"KDC" (space) message & send to 7575

اراکینِ اسمبلی کا ریفرنس، حساس معاملہ

پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ صدرِ مملکت کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کی گئی جو بادی النظر میں صدر مملکت کے خلاف مواخذہ کی کارروائی کی پہلی منزل محسوس ہوتی ہے۔ قرارداد کے مطابق صدر ڈاکٹر عارف علوی نے گورنر پنجاب کی تقرری کے معاملے میں غیر آئینی احکامات جاری کئے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے: صدر مملکت نے ایوانِ صدر کے دفتر کا غیر آئینی استعمال کیا‘ یہ ایوان صدر مملکت کے غیر آئینی احکام کی مذمت کرتا ہے۔ صدر مملکت کے خلاف قراردادِ مذمت کی منظوری سے فیڈریشن کی وحدت پر گہرا اثر پڑنے کا احتمال ہے اور بین الاقوامی سطح پر بھی یہ تاثر جائے گا کہ پاکستان آئینی‘ قانونی اور پارلیمانی بحران کا شکار ہے۔
صدر مملکت پاکستان کے سپریم کمانڈر ہیں اور افواجِ پاکستان سرحدوں کی حفاظت پر مامور ہیں اور اندرونی طور پر دہشت گردی کی جنگ میں بھی پیش پیش ہیں‘ مگر ان حالات میں وفاقی دارالحکومت اور پارلیمانی راہداریوں میں مغل دور کی طرز پر محلاتی سازشیں ہوتی محسوس ہو رہی ہیں جن سے صورت حال سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ سابق حکومت کے مشیران نے آئین کی غلط تشریح کر کے صدر مملکت اور موجودہ وزیر اعظم کے مابین اختلافات پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ صدر مملکت کو ریاست کے مفاد کو مدِ نظر رکھنا ہے اور آئین کی تشریح کے لیے اٹارنی جنرل آف پاکستان کی معاونت سے یہ کام بہتر انداز میں ہو سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن سے بھی مشاورت کرنے میں حرج نہیں کیونکہ صدر مملکت آئینی اداروں کے سرپرستِ اعلیٰ ہیں۔ جو ماہرین سابق حکمرانوں کو غلط مشورہ دے کر ان کو گھر بھجوانے میں پیش پیش تھے صدر مملکت کو ان آئینی ماہرین سے مشورہ کرنے کے بجائے ایسے ماہرینِ قانون سے مشاورت کرنی چاہیے جو ریاست کے مفاد میں آئین کی تشریح کرتے ہیں۔ سنا ہے کہ عمران خان کے با اعتماد ماہرین اپنی پارٹی کے منشا کے مطابق آئینی تشریحات کے ذریعے صدر مملکت کی لیگل ٹیم کو اپنے انداز میں چلا رہے ہیں جس سے فیڈریشن کی ساکھ متاثر ہونے کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہے۔ صدر مملکت کو وزیر اعظم کا حلف لینے میں کیوںدشواری پیش آئی؟ وزیر اعظم کا انتخاب جس طرح بھی ہوا‘ پارلیمانی روایت اور آئین کے مطابق ہی ہوا؛ چنانچہ یہ پوچھنا بنتا ہے کہ صدر مملکت کو حلف نہ لینے کے حوالے سے کون سی تشریح پیش کی گئی؟ قوم کو آگاہ کرنا چاہیے کہ صدر مملکت نے کس بنیاد پر حلف لینے سے معذوری کا اظہار کیا۔ اگر انہیں موجودہ سیٹ اپ پر اعتراض ہے تو پارٹی کے مفاد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہیے‘ جس طرح صدر پرویز مشرف نے حالات کو دیکھتے ہوئے 18 اگست 2008ء کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریک انصاف کے 22 ارکانِ قومی اسمبلی‘ جو منحرف ہو گئے تھے‘ کی نااہلی کا ریفرنس آئین کے آرٹیکل 63 (اے) کو مدِنظر رکھتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ اس ریفرنس کا اگر میڈیا کے تحقیقی رپورٹرز جائزہ لیں تو ان کو اندازہ ہو گا کہ ریفرنس بھجواتے وقت ایسی غلطیاں کی گئیں جنہیں دیکھ کر قومی اسمبلی کے سابق سپیکر کی اہلیت کا اندازہ ہو جائے گا۔ آئینی طور پر ان منحرف ارکان نے تحریک عدم اعتماد کی کارروائی میں حصہ نہیں لیا تھا‘ نہ ہی وزیر اعظم کے انتخاب میں ووٹ کاسٹ کیے تھے‘ اگر شاہ محمود قریشی وزیر اعظم کے انتخاب سے علیحدگی اختیارکرنے کے بجائے باقاعدہ طور پر انتخاب لڑتے اور یہ منحرف ارکان ان کو ووٹ نہ دیتے تو پھر آئین کے آرٹیکل 63 (اے) کے تحت یہ ارکان نااہل ہو جاتے۔ تحریک انصاف کے سابق وزراء دلیل دے رہے ہیں کہ وہ ارکان سندھ ہاؤس میں رہے اور پارٹی کے خلاف بیانات دیتے رہے اور اپنی پوزیشن سے واضح کر دیا کہ وہ حکومت سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں۔ اپنی پارٹی کے وزیر اعظم کے خلاف انہیں ووٹ دینے کی ضرورت اگرچہ نہیں پڑی مگر 10 اپریل کو جب عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوئی تو وہ ارکان اُس وقت کی حکومت کے خلاف نشستوں پر ہی بیٹھے تھے‘ تو ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے تھی‘ مگر 14ویں آئینی ترمیم میں غالباً 1998ء میں یہ شق موجود تھی کہ پارٹی کے سربراہ کے خلاف رائے رکھنے والے ارکان اسمبلی کو آئین کے آرٹیکل 63 (اے) کے تحت اسمبلی کی نشست سے محروم کر دیا جائے لیکن 18ویں ترمیم میں آئین کے آرٹیکل 63 (اے) میں ترمیم کر کے پارٹی کے سربراہ کے اختیارات کو محدود کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی کے 26 ارکان کی نااہلی کا کیس الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہے۔ ممکن ہے کہ 20 مئی سے پہلے اس کیس کا فیصلہ سنا دیا جائے۔ بادی النظر میں ان ارکانِ صوبائی اسمبلی کا معاملہ انتہائی حساس نوعیت کا ہے۔ تکنیکی بنیاد کو مدنظر رکھا جائے تو ان کی نااہلی کا معاملہ آرٹیکل 63 (اے) کی زد میں نہیں آتا کیونکہ چوہدری پرویز الٰہی پاکستان مسلم لیگ (ق) کے نمائندہ کے طور پر وزیر اعلیٰ کا انتخاب لڑ رہے تھے جوقانونی طور تحریک انصاف کی اتحادی نہیں۔ یہ پارٹی تحریک انصاف کی سیاسی طور پر اتحادی ہے لیکن الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 215کے تحت الحاق شدہ نہیں ہے۔ پرویز الٰہی کی پارٹی نے علیحدہ انتخابی نشان کے تحت انتخاب میں حصہ لیا‘ لہٰذا اب جبکہ تحریک انصاف کے 26 ارکان صوبائی اسمبلی نے پارٹی کے چیئرمین کے فیصلے کے برعکس ‘ اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے بجائے اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دیے تو اس سے آئینی و قانونی اشکال پیدا ہوتا ہے‘ جس کو الیکشن کمیشن یا سپریم کورٹ ہی نے حل کرنا ہے۔ ان ارکان صوبائی اسمبلی نے اپنے جوابات الیکشن کمیشن کو بھجوائے ہیں‘ اس طرح الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 202 اور 203 کے تحت جو پارٹی رجسٹرڈ ہوتی ہے تو اسی ایکٹ کی دفعہ 205 میں پارٹی سے خارج کرنے کا طریقہ کار بھی بتایا گیا ہے جس کے تحت پارٹی کے دستور کے مطابق کسی رکن کو پارٹی سے خارج کرتے وقت پارلیمانی لیڈر یا پارٹی چیئرمین کو ورکنگ کمیٹی کی منظوری ضروری ہے۔اب اگر ان 26 ارکان صوبائی اسمبلی نے پارٹی کی پالیسی کے خلاف قدم اٹھایا ہے تو میرے خیال میں پارٹی کے سربراہ کو ان کے خلاف دفعہ 205کے تحت کارروائی کر کے ریفرنس سپیکر کی وساطت سے الیکشن کمیشن کو بھجوانا چاہیے۔
تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن آف پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لیے ادارے کے سربراہ اور ممبرز الیکشن کمیشن کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھجوانے کا اعلان کیا ہے۔ اگر چیف الیکشن کمشنر پر الزامات لگائے جا رہے ہیں کہ ان کی ہمدردیاں کسی پارٹی کے ساتھ ہیں تو صدر مملکت جو اس ایک ماہ کے عرصے میں بظاہر آئین کی روح کے مطابق آگے نہیں بڑھ رہے‘ وہ بھی اس الزام کی زد میں آ سکتے ہیں اور ان کے خلاف تو قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر قرارداد مذمت بھی منظور ہو چکی ہے۔ عمران خان صاحب پاکستان کے وزیراعظم رہ چکے ہیں اور ان کی ملکی سطح پر مقبولیت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا‘ آئندہ انتخابات میں ممکن ہے کہ وہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہو جائیں۔ انہیں اپنے ارد گرد مشیران پر نظر رکھنی چاہیے اور پارٹی کے اندر سے عمر سرفراز چیمہ جیسی شخصیات کو آگے لایا جانا چاہیے جبکہ حالات کے تقاضے کو مد نظر رکھتے ہوئے صدر مملکت کو اپناآئینی کردار ادا کرتے ہوئے گول میز کانفرنس طلب کرنی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں