"KDC" (space) message & send to 7575

تحریک انصاف فارن فنڈنگ کیس

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں فارن فنڈنگ کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ تیس دن کے اندر اس کیس کو منطقی نتیجہ تک پہنچا دیا جائے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلے میں لکھا ہے کہ اگر ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہو جاتی ہے تو تحریک انصاف کو نتائج بھگتنا ہوں گے۔ ظاہر ہے سیاسی جماعت اور اس کے چیئرمین کی حیثیت بھی متاثر ہو گی۔ تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل اسد عمر زمینی حقائق اور آئین و قانون سے آگاہ نہیں، اسی طرح چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو بھی فارن فنڈنگ کیس میں اندھیرے میں رکھا گیا جبکہ ان کے ترجمان اور وزرا گمراہ کن بریفنگز دیتے ہوئے میڈیا میں کوریج حاصل کرتے رہے اور اسد عمر کو ورغلا کر اسلام آباد ہائی کورٹ میں اکبر ایس بابر کے خلاف درخواست دائر کروا کر تحریک انصاف کی راہ میں مشکلات کھڑی کی گئیں۔ الیکشن کمیشن کو پارٹی چیئرمین کی جاری کردہ دستاویزات‘ جو اُن کے دستخطوں کے ساتھ بھجوائی گئی تھیں‘ میں تصدیق کی گئی تھی کہ ان کی پارٹی فنڈنگ میں ممنوعہ فنڈنگ نہیں ہوئی ہے‘ اب اگر اس کے برعکس ثابت ہو جاتا ہے تو الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ210 کے تحت ان کے صادق، امین ہونے پر سوالات اُٹھائے جائیں گے اور بہت سے دوسرے معاملات بھی سامنے آ جائیں گے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے منحرف اراکین قومی اسمبلی کی تا حیات نا اہلی کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان میں درخواست دائر کر رکھی ہے جس میں منحرف اراکین کی عوامی عہدوں کے لیے تا حیات نا اہلی کی استدعا کی گئی ہے۔ بادی النظر میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے پاس آئین کے آرٹیکل 63 (اے) میں ترامیم کے لیے ایسی کوئی نظیر نہیں، آئین میں ترمیم پارلیمنٹ کے ذریعے ہی ہو گی اور اس کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس طرح تحریک انصاف نے منحرف اراکین کے خلاف سابق سپیکر قومی اسمبلی کی وساطت سے آئین کے آرٹیکل 63 (اے) کے تحت ریفرنس بھجوائے ہیں، حیرت ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے ریفرنس بھجواتے وقت آئین کے آرٹیکل 63 (اے) کی روح کو نہیں دیکھا اور عجلت میں انہوں نے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ سے بھی قانونی رائے لینے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ تحریک انصاف کے 21 منحرف اراکین نے عدم اعتماد کی تحریک میں اپنے ووٹ کا استعمال نہیں کیا۔ نہ ہی انہوں نے وزیر اعظم کے اعتماد کے حق میں ووٹ میں اپنا حصہ ڈالا نہ ہی مخالفت کی، لہٰذا آئینی و قانونی طور پر پارٹی سے منحرف اراکین قومی اسمبلی آئین کے آرٹیکل 63 (اے) کی زد میں نہیں آتے‘ غالب امکان ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان مذکورہ ریفرنس کی استدعا مسترد کر دے گا۔ مجھے حیرانی ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے پاس جو آئینی و قانونی ماہرین موجود ہیں انہوں نے ایسی ناقص رائے کیوں دی جس سے تحریک انصاف کے اندرونی سسٹم پر سوالیہ نشان اُٹھائے جا رہے ہیں۔ دراصل 25 جولائی 2018ء کے انتخابات میں کامیابی اور وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد عمران خان نے ایسے تمام دانش ور، آئینی اور قانونی ماہرین کی ٹیم کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے ایڈوائزرز کو اپنے قریب رکھا اور انہوں نے کمال ہوشیاری سے خان صاحب کو گھیرا ہوا تھا اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ عمران خان کو قدم قدم پر پشیمانی اُٹھانا پڑ رہی ہے اور ہر معاملے میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ کوئی درست بات ان تک نہیں پہنچنے دے رہے۔ اسی طرح ان کے قانونی ماہرین نے الیکشن کمیشن کے حلقہ بندی کے شیڈول کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے، حالانکہ الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 51 (3) کے تحت حلقہ بندی کرانے سے پیشتر آئین میں ترمیم کا خواہاں ہے جس کے تحت عبوری مردم شماری کے متبادل مستقل مردم شمار کو آئین کے آرٹیکل 51 کا حصہ بنانا ہے‘ سابق حکومت نے آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کی ان تجاویز کو نظر انداز کر دیا تھا۔ اب اپیل کے دوران جب سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کا موقف سنے گی تو ممکن ہے کہ وہ تحریک انصاف کے وکلاسے سوالات پوچھے کہ جب ملک کے اہم آئینی ادارے نے آئین میں ترمیم کے لیے تجاویز دی تھیں تو حکومت نے انہیں کس بنیاد پر نظر انداز کیا ۔ اس سوال پر ممکنہ طور پر تحریک انصاف کو سبکی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
عمران خان الیکشن کے اعلان تک جلسے جلوسوں کے ذریعے عوامی رابطے کی مہم جاری رکھیں گے۔ ایسی سیاست اس وقت ہی کامیاب ہوتی ہے جب عام انتخابات کا شیڈول جاری ہو جائے۔ الیکشن کے اعلان کے بعد عوام کو متحرک کرنا جمہوری طریقہ ہے‘ مگر ان حالات میں جب اتحادیوں پر مشتمل نئی حکومت قائم ہو گئی ہے‘ مجھے عام انتخابات اکتوبر 2023ء سے پہلے ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہے‘ جبکہ تحریک انصاف کی قیادت استعفوں کی سیاست میں اُلجھ کر اندرونی طور پر فکری تقسیم کا شکار ہے۔ اگر ڈپٹی سپیکر استعفوں کی تصدیق کے لیے پارلیمنٹ رولز 43 کے تحت کارروائی کرتے تو اراکین قومی اسمبلی نے تصدیقی عمل سے لا تعلق ہونا ہی تھا‘ اور اب چونکہ ضمنی انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت 60 روز میں انتخابات کرانے کا پابند ہے اور آرٹیکل 222 کے تحت الیکشن کمیشن کے مکمل اختیارات ہیں کہ وہ انتخابی عمل میں ملک کے تمام اداروں سے معاونت حاصل کر سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ضمنی انتخابات خوش گوار ماحول میں مکمل ہو جائیں گے۔ انتخاب کا شیڈول اگلے ہفتے متوقع ہے، جونہی ضمنی انتخابات مکمل ہوں گے تحریک انصاف کا حقیقی ووٹر صدمے سے دوچار ہو گا جبکہ پارٹی ایلیٹ کسی دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کر سکتی ہے۔ میری اطلاعات کے مطابق تحریک انصاف میں فارورڈ بلاک آگے بڑھ رہا ہے جن کی تعداد 35 کے لگ بھگ ہے۔ وہ قومی اسمبلی میں اپنا الگ گروپ تشکیل دے کر پارلیمنٹ کا حصہ بن جائیں گے جس میں دیگر چھوٹی جماعتیں بھی شامل ہو جائیں گی۔ظاہر ہے اس کے بعد سیاسی منظر میں تبدیلی آئے گی۔
مرکز میں اتحادیوں پر مشتمل حکومت تشکیل پا گئی ہے اور اس حکومت میں اتحادیوں کو خاطر خواہ نمائندگی دی گئی ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ اتحادیوں کی قومی حکومت برقرار رہے گی۔ میرا یہ بھی خیال اور اندازہ ہے کہ عمران خان کی ہنگامہ آرائی پر مشتمل احتجاجی تحریک وقت کے ساتھ اپنی اہمیت کھو بیٹھے گی اور ان کی جماعت قانونی مسائل کی زد میں آ کر پارٹی کے انتخابی نشان اور الیکشن کمیشن میں پارٹی رجسٹریشن سے بھی محروم ہو سکتی ہے۔ ممنوعہ فنڈنگ‘ اگر وہ ثابت ہو جاتی ہے تو‘ کی ضبطی کے خاطر خواہ نتائج سامنے آئیں گے اور اس طرح پارٹی اپنے مفاد کی خاطر سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کرنے میں مصروف ہو جائے گی۔ مجھے یہ بھی محسوس ہو رہا ہے کہ اس اہم موڑ پر ملک میں ایک مستقل مزاج نئی پارٹی کے قیام کے لیے خد و خال تیار کیے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے آگے کیا ہوتا ہے‘ اس کے لیے تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں