقہ رکن سے رازداری میں معلوم کرے گا کہ استعفیٰ رضا کارانہ ہے‘ کسی دباؤ کا نتیجہ تو نہیں؟ جبکہ اس سوال پر کہ استعفیٰ حقیقی ہے یا پارٹی دباؤ یا کسی اور وجہ سے ہے، سپیکر استعفیٰ کے حقائق جاننے کے لیے کسی بھی حساس ادارے کا تعاون حاصل کر سکتا ہے اور خفیہ ایجنسی کی رپورٹ آنے کے بعد ہی سپیکر استعفیٰ کے سوال پر فیصلہ کرے گا۔
2014ء کے اوائل میں تحریک انصاف کے 26 ارکان قومی اسمبلی نے استعفے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کو پیش کیے تھے جنہوں نے اپنی رولنگ کے تحت کچھ عرصہ بعد ان استعفوں کو مسترد کر دیا تھا۔ اسی طرح 2015ء اور 2016ء میں متحدہ قومی موومنٹ کے ارکانِ قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی اور سینیٹ نے استعفے دے دیے تھے جنہیں سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ نے اسمبلی کے قواعد و ضوابط کے تحت مسترد کر دیا تھا۔ انفرادی طور پر استعفیٰ جاوید ہاشمی کا ہی منظور کیا گیا تھا‘ سینیٹر مصطفی کمال کا استعفیٰ بھی چیئرمین سینیٹ نے مسترد کر دیا تھا۔ بعد ازاں مخصوص حالات میں یہ استعفیٰ غالباً منظور کرا لیا گیا تھا۔ قائم مقام سپیکر نے اگر قواعد و ضوابط کے برعکس استعفے منظور کر کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوائے ہیں تو میرے خیال میں الیکشن کمیشن منظوری سے پیشتر اٹارنی جنرل کی رائے کو مدِ نظر رکھے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں