"KDC" (space) message & send to 7575

آرٹیکل 63 اے اور پارلیمنٹ کی رائے

سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلے میں کہا ہے کہ منحرف رکن اسمبلی کا پارٹی پالیسی کے برخلاف دیا گیا ووٹ شمار نہیں ہوگا جبکہ تاحیات نااہلی یا نااہلی کی مدت کا تعین پارلیمان کرے۔چیف جسٹس مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر نے قرار دیا کہ منحرف رکن کا دیا گیا ووٹ شمار نہیں کیا جائے جبکہ جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے فیصلے سے اختلاف کیا۔ماہرین قانون کے مطابق فیصلے میں اکثریتی رائے حالات کے تناظر میں دباؤ کم کرنے کی کوشش جبکہ اقلیتی رائے آئین کی روح کے مطابق معلوم ہوتی ہے۔ماہرین قانون کے مطابق آرٹیکل 63 (اے) میں ترمیم کے بغیر یہ فیصلہ نافذ العمل نہیں ہو سکتا کیونکہ اکثریتی فیصلہ سے دستور پاکستان کے آرٹیکل 95 کی مقصدیت پر اثر پڑتا ہے‘ حتیٰ کہ 63 (اے) کی روح بھی متاثر ہوتی ہے۔ آرٹیکل 17 کو آرٹیکل 63 (اے) کے ساتھ ملانے کو بھی قانون دان حیران کن سمجھتے ہیں۔ اس آرٹیکل میں سیاسی جماعت بنانے کی آزادی ہے مگر کسی سیاسی جماعت کے ساتھ پیوست رہنے کی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔ آرٹیکل 63 (اے) اور آرٹیکل 95کی اپنی انفرادی حیثیت و اہمیت ہے اور دونوں کے اپنے نتائج ہیں۔ کوئی ایک آرٹیکل دوسرے آرٹیکل کی اہمیت کو معطل نہیں کر سکتا۔ ماہرین کے مطابق آرٹیکل 63 (اے) تین اداروں کے گرد گھومتا ہے: سپیکر اسمبلی‘ الیکشن کمیشن آف پاکستان اورسپریم کورٹ۔آئینی ماہرین کا یہ بھی مانناہے کہ کسی قانون اور قانون کی تشریح گزشتہ واقعات پر اثر انداز نہیں ہوتی‘ لہٰذا یہ بھی طے ہونا ہے کہ 16 اپریل کو وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں جو ووٹ شمار ہو گئے عدالت عظمیٰ کی یہ تشریح اُس پر اثر انداز ہوتی ہے یا نہیں؟ صدر مملکت نے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ آف پاکستان سے آرٹیکل 63 (اے) کی تشریح کے لیے رائے حاصل کرنے کیلئے ریفرنس دائر کیا تھا مگر آئینی ماہرین کاخیال ہے کہ اکثریتی فیصلے کے ذریعے جو رائے سامنے آئی ہے وہ آرٹیکل 63 (اے) کی ذیلی شق تین کی منشا سے ہٹ کرہے‘ جس کے تحت کوئی بھی رکن پارلیمنٹ اس وقت تک فلور کراسنگ کی زد میں نہیں آتا جب تک اس کے پارلیمنٹ میں کسی طرزِ عمل کے حوالے سے اس کی سیاسی جماعت کا پارلیمانی سربراہ ایک ڈیکلریشن کے ذریعے پارلیمنٹ کے سپیکر کے ذریعے چیف الیکشن کمشنر کو وہ معاملہ ارسال نہ کر دے۔ جب چیف الیکشن کمشنر کو وہ معاملہ موصول ہو جائے تو رکن پارلیمنٹ کے خلاف سپیکر کا ارسال کردہ ریفرنس اور پارلیمانی لیڈر کی رائے کو قبول یا مسترد کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ہے۔ آئین میں دیے گئے اختیارات کے تحت جب تک الیکشن کمیشن کا فیصلہ سامنے نہ آ جائے کسی رکن پارلیمنٹ کو ڈی سیٹ یا منحرف قرار نہیں دیا جا سکتا؛تاہم سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ رائے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ بادی النظر میں اس سے اس مخصوص معاملے میں الیکشن کمیشن کے اختیارات پر قدغن لگتی ہے۔ معزز عدالت کو آئین کے آرٹیکل 63 (اے) کے مطابق ہی آگے چلنا ہے اور آئین میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ ووٹ کاسٹ کرنے دیا جائے لیکن اس کو کاؤنٹ نہ کیا جائے۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 85 اور 86 کے مطابق متنازع ووٹ کو گنتی میں شمار کیا جاتا ہے اور اس کے لیے الیکشن کمیشن نے طریقہ واضح کر دیا ہے جس کو انتخابی عمل میں ٹینڈر ووٹ اور چیلنج ووٹ کا درجہ دیا گیا ہے لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان نے رائے دی ہے کہ ووٹ کاسٹ کرنے دیا جائے لیکن اس کو شمار نہ کیا جائے‘ مگر الیکشن ایکٹ 2017ء کا تقاضا یہ نہیں۔ ماہرین قانون کے مطابق سپریم کورٹ کی رائے پر اگر من و عن عمل کیا جاتا ہے تو پھر 14ویں ترمیم میں وضع کردہ پارٹی ہیڈ کے اختیارات‘ جنہیں اٹھارہویں ترمیم میں محدود کر دیا گیا تھا‘ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔اس سے یہ خدشہ ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی پارٹیوں میں آمریت سامنے آئے گی اور ارکانِ پارلیمنٹ پارٹی کے سربراہوں کے غلام بن جائیں گے۔ ارکانِ پارٹی کو ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے پہلے ہی پارٹی فنڈز میں کروڑوں روپے کے عطیات دینا پڑتے ہیں جن کی مالیت پانچ کروڑ روپے سے بھی زائد تک ہوتی ہے۔ میری ذاتی اطلاع کے مطابق بڑی سیاسی جماعتوں نے مستقبل قریب میں پارٹی ٹکٹ دینے کے لیے کم سے کم دو کروڑ روپے کے عطیات جمع کرنا شروع کر دیے ہیں۔
صدر پرویز مشرف کو کریڈٹ دینا چاہیے کہ انہوں نے 17ویں آئینی ترمیم کے ذریعے فلور کراسنگ کے قانون کی شدت کم کر دی تھی۔ پارٹی ضابطہ اخلاق جیسی نامکمل اصطلاح پر اراکینِ اسمبلی کو فارغ کرنے کے بجائے وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ کے انتخاب‘ اعتماد یا عدم اعتماد کے ووٹ اور بجٹ کے موقع پر یا آئینی ترمیم کی صورت میں پارٹی ہدایات کے خلاف ووٹ ڈالنے کو انحراف قرار دیا گیا مگرایسی صورت میں بھی سیاسی جماعت کے سربراہ کو مکمل اختیارات دینے کے بجائے کارروائی کرنے کا طریقہ کار طے کیا گیا جس کے مطابق پارٹی کا سربراہ سپیکر کو ریفرنس بھیجنے کا مجاز تھا اور جب سپیکر یہ ریفرنس الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ارسال کر دے تو الیکشن کمیشن کو متعلقہ رکن اسمبلی کو ڈی سیٹ کرنے کا پابند نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس ریفرنس کو خارج بھی کیا جاسکتا تھا۔ اگر ریفرنس کے نتیجے میںکسی رکن پارلیمنٹ کو ڈی سیٹ کر دیا جاتا تو اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل بھی کی جا سکتی ہے۔ اس کو آئین کے آرٹیکل 63 (اے) میں واضح کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں تحریک انصاف کی منحرف رکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئی کا ریفرنس بطور حوالہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ عائشہ گلالئی کا ریفرنس تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی وساطت سے بھجوایا تھا جسے اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردار رضا نے مسترد کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ عائشہ گلالئی کا ریفرنس بدنیتی کی بنیاد پر بھجوایا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اس وقت کے چاروں ارکان کمیشن نے متفقہ طور پر ریفرنس کو مسترد کیا تھا۔ چیئرمین تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل دائر کی تھی جسے اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے مسترد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا اور ریفرنس کو بدنیتی ہی قرار دیا تھا۔ صدارتی ریفرنس کی بحث کے دوران اٹارنی جنرل پاکستان نے اپنے دلائل میں عائشہ گلالئی ریفرنس کا حوالہ دیا تھا۔
اپریل 2010ء میں اٹھارہویں ترمیم منظور کروائی گئی تو آرٹیکل 63 (اے) کو مزید بہتر کر دیا گیا۔ اب وفاداری بدلنے یا پارٹی ہدایات کے خلاف ووٹ دینے پر ریفرنس بھیجنے کا اختیار سیاسی جماعت کے سربراہ کے بجائے پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کو دے دیا گیا۔ اب سپریم کورٹ آف پاکستان نے صدارتی ریفرنس میں قرار دیا ہے کہ منحرف ارکان کی طرف سے ڈالے گئے ووٹ شمار نہیں ہوںگے‘ لیکن ارکان پارلیمنٹ کو ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے اسے مسترد کرنے کا استحقاق حاصل ہے۔ پارلیمنٹ قرارداد کے ذریعے سپریم کورٹ کی رائے کو آئین کے آرٹیکل 63 (اے) کے منشا سے مختلف قرار دے سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں