"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کب ہوں گے؟

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان ملک کے اندرونی سیاسی‘ معاشی اور آئینی بحران کو حل کے لیے فوری الیکشن کروانے کے اپنے مطالبے میں زور ڈالنے کے لیے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کی دھمکی دے رہے ہیں اور آزادانہ خارجہ پالیسی کی حقیقی تحریک شروع کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ وہ اپنی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی پشت پر مبینہ امریکی سازش کے بیانیے کا سہارا لے کر نوجوانوں میں اضطراب کی لہر پیدا کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہو رہے ہیں؛ چنانچہ میرے خیال میں موجودہ حکومت کو زمینی حقائق کی گہرائی میں جانا چاہیے۔ جلسوں میں عوام کی تعداد جاننے کے بجائے حکومت کو ادراک ہونا چاہیے کہ عمران خان کی آواز کروڑوں عوام تک پہنچ چکی ہے اور ان کے طاقت ور سوشل میڈیا نے ان کا بیانیہ گھر گھر پہنچا دیا ہے۔ یہاں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ دوسرے ممالک میں بیٹھے ملک دشمن عناصر سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں۔ یہ عناصر اپنے مذموم مقاصد کے لیے قومی اداروں کے خلاف زہر اُگل کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں‘ جس کا قومی اداروں نے بجا طور پر نوٹس لیتے ہوئے اسے عوام اور اداروں کے درمیان فاصلے بڑھانے کی کوشش قرار دیا ہے جبکہ کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں واشنگٹن میں پاکستان کے سفارت خانے سے موصول ہونے والے ٹیلی گرام پر غور کیا گیا۔ اس اجلاس میں سفیر اسد مجید خان نے کمیٹی کو اپنے ٹیلی گرام کے سیاق و سباق اور مواد کے بارے میں بریفنگ دی۔ قومی سلامتی کمیٹی نے مواد اور کمیونی کیشن کی جانچ کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کے گزشتہ اجلاس کے فیصلوں کی توثیق کی۔ قومی سلامتی کمیٹی کو پریمیئر سکیورٹی ایجنسیز نے دوبارہ اس بات سے آگاہ کیا کہ انہیں کسی سازش کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ قومی سلامتی کمیٹی نے کمیونی کیشن کا جائزہ لے کر اور سکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے موصول ہونے والے جائزوں اور پیش کردہ نتائج سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کوئی غیر ملکی سازش نہیں ہوئی ہے۔ وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر نے بھی کہا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی میں مراسلے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا اور سفیر کے مراسلے میں کسی بھی جگہ سازش کا ذکر نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مراسلہ ایک منجھے ہوئے سفارت کار نے لکھا تھا‘ اور ملک میں اعلیٰ سطح پر اس مراسلے کو پڑھا اور اس کا جائزہ لیا گیا‘ مگر سکیورٹی ایجنسیز کو بیرونی سازش کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ میں پاکستانی سفیر کی جانب سے بھیجے گئے مراسلے پر سابق حکومت کو فوری طور پر جائزہ لینے کے بعد ایکشن لینا چاہیے تھا اور انہیں امریکی سفارت خانے کو ایک مراسلہ بھیج کر اس بات کی تصدیق کرنی چاہیے تھی کہ اس مراسلے میں جو زبان استعمال کی گئی ہے کیا وہ امریکی حکومت کی ہے یا کسی ایک عہدے دار کی ہے۔ حنا ربانی کھر نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ میں اس بات کو اس طرح سمجھتی ہوں کہ اگر میں یہ کہتی ہوں کہ بھارت میں مودی رہے گا تو بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے تو اس کو مداخلت تو کہا جا سکتا ہے لیکن سازش نہیں کیونکہ یہ میری رائے ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس مراسلے کا ملک کے اعلیٰ سطحی فورم پر جائزہ لیا گیا، اس لیے میں سمجھتی ہوں کہ اس معاملے کو عدالتی کمیشن میں لے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔اب دیکھیں اس حوالے سے آگے حالات کیا کروٹ لیتے ہیں۔
قومی سلامتی کمیٹی کے جائزے کی روشنی میں عمران خان کی حکومت کے خلاف سازش تو ثابت نہ ہوئی مگر تحریک انصاف کے کلیدی رہنما بشمول عمران خان جوڈیشل کمیشن بنائے جانے پر اصرار کر رہے ہیں اور کچھ لوگ سوشل میڈیا پر اسد مجید کو پاکستان کے ہیرو کے طور پر پیش کر کے عوام کو گمراہ کر رہا ہے کہ اسد مجید نے برملا اعتراف کیا کہ امریکہ نے دھمکی دی تھی۔ پاکستان کے باشعور عوام کو احساس ہونا چاہیے کہ پاکستانی سفارت کار ذہین ترین بیوروکریٹس ہوتے ہیں جو جاری حالات و وقعات کو پورا ادراک رکھتے ہیں۔ وہ عوامی لہجے میں سرکاری موقف پیش نہیں کرتے‘ لہٰذا سوشل میڈیا پر ان کے بارے میں جو کچھ گردش کر رہا ہے وہ خود ساختہ نوعیت کے بیانات ہیں اور ایک مخصوص سیاسی جماعت کے حامی بلاگرز کی تیار کردہ وڈیو اپ لوڈ کی جا رہی ہیں۔
میرے خیال میں عمران خان صاحب کو الیکشن کمیشن پر بلا وجہ تنقید کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن میں جب بھی روزانہ کی بنیاد پر فارن فنڈنگ کیس کی سماعت ہوتی ہے تو عمران خان الیکشن کمیشن کے سربراہ کے بارے میں ایسے ریمارکس دینا شروع کر دیتے ہیں جو آئین کے آرٹیکل 204 اور الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 10 کے زمرے میں آتے ہیں۔ اسی طرح الیکشن کمیشن نے ابھی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر ان کے خلاف الیکشن ایکٹ کی دفعہ 234 کے تحت بھی فیصلہ کرنا ہے۔ اگرچہ مختلف حلقوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ الیکشن جلد ہو جائیں گے لیکن میری رائے میں الیکشن وقت مقررہ پر ہی ہوں گے کیونکہ موجودہ بحرانی کیفیت میں الیکشن کروائے گئے تو ملک کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ بلوچستان میں شرپسندی کی تازہ ترین لہر کو ملکی اداروں نے ختم کرنا ہے۔ میرا خیال ہے کہ بلوچستان کے الیکشن میں غیرملکی سازش کے ذریعے شر پسندوں کو کامیاب کرانے کے لیے غیرملکی سرمایہ کا استعمال ہو سکتا ہے۔ اسی طرح قبائلی اضلاع میں بھی بد امنی پیدا کر کے من پسند امیدواروں کو آگے لایا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی کمزور وزیر اعلیٰ ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ عمران خان غیر ملکی سازش کے بیانیہ کی آڑ میں اپنے مخالفین پر حملہ آور ہوں گے اور انتخابا ت میںایسی صورت حال پیدا ہو جائے گی جس کو سنبھالنا نگران حکومت کے بس سے باہر ہو گا‘ لہٰذا ابھی بارہ‘ تیرہ ماہ موجود ہیں‘ اس عرصہ میں مقتدر حلقوں کو ڈائیلاگ کے ذریعے تمام سیاسی فریقوں کو اندھی اور جذباتی کیفیت سے نکالنا ہو گا اور عمران خان‘ جو لانگ مارچ کے ذریعے اسلام آباد کو بند کرنے کا عزم رکھتے ہیں‘ اس کے ممکنہ نتائج سے آگاہ کرنا بہت ضروری ہے۔
الیکشن کمیشن نے اسی سال لوکل گورنمنٹ کے انتخابات بھی کروانے ہیں اور حلقہ بندیوں کے مرحلے سے بھی گزرنا ہو گا۔ اسی دوران فارن فنڈنگ کیس کے بارے میں بھی اہم پیش رفت کی متوقع ہے‘ لہٰذا میری رائے میں اس ساری صورتحال میں فوری انتخابات کا انعقاد ممکن نظر نہیں آ رہا۔
حکومت انتخابی اصلاحات پر کام کر رہی ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی نے پارلیمانی کمیٹی بھی قائم کر دی ہے جو انتخابی اصلاحات کے ذریعے انتخابات کے لیے نئی راہ نکالے گی۔ انتخابی اصلاحات 2014ء میں انتخابی کمیٹی قیام ہوئی تھی جس کے نتیجے میں 2017ء الیکشن ایکٹ میں نمایاں انتخابی اصلاحات ہو چکی ہیں اور سابق حکومت نے بھی 2021ء میں انتخابی اصلاحات کا بل پیش کیا تھا۔ سابق حکومت نے 49 کے لگ بھگ اصلاحات کو بھی قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا جس کی بعض شقوں پر عمل درآمد کے لیے موجودہ حکومت کو قانون سازی کرنا ہو گی۔ اسی طرح سپریم کورٹ کو صدارتی ریفرنس کے حوالے سے فیصلے بھی سنانا ہیں جو کہ اہم سفارشات پر مبنی ہو سکتے ہیں‘ میرے خیال میں ان سفارشات کو بھی انتخابی اصلاحات کے بل میں شامل کر لینا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں