"KDC" (space) message & send to 7575

لانگ مارچ کا ڈرامائی اختتام

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا اسلام آباد لانگ مارچ مطلوبہ نتائج حاصل کیے بغیر ختم ہوگیا۔ خان صاحب کے معتمد پارٹی رہنماؤں نے انہیں حقائق سے آگاہ نہیں کیا تھا ؛چنانچہ انہوں نے سوشل میڈیا کی کامیاب مہم کو ہی اپنی کامیابی کی منزل سمجھ لیا۔ یہ صورتحال کسی حد تک امریکہ کی سابق صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کی انتخابی مہم سے ملتی ہے جنہوں نے سوشل میڈیا پر انحصار کیا اور جعلی سرویز کو بنیاد بنا کر صدارتی انتخاب میں کامیابی کی آس لگالی۔اس میں کوئی کلام نہیں کہ عمران خان صاحب نے وزارتِ عظمیٰ سے سبکدوشی کے بعد کامیاب جلسے کیے اور امید کی کرن پیدا ہو ئی تھی کہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو آئندہ انتخابات میں ان کی جماعت کو بھاری اکثریت حاصل ہو جائے گی‘ مگر لانگ مارچ جس طرح مطلوبہ کامیابی نتائج کیے بغیر ختم کر نا پڑا اس سے ہر ذہن سوچ میں پڑ گیا ہے۔ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ مقتدر حلقوں کی طرف سے خان صاحب سے رابطے کئے گئے ہیں مگر میری رائے میں یہ محض قیاس آرائی ہے۔ حقیقت یوں ہے کہ مقتدرہ کے حلقوں کے بجائے حکومت پاکستان کی جانب سے ان سے رابطے کئے گئے اور انہیں گرفتاری کے حکومتی ارادے سے آگاہ کیا گیا۔مبینہ طور پر سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کی صورت میں انہیں‘ ساتھیوں سمیت گرفتار کر نے کی تیاری کی گئی تھی۔شاید اسی گھبراہٹ اور پریشانی کے عالم میں خان صاحب نے اسلام آباد لانگ مارچ کو ڈرامائی انداز میں ختم کر کے واپس پشاور کی راہ لی۔ عمران خان کی مایوسی کا دوسرا بڑا سبب عمومی وجوہات میں شرکائے مارچ کی غیر متاثرکن تعداد تھی جبکہ عدالتی کارروائی اور بعد ازاں آرٹیکل 245 کے تحت ریڈ زون میں افواجِ پاکستان کی طلبی سے ان کے منصوبے پر پانی پھر گیا۔ لانگ مارچ کے دوران دنیا نیوز کے سینئر اینکر کامران شاہد نے یہ بریکنگ نیوز بھی دی کہ حکومت‘ مقتدر حلقوں اور عمران خان کے مابین معاہدہ ہو گیا ہے جس کے مطابق خان صاحب لانگ مارچ کے اختتام کا اعلامیہ جاری کرنے والے ہیں۔یہ بھی کہا جارہا تھا کہ استعفے واپس ہو جائیں گے اور پارلیمنٹ میں آئندہ الیکشن کی تاریخ کا تعین کرتے ہوئے نگران سیٹ اپ تشکیل دیا جائے گا۔ اس اہم خبر سے بھی احتجاجی تحریک کا زور کم ہوا اور عوام نے گھروں سے نکلنے سے گریز کیا۔
قریب ساڑھے تین برس کے اقتدار کے باوجود اسلام آباد میں تحریکِ انصاف کے تین ارکانِ قومی اسمبلی کی کارکردگی صفر رہی اور ان ارکانِ قومی اسمبلی کا ووٹرز اور عوام سے عدم تعاون جاری رہا، شاید اس لیے بھی اسلام آباد کے عوام بھر پور طریقے سے گھروں سے نہیں نکلے جبکہ حکومتی انتظامات نے لاہور‘ فیصل آباد‘ گوجرانوالہ‘ سیالکوٹ اورراولپنڈی کے ارکانِ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کو گھروں سے باہر نہیں نکلے دیا۔ راولپنڈی میں شیخ رشید کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھائے جا تے ہیں جبکہ لاہور میں شفقت محمود بھی سرد مہری کے حصار میں رہتے ہیں؛چنانچہ اس احتجاجی تحریک کے دوران خان صاحب کو اپنی صفوں میں ایسے لوگوں کا سامنا رہا جن کے عوامی رابطے بہت کم رہ گئے ہیں۔ اب عمران خان صاحب کا فرض ہے کہ اپنی صفوں میں موجود ان عناصر سے باز پرس کریں اور ایسے ارکان کو آگے لائیں جنہوں نے تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تھی اور جو خودغرض عناصر کی سازشوں کا شکار ہو کر پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئے تھے۔یہ سمجھا جاتا ہے کہ خان صاحب کو بیورو کریسی میں عدم اعتماد کا سامنا اس لیے کرنا پڑا کیونکہ ان کے پرنسپل سیکرٹری اور مشیران نے انہیں اندھیرے میں رکھا۔خان صاحب کے اردگرد ایسے عناصر جمع ہو چکے تھے جنہوں نے ان کے سارے نظام ہی کو مفلوج کر رکھا تھا۔ اعظم خان بیورو کریسی کی صفوں میں'' برہمن‘‘ کے نِک نیم سے مشہور تھے‘ ایک بار تو میری موجودگی میں بعض صحافیوں اور دانشوروں نے عمران خان سے شکایت کی تھی کہ آپ کے برہمن ہمیں اچھوت سمجھتے ہیں۔
خان صاحب نے الیکشن کمیشن سے بلاوجہ محاذ آرائی کی اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے پروجیکٹ اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے معاملے میں الیکشن کمیشن کی تجاویز کو سبوتاژ کیا گیا۔ تین سال تک الیکشن کمیشن اور حکومت کے درمیان تناؤ برقرار رہا ۔ اس دوران الیکشن کمیشن نے جتنی بھی تجاویز وزیراعظم کو بھیجیں ‘ وزیراعظم نے ان خطوط اور سمریوں کا جواب نہیں دیا‘ جس کی وجہ سے قانون سازی ہی نہیں ہو سکی؛ تاہم موجودہ حکومت انتخابی اصلاحات کیلئے سنجیدہ نظر آ رہی ہے‘ اس کام کی ابتدا انہوں نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے قانون میں ترمیم کے بل کی صورت میں کی ہے۔ مذکورہ بل پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منطورہو چکا ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ94 اور 103 میں ترمیم کر کے ان منصوبوں کو ختم کر دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کو مکمل خودمختاری دینے کیلئے ہر قسم کی مداخلت سے آزاد کرنے کی قانون سازی بھی کرنی چاہیے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے معاملات میں دخل اندازی سے اس آئینی ادارے کی خود مختاری متاثر ہوتی ہے۔ الیکشن کمیشن نے انتخابی بدعنوانیوں پر جتنے بھی فیصلے کیے‘ اعلیٰ عدالتوں میں یہ کالعدم قرار پائے ‘ ضابطہ اخلاق کے بارے میں بھی جو سخت فیصلے الیکشن کمیشن نے کیے اعلیٰ عدالتوں نے انہیں بھی غیر قانونی قرار دیا ۔ الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 232 اور 234 کے تحت یہ فیصلے کیے تھے۔ انتخابی اصلاحات کی جو کمیٹی پارلیمنٹ نے تشکیل دی ہے اس کو چاہیے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان سے مشاورت کرتے ہوئے ڈسکہ رپورٹ ‘جو قومی اسمبلی کے حلقہ 75 کے متعلق اہم رپورٹ ہے‘ الیکشن کمیشن سے منگوائے اور اس کی روشنی میں انتخابی اصلاحات کی جائیں۔ ڈسکہ الیکشن کی رات کو 25 پریزائیڈنگ آفیسرز اغوا کیے گئے تو ان کی بازیابی کے لیے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کو فون کیے مگر فون کالز اٹینڈ نہیں کی گئیں۔ جب ان اعلیٰ عہدیداروں کو توہینِ عدالت کے نوٹس پر طلب کیا گیا تو انہوں نے جو بیانات ریکارڈ کروائے ان کی روشنی میں ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے ۔ الیکشن کمیشن کو انتظامی اختیارات بھی دیے جائیں تاکہ وہ آفیسرز اور انتخابی عملے کے خلاف تادیبی کارروائی کر سکے اور کسی صوبائی حکومت کا محتاج نہ ہو۔ یہی حقیقی انتخابی اصلاحات ہوں گی۔ ڈسکہ رپورٹ سے انتخابی اصلاحات کیلئے کافی مواد حاصل ہو جائے گا۔
عمران خان صاحب کو اسلام آباد لانگ مارچ کو ختم کرنے سے پیشتر 18 جنوری 2013ء کو وفاقی حکومت سے ہونے والے اس معاہدے کو مدنظر رکھنا چاہیے تھا جو ڈاکٹر طاہر القادری نے اسلام آباد لانگ مارچ کے خاتمے پر کیا تھا۔ اس پر راجہ پرویز مشرف‘ قمر الزمان کائرہ‘ خورشید شاہ اور اُس وقت کے دیگر وفاقی وزرا کے دستخط تھے ۔ اس معاہدہ کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری نے لانگ مارچ دھرنا ختم کر دیا ‘بعد ازاں اس معاہدہ پر عمل درآمد نہ ہو سکا کیونکہ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چودھری نے اسے مسترد کر کے ڈاکٹر طاہر القادری کو واپس کینیڈا بھیجوا دیا۔ اسی طرح اگست 2014ء میں ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے لانگ مارچ کے دوران مقتدرہ کی مداخلت ہی سے انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کیلئے جو ڈیشل کمیشن قائم کیا گیا‘ لیکن خان صاحب بغیر معاہدہ کیے اسلام آباد سے واپس چلے گئے۔ ان حالات میں لانگ مارچ کی ناکامی کو مدنظر رکھتے ہوئے پی ٹی آئی کو ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنانی چاہیے اور جن پارٹی رہنماؤں نے عمران خان کو اور ان کے حامیوں کو دھوکا دیا ہے‘ ان کو پارٹی سے خارج کرنا چاہیے۔سپریم کورٹ آف پاکستان اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں بجا طور پر یہ قرار دیا ہے کہ ایسے وقت میں جب جذبات کی وجہ سے لوگ تقسیم ہوں کیس کی گہرائی میں جانا مناسب نہیں۔ ان چیزوں میں مداخلت نہیں کریں گے اور جو ہوا افسوس ناک ہے‘ سیاسی جماعتوں پر اعتماد ٹوٹاہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں