"KDC" (space) message & send to 7575

قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف قرارداد

ریاستی اداروں کے حوالے سے بیانات پرسابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں مذمتی قرار داد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔یہ قرار داد مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی کی طرف سے پیش کی گئی تھی۔ قرار داد کے متن میں کہا گیا کہ افواج پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وطن کا دفاع کرتے ہوئے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ سیاسی فائدے کے لیے کسی بھی ریاستی ادارے کا تشخص مجروح کرنا پاکستان کی کوئی خدمت نہیں ہے۔ فوج کے خلاف علامتی گفتگو اور برصغیر کی تاریخ کے منفی کرداروں سے مثالیں پیش کرنا موجودہ حالات میں حساس اداروں کو نشانہ بنانے کے مترادف ہے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ نواب سراج الدولہ کے سپہ سالار میر جعفر نے غداری کرتے ہوئے پلاسی کی جنگ میں نواب سراج الدولہ کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا اور اس کے نتیجے میں نواب سراج الدولہ میر جعفر کے بیٹے میر مدن کے ہاتھوں قتل ہو گئے اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے میر جعفر کو بنگال کا نواب مقرر کر دیا‘ جس سے ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاؤں جمنے شروع ہو گئے اور 1857ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے دہلی پر قبضہ کر کے پورے ہندوستان کو ملکہ وکٹوریہ کی سلطنت میں شامل کر لیا۔ تاہم میر جعفر جیسے غدار کی مثال موجودہ حالات میں مناسبت نہیں رکھتی۔ سیاسی رہنماوں کو میر جعفر اور میر صادق سے تشبیہ دینا بھی درست نہیں۔ ہمارے سیاسی رہنماؤں کی کرپشن‘ منی لانڈرنگ اوربیرون ممالک جائیدادیں بنانے کے بارے میں تو عوام کو ضرور آگاہ کرنا چاہیے لیکن میر جعفر اور میر صادق جیسے اشارات سے کوئی اور مطلب اخذ کیا جاتا ہے۔ نتائج بھی خطرناک ہو سکتے ہیں۔سابق وزیر اعظم کو شاید اس کا ادراک نہیں۔ اسی لیے وہ ایسی باتیں کر رہے ہیں اور ایسی مثالیں دے رہے ہیں‘ جن کا موجودہ حالات سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔
عمران خان اقتدار سے علیحدگی کے بعد ملک میں امریکی خطرے کے حوالے سے جس انداز میں مہم چلا رہے ہیں اس سے ان کو آئندہ انتخابات میں اکثریت ملنے کے کافی امکانات ہیں لیکن اسلام آباد لانگ مارچ کے نتائج شاید ان کے حق میں نہیں آئیں گے کیونکہ انتخابات کروانے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے جبکہ خان صاحب الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کر چکے ہیں اور اس کے سربراہ کے خلاف سخت ریمارکس دیے ہیں۔ سنا ہے کہ ان معاملات پر توہین عدالت کے تحت چارج شیٹ کرنے کے لیے الیکشن کمیشن میں مشاورت بھی کی جاری ہے۔ اس طرح الیکشن کروانے کے لیے وفاقی حکومت اور چاروں صوبائی حکومتوں کی مشاورت بھی بہت ضروری ہے۔ ہو سکتا ہے عمران خان کے مطالبے (الیکشن کے انعقاد) کے لیے گرینڈ ڈائیلاگ ہوجاتا مگر خان صاحب تو اس وقت کے وزیراعظم اور ان کی کابینہ سے ملنا بھی گوارا نہیں کرتے جبکہ عسکری قیادت بھی اپنی پوزیشن واضح کر چکی اور سیاسی امور سے لا تعلقی کا واضح اظہار کر چکی ہے۔ پاک فوج کی جانب سے جاری ایک بیان میں اس ضرورت کی بطور خاص نشاندہی کی گئی ہے کہ ملک کے بہترین مفاد میں فوج کو سیاسی گفتگو سے دور رکھا جائے اور واضح کیا گیا ہے کہ فوج اور اس کی قیادت کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایسے وقت میں جب پاکستان کو باہر سے ہائبرڈ جنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ اندرونِ ملک گفتگو اور مباحث میں احتیاط ضروری ہے۔
عمران خان لانگ مارچ کرتے ہوئے اسلام آباد میں دھرنا دیتے ہیں تو مطالبات کس کے سامنے رکھیں گے؟ اپنے قومی اسمبلی کے ارکان سے تو وہ استعفے لے چکے ہیں‘ اگر تحریک انصاف قومی اسمبلی میں موجود ہوتی تو عمران خان مضبوط ترین لیڈر آف دی اپوزیشن ہوتے‘ مگر انہیں احساس ہی نہیں ہو رہا کہ قومی اسمبلی میں ان کی عدم موجودگی کے کیا مضمرات ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح الیکشن کمیشن ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر ان کو جرمانے کی سزا دے دیتا ہے تب بھی ان کے کاغذاتِ نامزدگی چیلنج ہو سکتے ہیں کیونکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے سزا کے مرتکب افراد الیکشن میں حصہ لینے کے اہل نہیں ہوتے۔ اسی طرح اگر الیکشن کمیشن آرٹیکل 204 کو مدِنظر رکھتے ہوئے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 10 کے تحت ان کو توہینِ عدالت کے الزام میں چند منٹ کی سزا بھی دیتا ہے تو وہ پانچ سال کیلئے نااہل ہو جائیں گے۔ فارن فنڈنگ کیس میں بھی الیکشن کمیشن اگر محض ممنوعہ فنڈنگ کو بحق سرکار ضبط کر لیتا ہے تو موجودہ حالات میں وفاقی حکومت اپنے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت ان کی پارٹی کے خلاف کارروائی کرنے کی مجاز ہو گی کیونکہ ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہو جانے کے بعد اس پارٹی کو کالعدم قرار دینا وفاقی حکومت کے اختیار میں ہے۔ میرے ذاتی تجربے کے مطابق ممنوعہ فنڈنگ ضبط کئے جانے کی ممکنہ صورت میں الیکشن کمیشن دفعہ 215 کے تحت شاید آگے کارروائی نہ کرے اور حالات و واقعات وفاقی حکومت پر چھوڑ دے۔ الیکشن ایکٹ کی دفعات 212 اور 214 کے تحت الیکشن کمیشن اپنی سفارشات دینے کی پوزیشن میں ہے‘ اور وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ پارٹی کی ممنوعہ فنڈنگ کو ضبط کرلیا گیا ہے‘ لہٰذا ان دفعات کی روشنی میں وفاقی حکومت کارروائی کرے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آج کی حکومت ماضی کی اپوزیشن ہے۔ اگر عمران خان کے آئینی و قانونی ماہرین فارن فنڈنگ کیس کا معاملہ اپنے ہی دورِ حکومت میں نمٹا لیتے اور عدالتوں سے مؤخر نہ کراتے تو ممکن ہے کہ معاملہ ان کے دورِ حکومت میں ہی ختم ہو جاتا اور ممنوعہ فنڈنگ کی ضبطی کے بعد مزید کارروائی خود اپوزیشن کی حد تک ہی محدود ہو کر رہ جاتی۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کے خلاف عمران خان کے تضحیک آمیز رویے پر الیکشن کمیشن سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا سوچ رہا ہے‘ جس میں موقف اختیار کیا جائے گا کہ توہین عدالت کے مقدمے کا فیصلہ سپریم کورٹ کرے اور الیکشن کمیشن پر جو الزامات لگائے گئے ہیں ان کے ثبوت پیش کیے جائیں۔ بادی النظر میں سپریم کورٹ اس ریفرنس کو ریمانڈ بھی کر سکتی ہے اور الیکشن کمیشن کو گائیڈ لائن بھی دے سکتی ہے کہ وہ چونکہ خود مختار آئینی ادارہ ہے‘ لہٰذا آئین کے آرٹیکل 204 کے تحت خود ہی کارروائی کرے۔ اگر عمران خان الیکشن کمیشن کے نوٹسز کو نظرانداز کرتے ہیں تو آئین کے آرٹیکل 222 کے تحت کارروائی ہوتی ہے۔
خان صاحب نے الیکشن کمیشن کے خلاف جو مہم شروع کر رکھی ہے ان کی کور کمیٹی‘ ان کے قریبی ساتھی اور آئینی و قانونی ماہرین ان کو اس کے مضمرات سے کیوں آگاہ نہیں کر رہے؟ یہ کہانی بھی گردش کررہی ہے کہ تحریک انصاف کے 50 سے زائد ارکان قومی اسمبلی نے سپیکر قومی اسمبلی سے رابطہ کیا ہے کہ ان سے دباؤ میں استعفے لیے گئے۔ تحریک انصاف کے ارکان آئندہ کا لائحہ عمل بھی بنا رہے ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قومی اسمبلی میں علیحدہ گروپ بھی بن چکا ہے۔ ایسے ارکان قومی اسمبلی آئین کے آرٹیکل 63 (اے) کی زد میں نہیں آئیں گے۔
ادھر پنجاب کی صورتحال خان صاحب کے حق میں جا رہی ہے کیونکہ 26 ارکانِ صوبائی اسمبلی کا فیصلہ آنے پر پنجاب کی حکمرانی میں شدید طوفان برپا ہو گا اور حمزہ شہباز کو اپنی اکثریت ثابت کرنے میں دشواری پیش آئے گی؛ تاہم پنجاب میں گورنر کی سبکدوشی کے بعد پنجاب عمران خان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے جبکہ چوہدری پرویز الٰہی خود تحریک عدم اعتماد کی لپیٹ میں آ چکے ہیں اس لیے وہ ان کی معاونت نہیں کر سکیں گے۔ یوںعمران خان لانگ مارچ کے منطقی انجام کے بعد سیاسی طور پر کمزور وکٹ پر کھڑے ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں