"KDC" (space) message & send to 7575

وقت کا تقاضا

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی مبینہ وڈیو نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ انہیں کچھ ہوا تو پاکستانی عوام انہیں انصاف دلوائیں گے۔ اطلاعات ہیں کہ انہوں نے اپنی مذکورہ وڈیو لندن میں کسی جگہ محفوظ کر رکھی ہے۔ ماضی میں جھانکیں تو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ان کی صاحبزادی نے سیاسی قیادت سنبھال رکھی تھی اور ان کی پشت پر محترمہ نصرت بھٹو جیسی قدآور شخصیت کھڑی تھی‘ جنہوں نے لاکھوں پیروکاروں کے حوصلے بلند رکھے اور بے نظیر بھٹو دو مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوگئیں۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد آصف علی زرداری مردِ آہن بن کر سامنے آئے ‘ یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم بنایا گیا اور آصف علی زرداری خود صدر منتخب ہو گئے۔ سندھ میں ان کی پارٹی اُس وقت سے اقتدار میں چلی آ رہی ہے۔ اس کے برعکس عمران خان کی پارٹی میں ایسی کوئی قدآور شخصیت نہیں کہ خدانخواستہ کوئی حادثہ رونما ہوا تو ان کے نظریے اور نصب العین کو لے کر آگے بڑھ سکے۔ اللہ تعالیٰ خان صاحب کو ہر قسم کے خطرات سے محفوظ رکھے ‘ایسے حادثات سے ریاست کمزور ہوتی ہے اور فیڈریشن کو خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے قتل سے ریاست دشمن عناصر پاکستان کو جو نقصان پہنچانا چاہتے تھے‘ آصف علی زرداری نے حب الوطنی کے جذبے سے دشمن عناصر کے ان منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔
عمران خان کی وڈیو کے بیانیے کو جس انداز میں آگے بڑھایا گیا ہے‘ اس سے تحریک انصاف کا اندرونی سسٹم بھی خطرے کی زد میں ہے۔ ان کے ساتھی سیاستدان اور ورکر خوف زدہ ہو گئے ہیں۔ عمران خان نے وڈیو کا بار بار ذکر کرکے اپنی پارٹی کے نظریے کو بھی کمزور کیا ہے۔ عمران خان نے قومی اداروں اور دیگر سیاسی جماعتوں کے خلاف جس انداز میں مہم شروع کر رکھی ہے اس سے ان کو فائدہ نہیں پہنچ رہا‘ وہ عدلیہ اور الیکشن کمیشن کی زد میں آ سکتے ہیں۔
ایک تھیوری یہ بھی گردش کر رہی ہے کہ عمران خان نے اپنی وزارت ِ عظمیٰ کی برطرفی اور معزولی کو عوام میں اس انداز میں لانچ کیا کہ عوام میں ان کی مقبولیت بلندیوںتک پہنچ گئی ہے جس سے مقتدر حلقوں میں احساس اجاگر ہو رہا ہے کہ موجودہ حکومت کے گیارہ اتحادیوں سے مل کر بھی حکومت کا نظم و نسق نہیں چل پا رہا‘ لہٰذا درمیانی راستہ نکال کر ملک میں الیکشن کی تاریخ مقرر کر دی جائے۔ اگر مقتدر حلقے اس تھیوری کو عملی طور پر نافذ کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں تو اعلیٰ سطح کا اجلاس جو صدر مملکت کی سربراہی میں بلایا جانا چاہئے‘ جس میں چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف الیکشن کمشنر کا موقف سننے کے بعد فیصلہ کیا جائے اور انتخابات میں جو چند قانونی دشواریاں حائل ہیں ان کو دور کرنے کے لیے قانونی راستہ نکال کر چاروں صوبوں کی اسمبلیوں کو بھی تحلیل کر دیا جائے۔
موجودہ حالات میں پنجاب میں وزیراعلیٰ کا منصب بھی متنازع ہے اور اس کیس کا فیصلہ آج سنایا جائے گا۔ صوبہ پنجاب میں گورنر بھی موجود نہیں جبکہ صوبائی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر تحریک عدم اعتماد کی لپیٹ میں ہیں۔ پنجاب میں صوبائی کابینہ نہ ہونے کی وجہ سے پنجاب کی بیوروکریسی منہ زور ہو چکی ہے۔ حمزہ شہباز کو انتظامی امور کا بھی تجربہ نہیں ہے۔ پنجاب کے گورنر کے لیے جو سمری وزیراعظم نے صدر مملکت کو بھجوائی ہے اس پر صدر مملکت نے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا۔سندھ میں نامزد گورنر نسرین جلیل کے حلف اٹھانے کا مرحلہ بھی نہیں آیا ‘ صدر مملکت نے ابھی تک اس کی منظوری بھی نہیں دی جبکہ خیبر پختونخواکے گورنر کا معاملہ بھی اسی طرح معلق ہے۔ بلوچستان کی حکومت بھی برائے نام ہے اور وزیراعلیٰ کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ بلوچستان کے گورنر کی سمری بھی وزیراعظم پاکستان نے صدر کو بھیج رکھی ہے۔ اس پر بھی صدر کی طرف سے ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا۔
وفاقی حکومت بھی بے دست و پا دکھائی دیتی ہے اور انتخابی اصلاحات کے بارے میں حکومت اور اپوزیشن غیر سنجیدہ دکھائی دے رہی ہیں۔ اصولی طور پر موجودہ حالات میں انتخابی اصلاحات کی ضرورت نہیں ہے۔الیکشن ایکٹ 2017ء جامع حیثیت کی مکمل قانونی دستاویز ہے‘ اس میں مزید اصلاحات کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر انتخابی اصلاحات کو آگے بڑھایا تو پھر الیکشن 2023ء میں ہی ہوسکیں گے۔ انتخابی اصلاحات کے لیے جو قانون سازی ہونی ہے اس کے لیے قومی اسمبلی کا فورم قانونی طور پر کمزور ترین وکٹ پر کھڑا ہے۔ اپوزیشن کی غیر موجودگی میں انتخابی اصلاحات کے لیے قانون سازی یک طرفہ قرار دی جائے گی جسے عمران خان تسلیم نہیں کریں گے اور سول سوسائٹی بھی تنقید کرے گی ۔ان حالات میں انتخابی اصلاحات بے معنی ہو کر رہ جائیں گی۔
وزیراعظم شہباز شریف چونکہ گیارہ جماعتی اتحاد کے بل بوتے پرحکومت کر رہے ہیں ؛چنانچہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ وزرا چونکہ مختلف پارٹیوں سے لیے گئے ہیں اور ان کے علیحدہ علیحدہ پارٹی منشور ہیں‘ ان حالات میں پاکستان معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے بھی قریب پہنچ چکا ہے جبکہ امریکہ پاکستان کے مخصوص حالات کو دیکھتے ہوئے اور عمران خان کی مقبولیت کا اندازہ لگانے کے بعد موجودہ حکومت سے دوری رکھے ہوئے ہے۔ ان حالات میں اندیشہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی افراتفری سری لنکا کی طرز پر بڑھے گی۔ عمران خان کی کال پر اسلام آباد مارچ سے ملک کا سیاسی نظام زمین بوس ہو سکتا ہے۔ وفاقی حکومت میں سکت نہیں ہے کہ وہ اسلام آباد کی یلغار کو روک سکے۔ عوام کی اکثریت کو ایک طرف رکھیں حکومت کو ادراک ہونا چاہیے کہ لاکھوں سرکاری ملازمین بھی اس لانگ مارچ میں باہر آ جائیں گے۔ان حالات میں مناسب یہی ہے کہ آئندہ چند دنوں میں فیصلہ کن مذاکرات کے بعد فوری طور پر نگران حکومت تشکیل دی جائے اور نگران حکومت انتخابی اصلاحات کی اہم شقوں کے ذریعے آرڈیننس کے ذریعے انتخابی عمل کو آگے بڑھائے۔ چاروں صوبائی وزرا کو طلب کر کے چاروں صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا جائے اور الیکشن اگر 90روز میں نہیں ہوتے تو آئین کے آرٹیکل 254 کے تحت تاریخ میں توسیع کی جا سکتی ہے ۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان سے رائے حاصل کرنے کے بعد تاریخ میں چند مہینوں کی مہلت حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
نگران حکومت قائم کرنے کے بعد فوری طور پر ایک ماہ کیلئے سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ نگران حکومت میں بااثر شخصیات کو شامل کیا جائے‘ دوستوں‘ رشتہ داروں اور خفیہ لابسٹس کو اس سے دور رکھا جائے۔ نگران سیٹ اَپ کے ذریعے معاشی حالات بہتر کئے جاسکتے ہیں جس طرح نومبر 1996ء میں صدر فارو ق لغاری نے اپنی معاشی ٹیم کے ذریعے حالات کو بہتر انداز میں چلایا تھا لیکن 2018ء کے نگران سیٹ اَپ میں ایسی کوئی صلاحیت نہیں تھی۔ میری نظر میں اس وقت کے نگران وزیراعظم جسٹس ناصر الملک اس عہدے کیلئے نامناسب تھے۔ انہوں نے 2018ء کے انتخابات کی آئینی و قانونی طور پر نگرانی نہیں کی اور حالات کنٹرول سے باہر ہو گئے ۔ الیکشن کمیشن اور نادرا کے میکنزم ناکام ہو گئے‘ لیکن نگران وزیراعظم ٹس سے مس نہ ہوئے۔ میں ان کو خواب ِ غفلت سے جگاتا رہالیکن وہ سوئے رہے‘ ان کے ملٹری سیکرٹری میرے خدشات کی ضرور گواہی دیں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف کو ادراک ہو جانا چاہیے کہ ان کی بھاری بھر کم کابینہ سے حکومت نہیں چل پا رہی۔ فیڈریشن اب آہستہ آہستہ کنفیڈریشن کی طرف جا رہی ہے۔ بادی النظر میں یہ منظر سامنے آ چکا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے مضمرات سامنے آ رہے ہیں۔ وزیراعظم کی صلاحیت کے آگے اتحادی کھڑے ہیں جو ان کے راستے میں حائل ہیں ۔ یہی تجویز مناسب رہے گی کہ شہباز شریف فوری طور پر مقتدر حلقوں سے ملاقات کر کے آئین کی روشنی میں آگے بڑھیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں