"KDC" (space) message & send to 7575

سیاستدان حقائق سے آگاہی حاصل کریں !

الیکشن کمیشن نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی تقاریر کا نوٹس لیتے ہوئے چیئرمین پیمرا سے عمران خان‘ سینیٹر اعجاز چودھری‘ صوبائی اسمبلی سندھ کے ارکان خرم شیر زمان اور حلیم عادل شیخ کی ویڈیوز حاصل کر لی ہیں جن میں انہوں نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ پر توہین آمیز الزامات لگائے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان آئین کے آرٹیکل 204 ‘ 63 (1) اور الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 10 کے تحت کارروائی کا آئینی استحقاق رکھتے ہوئے ان کو توہین عدالت کے تحت پانچ سال کے لیے نااہل بھی قرار دے سکتا ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف نے چیف الیکشن کمشنر کے بارے جو ریمارکس دیے ہیں ان کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ شوکاز میں ثبوت پیش کرنا ہو گا‘ اگر وہ ایسا نہ کر سکیں تو محض الزامات اور تہمت لگانے کے جرم میں آئین کے آرٹیکل 62(1) ایف کے تحت تا حیات نا اہل بھی ہو سکتے ہیں۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان عوام کو امریکہ کے خلاف جارحانہ انداز میں اکسا رہے ہیں کہ امریکہ نے پاکستان کے میر جعفر اور میر صادق مزاج لوگوں کے ساتھ مل کر سازش کر کے ان کی حکومت کو ختم کیا او ر ملک پرکرپٹ عناصر مسلط کر دیے‘ لہٰذا وہ ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے اور عیدالفطر کے بعد اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کی کال دیں گے اور یہ کہ وہ پوری قوم کو اسلام آباد لا کر پیغام دیں گے اور دھرنا اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک نئے الیکشن کا انعقاد نہیں ہو جاتا۔ عمرا ن خان کے اس جارحانہ لہجے کا عمیق جائزہ لیا جائے تو میرے خیال میں ان کے خطابات ریاست سے بغاوت کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان کی پارٹی کے ارکان نے تحریک عدم اعتماد میں اپنے ووٹ کا استعمال نہیں کیا‘ اس طرح وہ وزیر اعظم کے انتخاب میں بھی الگ تھلگ رہے۔ دراصل عمران خان کے اتحادیوں نے ان سے لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے ان کی حکومت جمہوری اور آئینی انداز میں گرا دی اور عمران خان کے حامی ارکانِ قومی اسمبلی نے تحریک عدم اعتماد کے دوران ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا اور وزیر اعظم کے انتخاب میں کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے باوجود شاہ محمود قریشی‘ جو وزیر اعظم کے امیدوار تھے‘ نے وزیر اعظم کے انتخاب میں آئینی طور پر حصہ لینے کے بجائے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ حکومت کو تسلیم نہ کرنا اُن کا جمہوری حق ہے لیکن اسلام آباد میں گروہ کی صورت میں آ کر آئینی اداروں کو چیلنج کرنا ریاست سے بغاوت تصور کیا جائے گا۔
خان صاحب کو ادراک ہونا چاہیے کہ اب وہ اگست 2014ء میں نہیں کھڑے جب اکیلی مسلم لیگ (ن) مرکز میں برسر اقتدار تھی‘ اب 12 جماعتوں کے اتحاد سے بننے والی مضبوط حکومت قائم ہے۔ 2014ء کے دھرنے میں خان صاحب کو ڈاکٹر طاہرالقادری کے ارکان کی حمایت بھی حاصل تھی۔ سردار یار محمد رند کے بقول اسلام آباد کے دھرنے میں عمران خان کے ورکروں کی تعداد تین ہزار کے لگ بھگ تھی‘ جم غفیر تو ڈاکٹر طاہر القادری کا تھا اور عمران خان کو ڈی چوک جانے کے لیے محفوظ راستہ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے فراہم کیا تھا۔ عمران خان ایسی جماعت کے سربراہ ہیں جو وفاق کی علامت سمجھی جاتی ہے‘ ان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ آئینی اداروں کے سربراہان کے بارے غیر مصدقہ ریمارکس دیتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دفاتر کے سامنے احتجاجی مظاہرے کریں۔ زمینی حقائق یوں ہیں کہ اگلے روز الیکشن کمیشن کے دفاتر کے باہر جو احتجاج کروایا گیا اس میں ان کے کارکنوں کی تعداد سینکڑوں تک ہی محدود تھی۔ اسلام آباد میں حکومت نے اہم شاہراہوںکے ارد گرد کنٹینر لگا کر دانش مندی کا مظاہرہ نہیں کیا‘ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے سابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کی پیروی کرتے ہوئے بلاوجہ کنٹینر لگوا دیے جبکہ پی ٹی آئی کے ورکرز اور ارکان پرامن تھے اور درجنوں کی تعداد میں آ کر انہوں نے تو اپنی سیاسی جماعت کی عوامی طاقت کا ڈھانچہ ہی زمین بوس کر دیا۔ اب ان حالات میں عمران خان پوری قوم کو آواز دے رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ دراصل ان کے دوستوں نے ان کو باور کروایا ہے کہ ان کی للکار سے پوری قوم اسلام آباد کی طرف رخ کرے گی جبکہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں کیونکہ عمران خان اپنے ساڑھے تین سالہ دورِ حکومت میں عوام کو ریلیف نہ دے سکے اور گورننس بھی اچھی نہیں تھی‘ جبکہ جہاں تک عوامی حمایت کا تعلق ہے تو امریکہ کی سازش کو پاکستان کے مقتدر حلقے مسترد کر چکے ہیں۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا یاد رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو اپنی خود ساختہ جلا وطنی کے بعد جب اپریل 1986ء میں پاکستان آئیں تو آنے سے پہلے انہوں نے امریکی انتظامیہ کے کلیدی حکام سے ملاقات کر کے امریکہ سے مفاہمت کر لی تھی اور جب ان کی آمد پر لاہور میں امریکی جھنڈے نذر آتش کئے جانے لگے تو بے نظیر بھٹو نے سختی سے منع کرتے ہوئے بیان جاری کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف عدالتی فیصلے میں امریکہ کا کوئی ہاتھ نہیں تھا اور بے نظیر بھٹو نے خلافِ توقع عوام کے جذبات ٹھنڈے کر دیے۔
عمران خان اپنے مشیروں کے مشورے سے جو ہنگامہ آرائی کرنا چاہتے ہیں‘ اس پر نظر رکھیں کیونکہ امریکہ نے خاص حکمت عملی کے تحت مصر کے صدر جمال عبدالناصر کے ارد گرد امریکہ مخالف مشیران کھڑے کر رکھے تھے جو صدر ناصر کو امریکہ کے خلاف اسی انداز میں احتجاج کراتے رہے جس طرح ان دنوں عمران خان کر رہے ہیں۔ اسی طرح صدام حسین کے ارد گرد بھی امریکہ مخالف لابی کھڑی کی گئی تھی اور کچھ عرصہ پہلے ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے کہ صدر جمال عبدالناصر اور صدام حسین کے ارد گرد جو لوگ مقرر ہوئے تھے وہ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایجنٹ تھے۔ عمران خان کو یہ بھی احساس ہونا چاہیے کہ صدام حسین نے اپنے 28 سالہ دورِ حکومت میں عراق کو صحیح معنوں میں فلاحی ریاست بنا دیا تھا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق صدام حسین نے عراق کو ایسی فلاحی ریاست بنا دیا تھا جس کی نظیر امریکہ اور برطانیہ میں بھی نہیں ملتی تھی جبکہ اس کے برعکس چند ارب ڈالرز کے حصول کی خاطر عمران خان نے پاکستان کو ایک طرح سے آئی ایم ایف کا غلام بنا دیا۔
الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ فارن فنڈنگ کیس میں سیاسی پارٹیاں التوا کی ذمہ دار ہیں‘ کمیشن غیر جانبداری سے آئین کے آرٹیکل 218 کے تحت اپنے فرائض ادا کرتا رہے گا۔ تحریک انصاف سمیت 18 سیاسی پارٹیوں کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ پر کارروائی کا آغاز ہو چکا ہے۔ عمران خان نے قومی اسمبلی کے اراکین سے جو استعفے لیے تھے دراصل وہ بھی فنڈنگ کیس پر اثر انداز ہونے کی خصوصی حکمت عملی کے تحت ہی تھا اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی ہو چکا ہے کہ گیارہ ایسے اکاؤنٹس ہیں جو پارٹی کے کلیدی رہنماؤں کے نام پر ہیں جبکہ چیئرمین تحریک انصاف نے ان اکاؤنٹس سے لا تعلقی کا اظہار کیا ہے۔ یہ الجھا ہوا معاملہ بہت احتیاط کا متقاضی ہے۔ پی ٹی آئی کے علاوہ دیگر جماعتوں اور اشخاص کے خلاف بھی الیکشن کمیشن کو کارروائی کرنی چاہیے جو ممنوعہ فنڈنگ میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ سیاستدان اگر حقائق کی گہرائی تک جانا چاہتے ہیں تو فوری طور پر الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کا مطالعہ کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں