"KDC" (space) message & send to 7575

سیاسی و آئینی بحران سے اجتناب ضروری!

وزیر اعظم شہباز شریف نے گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کو برطرف کرنے کے لیے سمری آئین کے آرٹیکل 48 کے تحت دوبارہ بھیج دی ہے۔ آئین کے اس آرٹیکل کے تحت صدر اگر سمری کی منظوری نہیں دیتے تو دس دن میں گورنر پنجاب خود ہی اپنے عہدے سے فارغ ہو جائیں گے اور ان کی برطرفی کے بعد وزیر اعظم نئے گورنر کی تقرری کے لیے صدر مملکت کو نام بھجوائیں گے۔ اسی پس منظر میں آئین کے آرٹیکل 48 کو آئین کے آرٹیکل 101 سے ملا کر پڑھا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ صدر وزیر اعظم کے مشورے کا پابند نہیں ہے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 48 کی شق 2 کے تحت صدر کو وزیر اعظم اور کابینہ کے مشورے پر عمل کرنے کی ضرورت ہے‘ مگر یہ ان معاملات میں لاگو نہیں ہوتا جہاں صدر کو اپنی صوابدید کے مطابق کام کرنے کا اختیار حاصل ہو۔ آرٹیکل 48 کی یہ شق مزید اختیار فراہم کرتی ہے کہ صدر کی طرف سے اپنی صوابدید پر کئے گئے کسی بھی عمل کو کسی بھی بنیاد پر زیر بحث نہیں لایا جائے گا۔ صدر کے اختیارات اور صدر کے صوابدیدی فعل میں فرق ہے۔ آرٹیکل 101 کو آرٹیکل 48 (2) کے ساتھ اکٹھا پڑھا جائے تو اسرار کے دروازے کھلتے جاتے ہیں۔ ایوانِ صدر میں صدر کے آئینی معاون‘ جو سپریم کورٹ کے سابق جج بھی رہے‘ اور جن کا تعلق پاکستان کے نامور آئینی و قانونی ماہرین کے گھرانے سے ہے‘ کی طرف سے بھی یہی اشارے مل رہے ہیں۔ اب جس انداز میں صدر مملکت آئین کی شقوں کا جائزہ لے رہے ہیں‘ اس سے لگتا ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم کی طرف سے ارسال کردہ آئینی سمری‘ آرڈی نینس اور آئین کے آرٹیکل 182 کے تحت سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس بھجواتے وقت ادراک کو رہبر نہیں بنایا۔ اسی طرح میرا خیال ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز جج قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھجواتے وقت بھی آئین کی باریکیوں کو مد نظر نہیں رکھا گیا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان اس پر اپنی غلطی کا اعتراف کر چکے ہیں۔ اسی طرح جناب صدر مملکت نے عمران خان کو الیکشن کمیشن کے خلاف تحریک چلانے سے بھی نہیں روکا اور عمران خان نے ملک کے ایک اہم آئینی ادارے کے سربراہ پر الزامات لگائے تو صدر مملکت‘ جو تمام آئینی اداروں کے سرپرستِ اعلیٰ اور پاکستان کے سپریم کمانڈر ہیں‘ نے عمران خان کو مشورہ نہیں دیا کہ الیکشن کمیشن کے خلاف جو زبان وہ استعمال کر رہے ہیں وہ آئین کے آرٹیکل 204 کی زد میں آتی ہے اور اس سے وہ توہینِ عدالت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
پنجاب کے گورنر عمر سرفراز چیمہ جمہوری سوچ کے حامل ہیں۔ انہیں اب خود ہی اس کا فیصلہ کرنا چاہیے کہ اس دوران جب پنجاب سیاسی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے وہ اپنے منصب سے خود ہی علیحدہ ہو جائیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ صدر مملکت کو وزیر اعظم سے اور گورنر پنجاب کو وزیر اعلیٰ پنجاب سے حلف لینے میں رکاوٹیں نہیں کھڑی کرنی چاہئے تھیں۔ انہوں نے آئین کے آرٹیکل 91 (5) کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف تحریک عدم اعتماد‘ جو آئین کے آرٹیکل 95 کے مطابق عمل میں آئی‘ کے نتیجہ میں وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے اور وہ متحدہ اپوزیشن لیڈر بھی تھے جو مسلمہ اصولوں کے مطابق شیڈو وزیر اعظم ہوتا ہے‘ اسی طرح قومی اسمبلی کے سابق سپیکر اسد قیصر اور سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے تحریک عدم اعتماد کے دوران جو آئین شکنی کا مظاہرہ کیا‘ میرے اندازے کے مطابق اس میں بھی آئین کے آرٹیکل 95 کے خلاف قدم اٹھایا گیا۔ جب عدم اعتماد کی تحریک آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت پیش ہو چکی تھی تو میرا علم کہتا ہے کہ ڈپٹی سپیکر آئین کے آرٹیکل پانچ کو مد نظر رکھ کر عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کرنے کے مجاز نہیں تھے۔ اسی بنیاد پر سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی رولنگ کو کالعدم قرار دے کر 9 اپریل کو عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کرانے کا حکم دیا گیا جس کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت تحلیل ہو گئی۔ اس طرح رولز آف بزنس کے تحت وہ کسی قسم کی مراعات حاصل کرنے کے مجاز نہیں رہے‘ اگر مستعفی ہو جاتے تو مراعات کے حق دار تھے۔
وطنِ عزیز اپنی وحدت اور سالمیت کے اہم ترین موڑ پر کھڑا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کا اثر زائل کرنے کے لیے جس سفارتی مراسلے کا سہارا لے کر عالمی قوت کے خلاف محاذ آرائی کی جا رہی ہے پاکستان موجودہ حالات میں اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ نیشنل سکیورٹی کونسل کے اعلامیہ کے بعد اب یہ بحث جلسوں‘ جلوس اور دھرنوں میں نہیں ہونی چاہیے۔ میرا ادراک یہ کہتا ہے کہ اس کے پس پردہ عدم استحکام پیدا کر کے پاکستان کو ایٹمی قوت سے محروم کرنے کی سازش ہو سکتی ہے۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ ملکی سطح پر بعض سیاست دان بھی بین الاقوامی سازش کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ اسی طرح مسجد نبوی میں بعض عناصر نے جو نعرے بازی کی کہا جاتا ہے کہ اس کے تانے بانے بھی برطانیہ میں بیٹھے بھارتی شہریت کے حامل بعض عناصر نے تیار کیے تھے۔ عمران خان پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے چیئرمین ہیں۔ ان کو ایسے واقعات اور سازشوں پر گہری نظر رکھنی چاہیے اور جو عناصر اس میں ملوث پائے جا رہے ہیں ان کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔
ادھر پنجاب میں چند ہفتوں میں ایک سیاسی‘ قانونی اور آئینی بحران پیدا ہو سکتا ہے‘ جب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریک انصاف کے 26 منحرف اراکین صوبائی اسمبلی کا فیصلہ کرنا ہے۔ یہ بھی سنا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 204‘ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 10 اور 232 کے تحت عمران خان کے خلاف توہین عدالت پر کارروائی شروع کر دی ہے۔ شنید ہے کہ عمران خان اور ان کے ہمراہ سندھ اسمبلی کے ممبر خرم شہریار اور حلیم عادل شیخ کے خلاف بھی نوٹسز جاری کئے جائیں گے۔ سیاسی جلسوں میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے خلاف جس جارحانہ طریقے سے نعرے بازی کی جاتی ہے پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کو اس کا نوٹس لینا چاہیے کیونکہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 201‘ 202 اور 203 میں بھی سیاسی پارٹیاں ان دفعات پر عمل کرنے کی پابند ہیں۔
عمران خان وزارتِ عظمیٰ کی برطرفی کے بعد جس انداز میں عوام کو اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں یہ ملکی مفاد میں نہیں۔ شیخ رشید کے خدشات بے بنیاد نہیں جو کہہ رہے ہیں کہ 31 مئی تک معاملے کا حل نکالیں ورنہ حالات ہاتھ سے نکل سکتے ہیں‘ سیاسی لڑائی گلی محلوں تک پہنچ چکی ہے اور لانگ مارچ خونیں ہو سکتا ہے‘ لیکن میرے خیال میں لانگ مارچ الیکشن کی تاریخ متعین کرنے میں کامیاب ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ الیکشن کی تاریخ وفاقی حکومت‘ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور چاروں وزرائے اعلیٰ کی مشاورت سے ہی طے کی جا سکتی ہے کیونکہ آزادانہ اور غیر جانب دارانہ انتخابات کے لیے چاروں صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنا لازمی ہو گا۔ اسی طرح الیکشن کمیشن آف پاکستان نوے روز میں انتخابات کروانے کی پوزیشن میں ہے‘ اور نگران سیٹ اپ کے بعد ہی الیکشن کمیشن انتخابات کا شیڈول جاری کر سکے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں